(ایک نام نہاد اسلامک سکالر کا مناظرہ ڈرامہ)
ان دنوں پاکستان میں ایک اسلامی سکالر کی آمد نے خاصی دلچسپ صورتِ حال پیدا کر دی ہے۔ موصوف نے بڑے زور و شور سے یہ اعلان کیا کہ اگر کوئی مسیحی “مائی کا لال” ہے تو وہ ان سے مناظرہ کرے۔ یہ چیلنج کچھ اس انداز سے دیا گیا جیسے کوئی بڑا علمی معرکہ برپا ہونے والا ہو۔ مسیحی علماء نے سوشل میڈیا پر فوراً اس چیلنج کا جواب دیتے ہوئے اسے قبول کرنے کا اعلان کیا، لیکن حیران کن طور پر اسلامی سکالر کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہ آیا۔
پھر اچانک، سیمسن جون نامی مسیحی اسکالر اور مناظر، بہادری سے اس اسلامی سکالر کے مجمع میں جا پہنچے۔ سیمسن جون نہ صرف جراتمند تھے بلکہ علمی طور پر مناظرہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے تھے۔ جیسے ہی انہوں نے اسلامی سکالر کا چیلنج قبول کیا اور براہ راست مناظرے کی دعوت دی، مجمعے میں خاموشی چھا گئی۔ سکالر صاحب کو اس بات کی توقع نہیں تھی کہ کوئی یوں ان کے سامنے آکر چیلنج قبول کرے گا۔
یہ صورتحال سکالر صاحب کے لیے بالکل چار سو چالیس وولٹ کے جھٹکے سے کم نہ تھی، کیونکہ اب وہ ایک ایسی کشتی میں سوار ہو چکے تھے جس کا ساحل نظر نہیں آ رہا تھا۔ اپنی عزت بچانے کے لیے انہوں نے فوری طور پر بہانے تراشنا شروع کر دیے۔ پہلا بہانہ یہ نکالا کہ وہ صرف اُس شخص سے مناظرہ کریں گے جو 30 ہزار لوگوں کا مجمع اکٹھا کرے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سیمسن جون اور مسیحی علماء نے اس شرط کو بھی بخوشی قبول کر لیا، جس کے بعد سکالر صاحب کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں اور بہانے ختم ہوتے نظر آنے لگے۔
اب جبکہ کوئی راستہ نہ بچا، تو سکالر صاحب نے پرلے درجے کی حرکتوں کا سہارا لیا۔ پہلے سیمسن جون کا منہ (مائیک) بند کروا دیا اور پھر غیر علمی رویہ اپنایا تاکہ کسی طرح سیمسن کو مجمع سے باہر نکالا جا سکے۔ عوام یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ یہی وہ صاحب ہیں جو بڑے زور و شور سے مناظرے کا چیلنج دے رہے تھے، لیکن جب کوئی حقیقتاً ان کے سامنے آ گیا، تو سکالر صاحب کے قدم لڑکھڑانے لگے۔ یہاں تک کہ ان کے اپنے مریدین بھی یہ تماشہ دیکھ کر حیران و پریشان ہو گئے۔
اس تمام صورتحال نے واضح کر دیا کہ سکالر صاحب محض باتوں کے بادشاہ ہیں۔ حقیقت میں ان کی علمی اہلیت اتنی مضبوط نہیں کہ کسی مسیحی اسکالر کا سامنا کر سکیں۔ جیسا کہ کسی نے خوب کہا کہ مناظرے کے لیے صرف تین افراد کی ضرورت ہوتی ہے: دو مناظر اور ایک منصف۔ لیکن ہمارے سکالر صاحب کو تو تیس ہزار کا مجمع چاہیے، شاید اس لیے کہ بھیڑ میں بہانے زیادہ آسانی سے چھپائے جا سکیں۔
آخر میں بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ “اور پیالہ اُلٹ گیا!” سکالر صاحب نے جس طرح مناظرے سے دامن بچانے کی کوشش کی، وہ یقینی طور پر ایک مزاحیہ ڈرامے سے کم نہیں تھا۔
نوٹ: “تادیب”کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ “تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔
*******