خوب صورت ملک سے بدصورت واقعات کے خاتمے کی جانب چند اقدام : ڈاکٹر لیاقت قیصر

مسیحیوں پر توہین مذہب کا الزام لگا کر معاملہ کی تفتیش سے پہلے ہی اُن کے گھروں کو جلانا، اُن کا کاروبار تباہ کرنا، انہیں مارنا پیٹنا قتل کرنا جیسے واقعات ہمارے ملک میں معمول بن چکے ہیں ۔ اب بہ ظاہر جذباتی حملہ آوروں کو مشتعل ہجوم کی بجائے پروفیشنل ہجوم کہنا چاہئے جو دراصل اپنے مفادات ، ذاتی عناد اور حسد کی بناء پر مسیحیوں کے خلاف مذہبی مقدمات بناتے رہتے ہیں۔ حقیقت میں توہین تو وہ خود کرتے ہیں اور الزام مسیحیوں پر دے مارتے ہیں ۔ ہم ایسے حالات میں کیا کر سکتے ہیں…؟

اگر ہم عزت کے ساتھ پاکستان میں زندہ رہنا چاہتے ہیں تو درج ذیل چند اقدام اٹھانے ہوں گے؛

  نمبر1 ۔سب سے پہلے ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا بھلے ہمارے آپس میں اختلافات بھی ہوں مگر اپنی کمیونٹی کی کاز کی خاطر لڑائیوں کو پس پشت ڈال کر سب کو اکٹھے بیٹھ کر خلوص دل اور کومٹ منٹ کے اجتماعی کوشش کی طرف قدم بڑھانا ہوگا۔

نمبر 2۔ہمیں اجتماعی مطالبہ کرنا ہوگا کہ توہینِ عدالت کے قانون میں یہ اضافہ کیا جائے کہ اگر شفاف تفتیش کے بعد ثابت ہو جائے کہ ملزم بے گناہ ہے تو الزام لگانے والا یا والے خود توہین مذہب کے مرتکب ہوئے تو پھر انھیں وہی سزا ملنی چاہئے جو وہ ملزم کو دلوانا چاہتا تھا۔ اس پر ہم سب کو ہمدرد اور ہم خیال مسلم بہن بھائیوں کو بھی ساتھ ملانا ہوگا جو اصل میں ملک کے خیر خواہ ہیں اور دنیا بھر میں اس کے تشخص کی فکر رکھتے ہیں اُن کی مدد کے بغیر اس قسم کی قانون سازی نہیں ہو سکتی۔

نمبر 3۔ یہ بات بھی برابر کی اہمیت رکھتی ہے کہ اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے مسیحی سپرٹ کے ساتھ پُر امن احتجاج کرنا ہوگا جس میں ہر ایسے واقعہ پر کم از کم ایک لاکھ مسیحی اور ہم خیال مسلم اور ہندو اور دیگر اقلیتوں کے بہن بھائی بھی شریک ہوں جس میں مذہبی آڑ میں ایذارسانی اور مجرمانہ جلاؤ گھیراؤ کے خلاف بینرز فلیکسز وغیرہ اُٹھائے ہوں اور ملکی اور غیر ملکی پریس کو مدعو کیا گیا ہو۔

ہمیں اُمید ہے کہ ہمارے خوب صورت ملک سے ایسے بدصورت واقعات ختم نہیں تو کمی ضرور آئے گی ۔ یہ لڑائی ہماری ہے ہمیں خود ہی اسے لڑنا ہوگا کوئی دوسرا ہمارے لئے نہیں لڑے گا ہاں دوسرے مددگار ہو سکتے ہیں مگر یہ جنگ ہماری ہی ہے۔

بہر حال پاکستان کی کلیسیا کے پاس ایک زبردست آپشن موجود ہے اور وہ روح القدس سے بھر کر گھٹنوں کے بل دُعا اور شفاعت کی آپشن ہے کہ اگر اوپر دیے گئے تین اقدام نا کام بھی ہو جائیں تو روح میں دُعا کا قدم کبھی نا کام نہیں ہوگا۔

ہماری دعا ہے خُداوند آپ کو پُر خطر ماحول میں اپنے محفوظ ہاتھوں میں سنبھالے رکھے اور آپ ہر طرح سے ترقی کریں۔

نوٹ: “تادیب” کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ “تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading