ہم پاکستانی قوم دنیامیں ایک عجیب مائنڈ سیٹ رکھتے ہیں ہم چاہتے تو ہیں کہ دنیا ہماری عزت کرے لیکن ہم دنیا کی عزت کریں اس بارے میں ہماری زبان گنگ ہوجاتی ہے۔ بچپن سے ہمیں گھروں میں سکھایا جاتا ہے کہ دنیا فانی ہے اور ہمارے خلاف بالخصوص مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں۔ ایک سمپتھی کارڈ بھی استعمال کرتے ہیں اور سارے جہاں پر قبضے کا جنون بھی دل میں ٹھاٹھیں مارتا ہے۔ ہم واحدقوم ہیں جو دوسرو ں کو محبت سے جیتنے کی بجائے خوف کے ساتھ فتح کرنے کے خواہش مند ہیں اور جب دنیا آپ کو اوائیڈ کرتی ہے تو کسی فوبیا کا نام دیکر کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ ہوسکتا ہے یہ بات کلی طور نہ سہی جزوی طور پر یہ بات ماننا پڑے گی یعنی سب لوگ ایسے نہ بھی ہوں پھربھی ایسوں کی تعداد کم بھی نہیں۔
چند دن پہلے کرسمَس کے ایام گزرے ہیں بجائے اس کے کہ دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہوں ایسا معلوم ہورہا تھا ہے کہ سارا پاکستان اس اقلیتی دن کے خلاف سراپا ء جہاد ہے۔ سوشل میڈیاکے کسی پلیٹ فارم پر چلے جائیں آپ کرسمَس کے خلاف ایک طوفان نظر آتا ہے۔ پہلی بات تو ایسا عمل بابائے قوم کی گیارہ اگست کی تقریر کے ہی خلاف ہے جہاں قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں بسنے والے اکثریت اور اقلیت کی سماجی اور مذہبی آزادی کی یقین دہانی کرائی گئی تو دوسری بات یہ ہے کہ ملک کی محض تین فیصد آباد ی کے تہواروں سے ہی آپ کے ایمان کو خطرہ پڑ جاتا ہے۔ناجانے کچھ لوگوں کا اتنا کمزور ایمان کیوں ہے؟ حالانکہ اس تین فیصد کو کبھی بھی ملک کے ستانوے فیصد کے دین سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا اس کے باوجود ملک کا ہر غیرمسلم کسی نہ کسی شکل میں تعصب کا شکار ہو رہتا ہے۔ دوسری بات یہاں دوطرح کے مذہبی افکار کے لوگ ہیں جو اپنے اپنے عقیدہ کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں تو اختلاف کی وجہ ہی نہیں بنتی۔ ایک مورتی پوجا کرنے والے دوسرے توحید پر یقین رکھنے والوں میں تو تال میل ہی نہیں بنتایعنی میرے دین سے مختلف مذہبی نظریہ رکھنے والے جب رہ ہی اپنے طریقے سے رہے ہیں تو اختلا ف کس بات کا۔ ایک چھوٹا سا تو کام کرنا ہے کہ دوسرے کو اس کی مذہبی شناخت کے ساتھ قبول کرنا ہے یا نہیں۔ اگر ہاں تو پھر دوسروں کی خوشی میں شریک ہونے سے ایمان کیسے خطرے میں پڑسکتا ہے اور اگر کہیں ایسا خطرہ محسوس ہوبھی رہا ہو تو شامل ہونے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اپنی اپنی جگہ سب جئیں اور دوسروں کو بھی اپنے عقیدوں کے مطابق جینے کا حق دیں۔ چلیں مان لیا وہ جہنم میں جائیں گے تو اس میں آپ کا کیا لینا دینا ہے۔ کیوں آپ اُنہیں اپنے مذہبی نقطہ نظر سے سہمت کروا رہے ہیں۔
بات ایک بارپھر گھوم پھر کر کرسمَس مبارک کہنے پر آتی ہے۔ پہلے تو لغوی طور پر کرسمَس کا مطلب”خدا نے بیٹا جنا بالکل بھی نہیں “ دوسری بات دو سکول آف تھاٹ ہیں اور وہ اپنے سکول آف تھاٹ سے کرتے ہیں اب یہ غلط ہے یا سہی اُن کامسئلہ ہے۔ دوسری بات اگر دل میں کوئی کھٹک ایسی موجود بھی ہے تو بالکل کرسمَس مبارک نہیں کہنا چاہییے۔ پھر بحث دور تک نکل جاتی ہے وہ کتنا غلط ہے یا کتنا درست یہ بعد کی بات ہے۔
اب آگے لوہڑی آنے والی ہے لوہڑی ایک پنجابی تہوار ہے جس کا تعلق ایگریکلچر سے ہے اور پنجاب کے خطہ سے ہے۔ مطلب یہ ایک خالصاً دیسی،پنجابی تہوار ہے اسے تاریخی طور پر دُلے بھٹی جن کا پنجاب سے تعلق تھا جس نے ایک ہندو بچی کو اپنی بیٹی بنا کر پالا اور اس کی شادی ایک باپ کی طرح کی اور پنجاب کی غرت کو چار چاند لگائے ثابت کیا کہ پنجابی جس کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھ دیں اس کی تقریم کی خاطر جان دینے بھی گریز نہیں کرتے۔ایسے ہی پاکستان میں بسنے والے سب لوگوں کے اپنے تہوار یعنی، عیدیں،شبراتیں،دیوالی،ہولی،لوہڑی،کرسمس، ایسٹر وغیرہ ہیں۔ یہ سب تہوار اپنی اپنی مذہبی شناخت کے ساتھ ساتھ سماجی جُڑت کے لیے بھی ہوتے تاکہ لوگ معاشرتی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ ایک دوسرے کی خوشیاں سانجھی کر سکیں۔اس سے بھلا ہمیں ڈرنا نہیں چاہیے۔ اگر ہم ہرچیز اپنے مذہبی نقطہ نظر سے دیکھیں گے تو ضروری نہیں سب لوگ ہمارے معیار پر پورا اتریں ہمیں صرف ان کے سماجی پہلووں کو سامنے رکھنا چاہیے۔ کیونکہ کوئی بھی تہوار جب عبادت گاہ کے اندر ہوتا تو وہ مذہبی حیثیت میں ہوتا ہے لیکن عبادت گا ہ کے باہر اُسے سماجی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔ جیسے عیدکی نماز مسجد میں ہوتی ہے اور عیدکی خوشی کا جشن مسجد سے باہر جس میں بغیر رنگ نسل مذہبی سب شریک ہوتے ہیں کرسمس یا ہولی دیوالی بھی ایسے ہی ہوتی ہے کرسمس کی عبادت تو چرچ میں ہوتی ہے لیکن جشن یا خوشی چرچ سے باہر جس پر سب کا حق۔ پھر بھی اگر کسی کی ایمان کے جانے کا خوف ہو تو ایسے خوشیوں میں قطعاً شریک نہیں ہونا چاہیے۔کیا غلط ہے کیا سہی اس کا فیصلہ خدا پر چھوڑ دینا چاہیے۔پاکستان کو امن،محبت اور یگانگت کی ضرور ت ہے نہ کہ نفرت اور انتہاپسندی کی۔ پس اس لیے ہمیں ہر مذہبی تہوار پر وہ چاہے مسلم کا ہو یا غیرمسلم کا کیڑے نکالنے کی بجائے یگانگت اور خوشی سے تسلیم کرنا چاہیے عقیدے اندر کی بات ہوتے اور اندر مضبوط ہو تو باہر کے گرم سرد موسم ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔پس ہمارے ملک کو محبت،امن اور صلح کی ضرورت ہے نہ نفرت اور حقارت کی۔
بقول صوفی شاعر بابا مختار عالم؛
گل وِچ پاؤ صلیب مسیتے بیٹھے رہو
متھے اوتے تلک لگائیاں کیہ جاندا
توں تے ساڈے پچھلے اندر وسنا ویں
ہور کِسے نوں کول بٹھایاں کی جاندا
لہٰذا اِس انتہاپسندی نے ہمارے پیارے وطن کو پہلے ہی کہیں کا نہیں چھوڑا۔ پاکستان پائندہ باد۔
*******