پاکستان میں عمومی طور پر دو طرح کے سکول آف تھاٹ ہیں ایک کا کہنا ہے پاکستان ایک مذہبی ریاستی ہے اور اِسے قرآن و سنت کے زرین اصولوں پر عمل پیرا ہونا چاہیے اور ملک کی اکثریت کو سامنے رکھتے ہوئے تمام فیصلے کرنے چاہییں اور پاکستان کے غیرمسلم کو اقلیت کی حیثیت سے تمام جائز حقوق ملنے چاہییں وہ حقوق یہ ہیں ،وہ یہاں اقلیت کے طور رہ سکتے ہیں اور پنے محدود حصے میں عبادات یا مذہبی فریضہ ادا کرسکتے ہیں گویہ ان کا دبے لفظوں میں کہنا ہے کہ رہنا ہے تو محکوم بن کر رہیں ورنہ کلمہ پڑیں اور اکثریت میں شامل ہوجائیں ایسا کھلے عام تو نہیں کہا جاتا لیکن کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کسی ادارے یا محکمہ میں کوئی غیرمسلم نوکر ی یا عہدے پر ہوتا ہے تو وہاں کے چپڑاسی سے لیکر ساتھی کولیگز تک کی طرف سے اسلام کی دعوت ضرور دی جاتی ہے۔ مطلب پاکستان کی تقریباً پانچ فیصد آبادی کو دن رات اکثریت میں شامل کرنے کوشش جاری ہے چھوٹی بچیاں جن کی عمر بارہ سال سے لیکر سترہ سال تک کا تو کوئی پرسان حال ہی نہیں ۔اٹھارہ سال سے اوپر اگر کوئی اپنی مرضی سے مذہب چھوڑ کر اسلام میں شامل ہوجائے تو سوشل میڈیا سے لیکر مین سٹریم میڈیا تک ہر طرف کامیابی و کامرانی کے شادیانے بجائے جاتے ہیں اور اگر یہی مشق کوئی دوسرادہرائے تو اسے یا تو جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے یا پھر ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑتا ہے۔
معاشرے کایہ مزاج کوئی ایک دن کی پیداوار نہیں اس پر لگ بھگ چالیس سال لگے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کے اس کا بیج تو قیام پاکستان سے پہلے ہے بو دیا گیا تھاجب دو قومی نظریہ پیش کیا گیا جس میں صاف صاف اس بات کا اظہار کیا گیا کہ متحدہ ہندستان میں ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں جو کبھی اکٹھے نہیں رہ سکتے ۔ بحرحال اس سخت گیر سکول آف تھاٹ کو مزید تقویت اُس وقت ملی جب روس اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہوا۔ امریکہ چاہتا تو اپنا ایجنڈا افغانستان سے براہ راست بھی چلاوا سکتا تھا لیکن اس کا آسان ہدف ہم پاکستانی تھے ۔ یہ بات تو ایک سیدھے سادھے کسان کو بھی معلوم ہوتی ہے اگر زمین زرخیز ہو تو محنت کم کرنی پڑتی ہے پاکستان چونکہ اپنے قیام سے ہی ایسے ایجنڈے کے لیے تیار تھا اس لیے امریکہ کو زمین تو تیار ہی مل گئی۔ ہم ضرورت مند بھی تھے اور جذباتی بھی۔ ایسے لوگ جو دماغ کی بجائے دل سے سوچتے ہوں اُنہیں بیوقوف بنانا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا اگر لوگ ایک مذہبی نعرے پر قائد اعظم کی تائید کر سکتے ہیں تو کوئی بھی یہاں اس مذہبی نعرے سے اپنا ایجنڈا پیش کر سکتا ہے ۔لہٰذا یہ سلسلہ ءجذباتیت آج کا نہیں سات دہائیوں کا ہے لہٰذا بس پچھلے چار دہائیوں سے اس نے مزید زور پکڑا اور انتہاپسندی نے پاکستان کے طول و عرض کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔
لوگ تو پہلے سے مذہب کے لیے کٹ مرنے کے لیے تیار تھے اور اُن طاقتوں کو جو لوگوں کے جذبات سے کھیل کر خوب پیسہ بناتے ہیں اُنہیںبنی بنائی فصل مل گئی۔ سابق گورنر کے قتل کے بعد ایک اور جماعت اُٹھی جس نے ایک ایسا نعرہ لگایا جس کو اُن کے حامی اور مخالفین بھی رد نہیں کر سکتے تھے ۔انہوں ملک میں ایک عجیب فضا پیدا کردی ۔عام لوگوں کے ساتھ پاکستان کی اقلیتیں بھی اُن کی اِس مذہبی بدمعاشی کا شکار ہوئیں ۔ لوگوں کو اپنی جانیں گنوانی پڑ گئیں ،گھروں ، گرجاگھروں، مندروں اور امام بارگاہوں تک کو نقصان پہنچا۔ اس سے اندرونی نقصان تو ہواِس کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں بھی پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی۔
دوسرا سکول آف تھاٹ اُن لوگوں کا ہے جو پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کا خواب دیکھتے ہیں ایسا کب ممکن ہوگا یا ممکن ہوگا بھی کہ نہیں؟ کچھ بھی زیادہ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا ہے۔ کیونکہ پچھلے اداروں میں ہم نے اپنی لغت کو اپنے طریقے سے تبدیل کر دیا ہے اب کچھ لفظ ہمارے معاشرے میں گالی کی طرح سمجھے جاتے ہیں ۔ سیکولر اِزم کو تو لادینیت سے جوڑا جاتا ہے اوراس کو مذہب کے لیے سب سے بڑا خطرہ بھی سمجھا جاتا ہے اور ایسا جان بوجھ کر کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ایسا حلقہ ملک میں مشکل سے ایک فیصد بھی نہیں ہوگا۔ اب تو یہ لوگ نظر بھی نہیں آتے ہاں کبھی کبھی کوئی نظر آجاتا ہے۔یہ سب یا تو خاموش ہیں یا ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔
اس ساری صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے پچھلے دنوں حکومت نے ایک آپریشن کیا جس میں ملک کی ایک بہت بڑی مذہبی جماعت پر پابندی لگا دی اور ایسے عناصر کو جیلوں میں ڈال دیا۔ بچے کھچوں کو فورتھ شیڈول میں ڈالنے کا عندیہ دے دیااور تنظیم کو باقاعدہ کالعدم قرار دے دیا۔ اب یہ پابندی کب تک رہتی کچھ نہیں کہا جاسکتا اور کیا صرف ایک جماعت پر پابندی ملک میں انتہاپسندی کو لگا م دینے سے اَمن ہوجائے گا؟ یہ ایک سوال ہے بحرحال حکومت کے اس چھوٹے سے قدم سے فرق تو پڑا ہے ۔اُمید ہے حکومت اَمن کی خاطر اور اقدام بھی کرے گی تاکہ پورے ملک میں جو ماردھاڑ کا ماحول ہے قابو میں رہے گا۔ ایک اچھی صبح کی اُمید کے ساتھ ملک کو اَمن اور خوشحالی کی اہم ضرورت ہے ۔ پاکستان پائندہ باد۔
۔٭۔


