ستائیسویں آئینی ترمیم کا بنیادی مقصد عدلیہ کے ڈھانچے میں تبدیلی لانا ہے، اور اس میں اقلیتوں کے حقوق سے متعلق براہ راست کوئی شق شامل نہیں ہے۔ تاہم، اس کے تحت قائم ہونے والی وفاقی آئینی عدالت کو آئین کی تشریح اور بنیادی حقوق سے متعلق مقدمات سننے کا اختیار دیا گیا ہے، جس کے تحت وہ اقلیتوں کے حقوق سے جڑے قوانین کا جائزہ لے سکتی ہے اور نا ہی ستائیسویں ترمیم کا تعلق براہ راست اقلیتوں کے حقوق میں نئی تبدیلیوں سے نہیں ہے۔
اس ترمیم کے تحت بننے والی وفاقی آئینی عدالت کو آئین کے محافظ کے طور پر طاقتور اختیارات دیے جائیں گے۔
یہ عدالت پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے کسی بھی قانون کو کالعدم کر سکتی ہے اگر وہ قانون آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق، بشمول اقلیتوں کے حقوق کے خلاف ثابت ہو . عدالت کو آئین کی تشریح، وفاق اور صوبوں کے درمیان تنازعات، اور بنیادی حقوق سے متعلق مقدمات سننے کا اختیار ہوگا .
سپریم کورٹ کے موجودہ آئینی اختیارات، جیسے کہ آرٹیکل 184 کے تحت از خود نوٹس لینے کا اختیار، اس نئی عدالت کو منتقل ہو جائیں گے . اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں اقلیتوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق آئینی نوعیت کے مقدمات کی سماعت اب سپریم کورٹ کی بجائے وفاقی آئینی عدالت کرے گی۔عدالت کے فیصلوں کا اطلاق پاکستان کی تمام عدالتوں سمیت سپریم کورٹ پر بھی ہوگا، جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کا اطلاق آئینی عدالت پر نہیں ہوگا . اس سے اس عدالت کی بالادقت کا پتہ چلتا ہے۔
پاکستان کے موجودہ آئین میں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے مضبوط دفعات موجود ہیں۔ آرٹیکل 20 کے تحت ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے، اس کا اظہار کرنے اور تبلیغ کرنے کی آزادی ہے۔ آرٹیکل 25 تمام شہریوں کے لیے مساوات کا ضامن ہے، جبکہ آرٹیکل 36 میں ریاست پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ اقلیتوں کے جائز حقوق اور مفادات کا تحفظ کرے اور اگر پارلیمنٹ یا سینٹ میں اقلیتوں کے لیے بنائے گئے قوانین (جیسے کہ مخصوص نشستیں یا کوٹے) آئین میں درج بنیادی حقوق کے منافی ہوں تو اس نئی عدالت کے پاس ان قوانین کو کالعدم قرار دینے کا اختیار ہوگا .
ستائیسویں آئینی ترمیم کے تحت بننے والی وفاقی آئینی عدالت کے پاس یہ اختیار ہوگا کہ وہ آئین کی تشریح کرے اور بنیادی حقوق سے متعلق مقدمات سنے، لیکن موجودہ دستاویزات کے مطابق، اس کے لیے اقلیتوں کے موجودہ نمائندگی کے نظام کو یکسر ختم کرکے براہ راست الیکشن کا نیا نظام نافذ کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ایسی بنیادی تبدیلی درحقیقت قانون سازی کا کام ہے، جو پارلیمنٹ کا دائرہ کار ہے۔
وفاق اور صوبوں کے درمیان تنازعات، اور بنیادی حقوق سے متعلق مقدمات سننے کا اختیار ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر موجودہ نمائندگی کے نظام کو آئین میں دیے گئے کسی بنیادی حق (جیسے مساویانہ حقوق) کے خلاف ثابت کیا جا سکے، تو عدالت اس پر فیصلہ سنا سکتی ہے۔ عدالت کسی بھی ایسے قانون یا حکومتی عمل کو کالعدم قرار دے سکتی ہے جو آئین کے خلاف ہو تاہم عدالت کا بنیادی کام موجودہ قوانین کی تشریح اور ان کا نفاذ ہے، نہ کہ نیا قانون بنانا۔ اقلیتوں کے لیے براہ راست انتخاب کا مکمل نیا نظام متعارف کرانا درحقیقت ایک نئی قانون سازی ہے، جس کا اختیار صرف اور صرف پارلیمنٹ کے پاس ہے۔
اس وقت پاکستان میں اقلیتوں کے لیے پارلیمنٹ میں مخصوص نشستیں موجود ہیں، جن پر نمائندوں کا انتخاب “سلیکشن” کے ذریعے ہوتا ہے نہ کہ براہ راست “الیکشن” کے ذریعے۔
نومبر 2024 میں سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے اقلیتی نمائندوں کے انتخاب کو صرف اقلیتوں تک محدود کرنے کی ایک درخواست خارج کر دی تھی۔ عدالت نے واضح کیا کہ “اگر کوئی قانون تبدیل کرانا ہے تو اپنے نمائندوں سے قانون سازی کروا لیں”۔ اس فیصلے سے عدلیہ کے اس نقطہ نظر کی عکاسی ہوتی ہے کہ ایسی ساختہ تبدیلیاں عدالت نہیں، بلکہ مقننہ (پارلیمنٹ) کر سکتی ہے۔
ایسی صورت میں جہاں وفاقی آئینی عدالت براہ راست نیا نظام نہیں بنا سکتی، وہاں آپ کے حقوق کے تحفظ کے لیے درج ذیل راستے موجود ہیں، موجودہ “سلیکشن” کا نظام آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق (جیسے آرٹیکل 25 کا مساوات کا حق) کے خلاف سمجھا جاتا ہو، تو وفاقی آئینی عدالت میں اسے چیلنج کیا جا سکتا ہے اس لیے سب سے موثر راستہ یہ ہے کہ اقلیتی برادری کے نمائندے پارلیمنٹ میں اس مقصد کے لیے آواز اٹھائیں اور قانون میں تبدیلی کے لیے سیاسی جدوجہد کریں تاہم وفاقی آئینی عدالت براہ راست الیکشن کا نیا نظام نافذ نہیں کر سکتی، یہ کام پارلیمنٹ کا ہے۔عدالت موجودہ نظام کو آئین کے خلاف ہونے کی صورت میں کالعدم قرار دے سکتی ہے، اس مقصد کے حصول کا سب سے مضبوط ذریعہ پارلیمنٹ میں سیاسی کوششوں کے ذریعے نئے قانون کی منظوری ہے۔ اس کے لیے اقلیتوں کو پر امید رہتے ہوئے موجودہ صوبائی، قومی اور سینٹ کے اراکین کو اعتماد می لیں اور اس امید کے ساتھ پارلیمنٹ کے زریعہ اپنا حق مانگ کر نا امیدی کو دفن کر دیں۔
*******


