پچیس مئی2024 کو سرگودھا کے علاقہ مجاہد کالونی میں پیش آنے والے سانحہ کا حال بیان کرنا آسان تو نہیں مگر جوکچھ ان کے افراد خانہ سے معلومات حاصل ہوئیں ان معاملات کو زیر بحث لایا جا سکتا ہے کیونکہ یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے یا پھر پہلی بار یہ سانحہ پیش نہیں آیا ۔ ہمارے ملک میں اس طرح کے واقعات کہیں نہ کہیں پر ہوتے رہتے ہیں ہماری ملکی سالمیت کو نقصان پہنچانے والے تھوڑے سے عناصر اپنی پسماندہ سوچ اور علمِ محبت سے دُوری کی وجہ سے ناجانے کیوں اس طرح کے گھنونے کھیل سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔بات ہے سرگودھا مجاہد کالونی کے رہائشی نذیر مسیح اور ان کے خاندان کی جو کہ مجاہد کالونی کے رہائشی ہونے کے ساتھ ساتھ کافی کامیاب کاروباری شخصیات بھی ہیں ۔اور جس علاقے میں یہ لوگ رہتے ہیں وہاں پر ان کا کافی اثرورسوخ ہے اور مسیحی ہونے کے ناطے یہ خاندان بہت زیادہ لوگوں کی تنگ نظری کا نشانہ بنے ہوئے تھے اور ان کے علاقہ مکینوں کو ان کی یہ کامیابی کسی صورت ان کو نہیں بھاتی تھی اور وقت کو ضائع کیے بغیرموقع پاتے ہی انہوں نے نذیر مسیح کے خاندان کو توہین مذہب کے الزام میں پھنسانے کی کوشش کی۔ اور ایک بڑا ہجوم اکٹھے کرکےان کے خاندان کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ان کی فیکٹری کو نذر آتش کرنے کے بعد ان کے گھر پر بھی دھاوا بول دیا اور گھر کا سارا سامان لوٹنے کے ساتھ ساتھ نقدی اور بھاری مالیت کے زیورات اور ان کی گھروں کے دستاویزات بھی غائب کر دیے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی نذیر مسیح اور اس کے فیملی ممبرز کو کو ذود وکوب کیا جبکہ ہماری پنجاب پولیس کی فوری کارروائی پر مشتعل ہجوم سے تمام افراد کو بحفاظت نکال لیا جاتا ہے سوائے ایک شخص کے اور وہ ہیں بزرگ نذیر مسیح جن پر یہ الزام لگایا گیا کہ اُنہوں نے (نعوذباللہ) قرآن پاک کے مقدس اوراق کو جلایا ہے ۔جو کہ افراد خانہ کے مطابق بالکل بے بنیاد ہے ۔کو مشتعل ہجوم نے اس قدر بے رحمی سے مارا جس کے نتیجے میں نذیر مسیح کے سر پر گہری چوٹیں آئیں یعنی ان کے دماغ کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں اور اس کے بعد بڑی مشکل سے پولیس نے نہایت جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو ایمبولینس میں ڈال کر ہسپتال منتقل کیا ۔ ہجوم اتنا اشتعال انگیز تھا کہ اُنہوں نے ایمبولینس پر اینٹوں سے حملہ کیا مگر پولیس کے جوان نے نہایت تیز قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایمبولینس کو ہسپتال پہنچا دیا جہاں پر نذیر مسیح کا فوری طور پر علاج شروع کر دیا گیا مگر ان کی حالت اتنی تشویشناک تھی کہ وہ تقریباً آٹھ دن ہسپتال رہنے کے بعد اور دماغ کا آپریشن ہونے کے باوجود 3جون 2024 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا نذیر مسیح کو انصاف ملے گا اور وہ مرنے کے بعد اس الزام سے سرخرو ہوتا ہے یا نہیں؟ اور وہ لوگ جنہوں نے یہ سب کیا ان کو سزا ملتی ہے یا نہیں؟ کیونکہ نذیر مسیح کا خاندان حکومت سے فوری انصاف کا متقاضی ہے۔ کاش!پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والا یہ آخری سانحہ ہو۔آمین۔
نوٹ: “تادیب”کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ “تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔
*******