کہا جاتا ہے کہ ” خاموشی اور ادب دونوں انسانوں کی قدرو قیمت میں اضافہ کا باعث ہوتے ہیں۔“ ادب کا معامہ تو چلیں اخلاقیات کے ذمرے میں آگیا لیکن خاموشی کے ساتھ ساتھ بعض موضوعات اور امور پر آپ کا ایک متوازن اور منطقی اظہار ِ رائے کسی معاملے کو ایک نیا رُخ دے سکتا ہے۔ اس لے اپنے زورِ بیاں کو جوقدرت نے آپ کو نوازا ہے اُسے ضرور استعمال کریں۔
رواں سال کے پہلے مہینے سے ہی مثلِ قطرہ در قطرہ دوست احباب اور عزیز و اقار ب کا اس دُنیا ئے رنگ و بو سے ملک ِ عدم روانہ ہوتے رہے۔ پسماندگاں انہیں آنسو اور رنج و الم سے پیوندِ خاک کرتے رہے۔ موبائل فون کے اندر ،رفتگاں کے نمبر ایک عرصہ ہوا خاموش پڑے ہیں۔ اُن نمبروں سے نہ کوئی کال آتی ہے اور نہ اُن نمبروں کا مٹانے کا حوصلہ ہوتا ہے۔ واٹس ایپ جیسی ایپ پر بھی ان کے اکاؤنٹ سے کوئی ٹائم وش یا پیغام نہیں آیا۔
اک عجیب مخمسے میں زندگی کے شب و روز ہیں۔”کس قدر پیارے پیارے ناموں پررینگتی ۔۔۔بد نما لکیریں سی، میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں۔۔۔دوریاں دائرے بناتی ہیں!۔۔۔نام جو کٹ گئے ہیں ان کے حرف۔۔۔ایسے کاغذ یہ پھیل جاتے ہیں،حادثے کے مقام پر جیسے خون کے سوکھتے نشانوں پرچاک سے، لائنیں لگاتے ہیں!“ (امجد اسلام امجد)
سال کے آخری دن آفس کی چھٹیوں کی وجہ سے خود کو وقت دینے کا وقت مل جاتا ہے ۔ عارضی طور پر بچھٹرے لوگ ایسے لگتے ہیں جیسے انہیں صدیاں ہوئیں جُدا ہوئے۔ رخصت ہوتے سال میں سود و زیاں پر غور کرنے بیٹھتے ہیں تو لگتا ہے کہ جیسے پلوں کے نیچے سے کتنا ہی پانی گذر گیا۔ حاصلات کم اورنقصانات کی فہرست طویل لگنے لگتی ہے ۔۔۔ لیکن یہ نہ شکر گذاری کے سوا کچھ نہیں۔ حالاں کہ یہ بصارت، قوتِ گویائی، یہ سماعت، دست و بازو کی حرکات ، دل کی دھڑکنیں اور خون کی تن میں گرمیاں پیدا کرتی گردش اور بدن میں موسم اور موذی وبائی امراض سے بچاؤ کی ہمارے جسم ی قوتِ مزاحمت ۔۔۔ کیا یہ سب چیزیں کسی نعمت اور فضل و کرم سے کم ہے ۔۔۔ گننے بیٹھیں تو الٰہی کرامات کی فہرست ہی نہ ختم ہو۔۔۔ برکات ان گنت ہیں ، ختم نہ ہوں گیں۔
وہ احباب !کیسے بد نصیب تھے جو دسمبر کے آخری سالوں کے فنش لائن کے پاس ہی حادثوں کی نظر ہوگئے۔ اور ہمارے لئے یہ پیغام چھوڑ گئے۔ بقول اقبالؒ۔۔۔
اسی روز و شب میں اُلجھ کر نہ رہ
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
اور شاید اِسی تاریخی غزل کے حوالے سے اپنے لئے رفتگاں یہ سبق لے گئے ملاحظہ ہو ۔۔۔ع
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
اس سال کا تجربہ آپ کو کیسا لگا؟ اپنے جواب کو تیار کرتے وقت، اس بارے میں مخصوص رہیں کہ آپ کن مہارتوں اور مواقع کی تلاش کر رہے ہیں، اور یہ ظاہر کریں کہ وہ کردار اور کمپنی کے مقاصد کے ساتھ کس طرح ہم آہنگ ہیں۔ ایسے عمومی اور خود غرض جوابات سے پرہیز کریں جو پیشہ ورانہ ترقی یا تنظیم میں شراکت میں حقیقی دلچسپی ظاہر کرنے میں ناکام ہوں۔میں مہینوں سے سوچ رہا ہوں اور آئیڈیاز اکٹھا کر رہا ہوں، اور میں آپ کے ساتھ ان بہترین اسباق کا اشتراک کرنا چاہتا ہوں جو میں نے پچھلے کچھ سالوں میں سیکھے ہیں،دکھاتے رہیں۔یہ ایک گاؤں یا پوری برادری لیتا ہے۔تنوع کو فروغ دیں، تنوع کی تمام اقسام۔کمزوری اور مہربانی میں طاقت۔تبدیلی کو گلے لگائیں۔
اس مہمان سال میں کیا اچھا تھا۔۔۔ اس بات کے لئے مثبت ور پرُ اُمید رہیں۔ دوستوں اور اپنے باس کوآپ گزشتہ سال کی اپنی تمام کامیابیوں کو گنوائیں۔ آپ کمپنی کے اندر اپنے مخصوص کردار یا کام سے باہر ہونے والی کسی دوسری کامیابی سے متعلق کامیابیوں کو شامل کر سکتے ہیں، جیسے پچھلے سال کے دوران آن لائن سرٹیفیکیشن حاصل کیا جس نے آپ کی موجودہ ملازمت میں مدد کی وغیرہ وغیرہ۔
اس رواں سال کی اچھی باتوں کو یاد کریں جو آپ نے کیں جیسے کہ۔۔۔آپ کا بانی، گروتھ نیٹ ورک آپ کو تخلیق کرنے میں آپ کی مدد کر رہا ہے ۔۔ آپ لچک اور تجدید کرنے والے ٹھہرے۔۔۔موجودہ رشتوں کی پرورش کی۔۔۔ذاتی کاروباری تقریبات میں شرکت ایک قابل قدر سرمایہ کاری تھی جو کہ آپ کے فائدہ مند ٹھہری۔۔۔مقامی رابطوں کو مضبوط بنایا ۔۔۔مزید لوگوں کو نہیں کہا سیکھا۔۔۔ڈرامے سے دُوری۔۔۔مائنڈ سیٹ کے معاملات میں محتاط ۔۔۔ صحت کے معاملات میں غفلت نہیں برتی اور بہت کچھ ایسا کہ جس کو آپ اپنی اچھی عادات و اعمال میں استعمال کرسکے ہیں۔
ان مثبت اور یاد گار باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بات ہرگز ہرگز مت بھولیں غلطیوں کو سدھارکہ آپ میں اعتماد اور حو صلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ وہ کون سی کمزوریاں تھیں جو اس چند لمحوں کے مہمان سال نے آپ کی جھولی میں ڈالی ہیں۔ تفصیلات پر بہت زیادہ توجہ دی، پراجیکٹس چھوڑنے میں مشکل پیش آئی۔مجھے ”نہیں“ کہنے میں دشواری ہوئی،میں گم شدہ ڈیڈ لائن سے بے چین رہا، میں مزید تجربہ استعمال کر وں گا،مجھ میں کبھی کبھی اعتماد کی کمی آئی،مذہبی طور پر میں لاپروہ اور بے پرواہ رہا وغیرہ وغیرہ۔تحریر کو سمیٹتے ہوئے۔۔۔ ”پھر دسمبر کے آخری دن ہیں،ہر برس کی طرح سے اب کے بھی،ڈائری اِک سوال کرتی ہے،کیا خبر اِس برس کے آخر تک۔۔۔؟ میرے اِن بے چراغ صفحوں سے کتنے ہی نام کٹ گئے ہوں گے کتنے نمبر بکھر کے رستوں میں،گرد ماضی سے اَٹ گئے ہوں گے۔خاک کی ڈھیریوں کے دامن میں۔۔۔کتنے طوفاں سمٹ گئے ہوں گے۔“ (امجد اسلام امجد)
جی! خاک کی ڈھیریوں کے دامن میں۔۔۔ واقعی بہت کچھ چھپ گیا ہوں۔ لیکن زندگی کا کارواں اپنی اونچ نیچ اور نشیب و فراز کے ساتھ، دست ِ الٰہی کی ہدایات والا ہاتھ پکڑے ہوئے شاہراہِ موجود میں اپنے تجربات کے ساتھ ساتھ مشاہدات کی روشنی زندگی اور وقت کی منزلیں طے کرتے جائیں گے۔ ربّ ِ عظیم کی پناہ میں زندگی کی ناؤ ناگہاں خطرات سے بچتے بچاتے آگے ہی آگے بڑھتی جائے گی۔ سالِ نو میں قدوس و برحق آپ کی سہائتا اور راہ نمائی کرے، آمین!۔
*******