ایمان کی پرواز — عقابوں کی سی زندگی : جاوید ڈینی ایل

“لیکن خداوند کا انتظار کرنے والے ازسرِ نو زور حاصل کریں گے؛ وہ عقابوں کی مانند بال و پر سے اُڑیں گے۔ وہ دوڑیں گے اور نہ تھکیں گے، وہ چلیں گے اور ماندہ نہ ہوں گے۔” (یسعیاہ 31:40)

زندگی کا سفر ہمیشہ ہموار نہیں ہوتابلکہ نشیب و فراز کی صورت ہوتا ہے، کہیں راستے دلدل کی مانند اِنسان کے قدم روک لیتے ہیں، کہیں طوفان سامنے آ کھڑا ہوتا ہے اور کبھی تھکن دِل کے کسی کونے میں بیٹھ کر اِِنسان کو شکست کے احساس سے دوچار کر دیتی ہے۔ ایسے میں بائبل مقدس ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اصل طاقت اِنسان کے بازوؤں میں نہیں بلکہ اُس خدا میں ہے جو اپنے بندوں کو وقتِ ضرورت نئی قوت عطا کرتا ہے۔
یسعیاہ نبی کے یہ الفاظ اُمید کے روشن چراغ کی مانند ہیں؛  “خداوند کا انتظار کرنے والے ازسرِ نو زور حاصل کریں گے۔”۔
یہ انتظار بے عملی نہیں بلکہ ایمان کا وہ ٹھہراؤ ہے جو اِنسان کو خدا کی حضوری میں سکون، حوصلہ اور تازگی عطا کرتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب انسان اپنی کمزوریوں سے اُوپر اُٹھ کر ‘عقابوں کی سی روحانی پرواز’ کے لیے تیار ہوتا ہے۔ عُقاب ہمیشہ سے مضبوطی، آزادی اور بلندی کا استعارہ رہا ہے۔ وہ طوفان سے خوف زدہ نہیں ہوتا بلکہ ہوا کے سخت جھونکوں کو اپنے پَروں کے نیچے سمیٹ کر خود کو مزید اُونچا لے جاتا ہے۔ طوفان اس کے لیے رکاوٹ نہیں بلکہ ‘بلندی کا ذریعہ’ بن جاتا ہے۔ یہی حقیقت روحانی لحاظ سے ایمان دار کی زندگی میں بھی جلوہ گر ہوتی ہے۔

خداوند پر بھروسا رکھنے والا شخص مشکلات سے ٹوٹتا نہیں بلکہ اُن میں سے سنور کر نکلتا ہے۔ اُس کے لیے آزمائشیں شکست کی علامت نہیں بلکہ رُوحانی تربیت کا میدان ہوتی ہیں۔ جب اِنسان اپنی محدود قوت کے بجائے خدا کی لامحدود طاقت پر بھروسا کرتا ہے تو وہ نہ صرف تھکن سے بچ جاتا ہے بلکہ اندر سے ایسی تازگی پاتا ہے جو کسی دُنیوی سہارے سے نہیں مل سکتی۔ آیت کہتی ہے کہ خداوند پر توکل رکھنے والے ”دوڑیں گے مگر تھکیں گے نہیں، چلیں گے مگر ماندہ نہ ہوں گے۔“ اِس کا مطلب یہ ہے کہ خدا اِنسان کو ایسی قوت بخشتا ہے جو زندگی کے سفر کو ممکن بناتی ہے۔ وہ قوت جو دِل کو ہمت دے،خیالات کو حوصلہ دےاور زندگی کو سمت عطا کرے۔ایمان دار کی پرواز عقاب کی پرواز کی طرح ہوتی ہے— آزاد، بلند، پُر اعتماد۔ وہ زمین کی تھکن اور مشکلات سے اُوپر اُٹھ جاتا ہے، کیونکہ اُس کا انحصار اپنی طاقت پر نہیں بلکہ اُس خدا پر ہوتا ہے جو کبھی تھکتا نہیں، کبھی ماندہ نہیں ہوتا اور اپنے بندوں کا بازو ہمیشہ تھامے رکھتا ہے۔ یسعیاہ 31:40 کا یہ پیغام آج بھی اتنا ہی تازہ ہے جتنا ہزاروں سال پہلے تھا۔ خدا اپنے لوگوں کو بتاتا ہے کہ ایمان کی بنیاد طاقت میں نہیں، بھروسے میں ہے؛ مسئلوں سے بچنے میں نہیں، ان میں سے خدا کے سہارے گزرنے میں ہے۔ جو خداوند کا انتظار کرتے ہیں، وہ کبھی خالی نہیں رہتے۔ وہ نئی روحانی طاقت پاتے ہیں، نئے حوصلے سے اُٹھتے ہیں اور عقابوں کی مانند اپنی زندگی کے آسمانوں پر پرواز کرنا سیکھ جاتے ہیں۔ اور پھر وہی ایماندار بے اختیار کہہ اُٹھتاہے؛
“جو مُجھے طاقت بخشتا ہے ہے اُس میں مَیں سب کچھ کر سکتا ہوں” (فِلپیوں13:4)

خود کو پیش کرنے کی ضرورت ہے پس، اگر آج تیرا دِل تھکا ہوا ہے، اگر تیرے قدم لڑکھڑا رہے ہیں، اگر زندگی کا بوجھ بھاری لگ رہا ہے—تو اپنے خدا کی طرف دیکھ۔وہی قوت کا سرچشمہ ہے۔وہی تیرے پروں کو نئی تازگی دے گا۔وہی تجھے عقاب کی مانند بلند پرواز دے گا۔جیسے مَیں نے اپنی ایک غزل میں کہا ہے؛
تُم ہٹا دو گے پہاڑوں کو مگر
قوتِ ایمان ہونی چاہیے
آخر میں یہی کہوں گا؛
مری پانیوں پر جو پرواز ہے
یہ میرے مسیحا کا اعجاز ہے
مَیں جاویدؔ! اُس کے بِنا کچھ نہیں
وہی میرا انجام و آغاز ہے

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading