ریورنڈ فادر مشتاق پیارا :یوحناجان

ریورنڈ فادر مشتاق پیارا ایک نڈر ، عاجز اور مثالی کاہن کی حیثیت سے تاریخ میں جانے جائیں گے۔ جو ان کے اخلاق ، ادبی اسلوب کا نمونہ اور پاک کلام کی تعلیمات کا عکس بیان کرتا ہے۔ وہ ایک کاہن ہونے کا ثبوت اپنے ملنسار اور خوش مزاج سے رونما کرتا جس کا چرچا اردگرد کے لوگ خود کرتے۔ وہ صرف مسیحی لوگوں میں مقبولیت کا درجہ نہیں رکھتا تھا بلکہ مسلم لوگ بھی اس کا تہ دل سے احترام کرتے تھے۔ آپ یکم جولائی 1976 ء کو ناروال کے نواحی گاوں کُلہ منڈیالہ میں پیارا مسیح کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ کا نام ایلیس بی بی تھا۔ آپ کُل چھ بہن بھائی تھے۔ تین بھائی اور تین بہنیں اور آپ کا پانچواں نمبر تھا۔ ابتدائی تعلیم مقامی گاوں سے حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان گورنمنٹ اسلامیہ ہائی اسکول بدو ملہی اور ایف اے کا امتحان گورنمنٹ کالج ناروال سے پاس کیا۔

۔25 اگست 1994ء کو آپ نے سینٹ میری مائنر سمینری وارث روڈ لاہور میں داخلہ لیا۔ جہاں آپ نے چار سالہ تعلیم حاصل کی۔ پھر 1998 ء میں سینٹ فرانسیس زیوئیر سمینری یوحناآباد میں تین سالہ فلسفہ و روحانی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد 2001 ء کرائسٹ دی کنگ سمینری کراچی میں چار سالہ فلسفہ و الہیات کی تربیت پائی۔ آپ کا جذبہ روحانی اور اخلاقی میدان میں گراں قدر نمایاں ہوتا گیا۔ جولائی 2005ء میں بطور برادر پاسٹر ورک کے لیے آپ کو قصور پیرش میں بھیجا گیا جہاں آپ کے خدمت کے جذبہ کو مزید تقویت ملی۔ اسی خدمت کے دوران آپ کو پسرور پیرش میں بھیجا گیا اور آپ اپنی خدمت میں رواں رہے۔ اسی دوران آپ ڈیکن مقرر ہوئے اور 29 اپریل 2006 ء کو کاہن مخصوص ہوِئے۔ بطور کاہن آپ نے جن پیرشز میں خدمات سرانجام دیں ان میں قصور ، گوجرانوالہ ، یوحناآباد ، سیالکوٹ ، حافظ آباد اور کیتھڈرل پیرش لاہور شامل ہیں۔ ان جگہوں پر آج بھی آپ کی خدمت کے تاثرات قلم بند ہیں جو آپ کی بُلاہٹ کا عملی مجسمہ ہے۔

کاہنانہ خدمت کے ساتھ ساتھ آپ نے دیگر خدمات میں اپنی زندگی کو صرف کیا جن میں قابل ذکر قومی زیارت گاہ مریم آباد کے بطور سیکرٹری دس سال ، 2021-23 دو سالہ کیٹی کسٹ کمیشن کے سیکرٹری اور ڈیوسیز پریسٹ کمیشن کے سیکرٹری کے طور پر نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ آپ کا جذبہ ہمیشہ خدمت سے سرشار ، محبت کا لبادہ اور متحرک روح لیے رواں دواں ملتا۔ مسکراہٹ کا لہجہ ایک عجب فضا کو چُھوتا ہوا محسوس ہوتا لیکن جب غصہ میں ہوتے تو اس کے پس پُشت بھی ایک اُلفت کا نظارہ لیے گلے ملتا۔ جو ایک خوبی نہیں ایک زندگی کا منفرد اسلوب ہے۔ یہی اسلوب دوسروں سے نمایاں اور الگ نظر آیا۔ وہ ہمیشہ باطنی رشتہ کی پیاس کا طلب گار ملا۔ اس کی مثال یہی کافی ہے کہ جہاں بھی ، جب بھی اور جس سے بھی ملا اس کا لہجہ ، انداز اور الفاظ کا انبار جمالیاتی انبساط کی برسات کرتا پایا۔ اس روپ میں وہ الفاظ کے لفانیاتی پہلووں اور معنویت کے تصورات کی ترجمانی کرکے ایک ہنرمندی کا ثبوت دیتا جو باہمی رشتوں کی طاقت بن کر اُبھرتا۔
کاہن کی حیثیت سے وہ ہر فرد سے ملنا اپنے فرض کا حصہ سمجھتا۔ عام طور پر ایک دفتر کا مقررہ وقت ہوتا ہے جس دوران دفتری امور اور ضروری کام سرانجام دیے جاتے مگر اُن کے ہاں یہ نہیں دیکھا۔ جو بھی جس وقت بھی آیا اس کا مناسب کام کر دیا۔

حافظ آباد پیرش میں جو عروج ان کی شخصیت کا رونما ہوا وہ ان کا ایک خواب تھا جو فن اور فن کارانہ روپ لے کر کئی انداز میں عوام و کلیسیا کو تسکین دیتا گیا۔ اس کا عملی روپ اٹاری چرچ سیالکوٹ سے ہوا مگر عروج حافظ آباد میں ملا۔گرجا گھروں کی تعمیر میں ایک قدر و معانی تغیر پایا جو ادبی وضع ، تخلیقی سوچ اور افہام و تفہیم کے نئے راستوں پر استوار ہونے کی بہترین دلیل ہے۔ سینٹ فرانسیس آف اسیسی چرچ حافظ آباد پیرش میں تقریباً تیس ( 30 ) گرجا گھروں کی تعمیر کا منصوبہ مکمل کیا۔ لفظ گرجا اپنے آپ میں ایک وسیع معانی رکھتا ہے جو گِرنے ، سجدہ ، سربسجود اور اپنے آپ کو خُدا کے حضور جُھکانے کا مطلب اخذ کرتا ہے۔ انسان کو غوروفکر ، مطالعہ اور روحانی تسکین کا ذریعہ عطا کرتا ہے۔ مشاہداتی نگاہ اور اپنے آپ کو ترتیب کا عنصر فراہم کرتا ہے۔ اسی قوت متخیلہ میں فادر جی کا موضوع حافظ آباد اور اس کے ملحقہ علاقوں میں پھیل گیا۔ عبادت ، روزہ ، ریاضت اور زندگی کا نسب العین اسی جگہ سے جنم لے کر دنیا کے کونے کونے میں پھیل جاتا ہے۔ حافظ آباد پیرش کی بات کی جائے تو اس میں ان کی خدمت کا دورانیہ 2013ء سے 2019 ء تک رہا۔ اس میں موجود سنٹرز کی تعداد آٹھ ہے جن میں حافظ آباد سنٹر نمبر 01 اور سنٹر نمبر 02 ہے اس کے علاوہ اجنیانوالہ ، اولکھ بھائیکے ، کوٹ لدھا ، علی پورچھٹہ ، ورپال چھٹہ ، مریم آباد شامل ہیں۔ ہر سنٹر کے حوالہ سے بات کروں تو مجموعی طور پر حافظ آباد پیرش تین اضلاح پر محیط اپنی خدمات کا دائرہ کار لیے رواں دواں ہے۔ جن میں اجنیانوالہ ضلع شیخویورہ ، اولکھ بھائیکے تحصیل نوشہرورکاں ضلع گوجرانوالہ ، کوٹ لدھا ضلع گوجرانوالہ ، ورپال چھٹہ ، علی پور چھٹہ اور مریم آباد بالترتیب گوجرانوالہ ضلع کا حصہ ہیں جبکہ خود حافظ آباد ایک ضلع ہے۔ اس پیرش کے بانی ریورنڈ فارد ستانی سیلاس( او۔ایف ۔ایم کیپ) جو ایک مشنری اور بیلجیم سے تعلق رکھتے تھے۔ انھوں نے بھی گرجا گھروں کی تعمیرات اور کالونیاں آباد کیں۔ جو ویران تھا آباد کیا۔ آج بھی ان کا جلایا ہوا چراغ روشنی کی کرنیں جگہ جگہ اور گھر گھر لیے گھوم رہا ہے۔ اصلاح کا محور ، فکر کا فلسفہ ، مفکرین کی سوچ ، تاریخ کا محرک ، لسانیات کا مظہر ، سماج کا مرتب اور نہ جانے کیا کیا اصطلاحات لیے اس دھرتی والوں کا مسیحا ثابت ہوا۔ حافظ آباد کے اور اس سے ملحقہ افراد ریورنڈ فادر مشتاق پیارا کو ریورنڈ فادر ستانی سیلاس کی دوسری کاپی قرار دیتے۔ ان کی طرح جذبہ ، جنون اور فکر انگیزی کا لبادہ لیے گھر گھر دستک دیتا جاتا کہ جاگو اور دعا کرو تاکہ آزمائش میں نہ پڑو۔

بات کریں پیرش میں موجود سنٹرز کی بالترتیب تو علی پور چھٹہ سنٹر میں تعمیر کیے جانے والے گرجاگھروں کی تفصیل تو ان میں علی پورچھٹہ( چرچ کی توسیع) نئے تعمیر ہونے والے گرجا گھر میں چوتیاں ، سیدنگر ، ڈھلم ڈوگراں ، مریم آباد ، ڈھلہ چھٹہ، رسول نگر اور چوراں والی شامل ہیں۔ کوٹ لدھا سنٹر میں قابل فہرست چبہ سندھواں ، رام گڑھ ، جلہن ، رتہ دھوتھراں ، بدوکی سیکھواں ، تھڑی گلاں اور نوکھر مین اڈا شامل ہیں۔ حافظ آباد سنٹرز میں ہدایت کالونی ( توسیع) بھون خورد ، احمد پورچھٹہ ، کلیانوالہ ٹھٹھہ ، عظیم کالونی ( توسیع ) کڑیالہ ، وچھوکی اور پیرے داکوٹ شامل ہیں۔ اجنیانوالہ سنٹر میں مین چرچ اجنیانوالہ شامل ہے۔ اولکھ بھائیکے سنٹر میں مین چرچ اولکھ بائیکے فتح کی ، جاگووالا ، ڈھلہ ، ببر ۔۔۔۔۔۔۔ شامل ہیں۔
ان گرجا گھروں کی تعمیر خواب سے حقیقت میں دن رات محنت ، لگن اور اُمید کا چراغ قابل ذکر لیے ہیں۔ جو ہمہ وقت ضروریات زندگی میں پیش رفت ثابت ہوئیں۔ اکثر گرجا گھروں کی تعمیر شروع کرتے وقت جب گفتگو ہوتی تو وہ مسکراتے ہوئے بولتے۔۔۔
” میں وثوق سے کہتا ہوں کہ جو یہاں سے ایک کپ چائے پی کر گیا ہے کئی کپ چائے کے پیسے بطور ہدیہ دے کر جائے گا۔ ”
یہ حقیقی روپ میں ایسا ہوتے دیکھا کہ غیر مسیحی لوگ بھی کوئی دفتری یا سرکاری کام کے لیے آتے تو ان سے ہدیہ وصول کرتے ہوئے پایا۔ وہ اس معاملہ میں شعوری طور پر عالم برپا کیے ہوئے تھے۔ زندگی کے تجربات ، دماغی بازیافت ، ذہنی عوارض اور باہم توازن معمول کا کام تھا۔ صرف یہی نہیں خود بھی ہر کام میں پہل کرتے۔ اگر چرچ کی تعمیر کی بات تو خود کہتے کہ اتنا میری طرف سے حصہ ہو گا۔ جب یہ اعلانیہ کہتے تو ایک نارمل انسان بھی کچھ نہ کچھ دے کر جاتا اور کہتا کہ مزید دیا جائے گا۔ اگر مین پیرش کی بات کروں تو وہاں بھی کام اندرونی و بیرونی گرجا گھر کی خوبصورتی میں مگن رہے۔ جن میں قابل ذکر چرچ کی بیرونی ٹوکہ پٹی ، چرچ کے اندر چھت کی سیلنگ ، دیواروں پر ماربل وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تو ایک گرجا گھروں کی مختصر تفصیل جہاں ان کی شخصیت کا عکس بولتا ہے۔ اس کے ساتھ کیٹی کیسٹ سنٹرز کی تعمیر جن میں اولکھ بھائیکے، کوٹ لدھا اور ورپال چٹھہ شامل ہیں۔ وہیں دوسری جانب نڈر اور بلند حوصلہ رکھنے کا بھی خدا نے تحفہ دیا ہوا تھا۔ اس بات کی صرف یہی دلیل کافی ہے کہ ڈی سی آفس میں سرکاری میٹنگ میں گئے تو مقررہ وقت میٹنگ سے ڈی سی صاحب کوئی آدھا گھنٹا لیٹ آ رہے ہیں تو فادر جی دفتر سے واپس آنے کے لیے نکل آئے تو مرکزی دروازہ پر ڈی سی صاحب مل گئے تو وہ بولے ” جناب آئیں میٹنگ کریں۔”
فادر جی بولے ” جناب میں آپ کا پابند نہیں کہ انتظار کروں آپ لیٹ آ رہے ہیں۔ میں نے جا کر نماز بھی پڑھانی ہے۔” اور وہاں سے واپس آگئے۔ مطلب وقت کا پابند اور نڈر ہونے کا فن موجود تھا۔ راتوں کو دیر دیر تک کبھی کسی گاوں اور کبھی کسی سنٹر کا وزٹ کرکے ویران علاقوں سے گزر رہے ہیں۔ عامر مہر( جو بطور ڈرائیور) ساتھ ہوتا تھا اکثر آ کر بتاتا کہ فادر جی آج رات دیر تک فلاں فلاں جگہ سے آئے ہیں۔ وہ اکثر کہتے حافظ آباد کی تاریخ یہ گواہ ہوگی کہ اگر میرا نام اچھے لوگوں میں نہ آیا تو بُروں میں ضرور یاد رکھے گی۔

اُن کے اندر نڈر ہونے کی صنف اس حد تک تھی کہ حافظ آباد کے تمام تھانوں اور سرکاری دفاتر میں صرف ان کا نام ہی کافی تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ عدالتوں میں بھی کھڑک رکھتا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب میں ڈسڑکٹ کورٹ حافظ آباد میں بطور تعمیل کنندہ کام کرتا تھا۔ تو قصور سے ایک جج تھا جو بطور سنیئر سول جج یہاں تعینات تھا۔ اس نے مذہبی تناسب کا معاملہ کیا اور گھر میں صفائی کروانے کی ضد پکڑ رکھی۔ میں نے بھی کہا کہ اگر میں سویئپر کی پوسٹ پر تعینات ہوں تو ضرور ورنہ نہیں۔ میں نے فادر جی سے بات کی تو ایک دن اس کے دفتر جا پہنچے اور اس کو صرف یہی کہا کہ میں تمھیں دیکھنے آیا ہوں بس۔ پھر کیا اُس نے اپنے گھر ماتحت عملہ کو بلوا کر قرآن خوانی تک کروائی کہ دعا کرو میرا تبادلہ یا ترقی ہو جائے مگر تقریباً تین سال تک وہ ایڑیاں رگڑتا رہا پر کچھ نہ ہوا۔ تصور خودی کا قائل یہ نڈر بندہ نہ جانے کہاں کہاں شعور کا روح بانٹتا ہوا تصور فطرت کے قریب شخصی شعور سے اجتماعی شعور میں بدل گیا۔ اکثر کوئی تھانے کا معاملہ ہوتا تو تھانے والا خود فادر جی کے پاس آکر مدعا رکھتا” جناب تُسی دسو ہون کی کرنا اے۔ “

فطرتی میلان ان کے ورثہ میں ودیعت کیا جاچکا تھا۔میلانات کا رُجحان اعمال و افعال میں روزانہ کی بنیادی پر نظر آتا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو خود کوئی ایسی سرگرمی کرتے کہ واقعہ خود بخود خواہشات کی تکمیل چاہتا۔ اس کی صرف یہی مثال کافی ہے کہ اتوار کو گرجا گھر میں عبادت ہونے کے بعد اکثر خدمت کمیٹی کے بزرگوں کو کہتا فلاں گھرانے سے آج کوئی چرچ نہیں آیا سب خیریت تو ہے؟ پوچھنے کے بعد ان کو لے کر ان کے گھر چلا جاتا۔ گھر والے سب چونک جاتے کہ فادر جی آپ نے ہمیں بتایا ہوتا کہ آپ آ رہے ہیں وہ بولتے :
” مجھے آپ میں سے کوئی چرچ نظر نہیں آیا میں نے کہا سب ٹھیک تو ہے۔ میں معلوم کرنے آ گیا۔ دوسرا یہ بھی یاد رکھیے جب یسوع کہیں جاتے تھے تو شاگرد بھی ساتھ ہوتے۔” اس مسکراہٹ بھرے لہجہ میں ان کو ایک دم کوئی ہزار دو ہزار کا ٹیکہ بھی چائے پانی پلانے کے عوض لگ جاتا اور خبر بھی ہوتی کہ اگلے اتوار چرچ جانا ہے۔ بس اسی طرح ملنسار کا وفد حقیقت کا رنگ بکھیرتا ہوا ہمیشہ کا تاثر چھوڑ گیا۔ زندگی جیتا اور جینے کا انداز بھی بتاتا۔۔۔۔۔اس کے علاوہ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ علی پورچھٹہ سنٹر کے گاوں سید نگر ایک بیمار کی عیادت کرنے گئے تو دعا کرنے کے بعد وہاں کے ایلڈر صاحب کو کہتے ہیں کہ بس تھوڑا ہی وقت ہے۔ یہ بول کر فادر جی واپس حافظ آباد کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔ ابھی بمشکل وہ گاوں سے باہر ہی نکلے ہیں کہ ایلڈر صاحب کا فون آ گیا کہ وہ بزرگ اپنا وقت پورا کر چکے ہیں۔ صرف یہاں نہیں اور بھی کئی ایسی یادیں چھوڑ گئے جو یاد کے فلسفہ کو آج بھی یاد کا حصہ بنا چکے ہیں۔

حافظ آباد ڈی ایچ کیو کی بات کروں تو کوئی نہ کوئی علاج معالج کے لیے کلیسیا سے جاتا رہتا۔ جب کوئی ڈاکٹر کسی بھی قسم کا پروٹوکول نہ دیتا اور علاج میں تاخیر ہوتی تو یہ سیدھا ایم ایس کے آفس جاتے اور پُرتپاک انداز میں اُسے کہتے ” اگر میرے مریض کو کچھ ہوا تو میں نے تمھیں چھوڑنا نہیں۔” یہ مثالی اور نڈر لہجہ آج بھی ایک آواز ، سچ کا لہجہ اور نڈر ہونے کا وثوق دیتا ہے۔ جو تاریخ کے اوراق میں سُنہرے الفاظ کے رنگوں لکھا جائے گا۔ ان کے ساتھ پیرش میں کام کرنے والے معاونین میں ریورنڈ فادر شکیل لوقا ، ریورنڈ فادر الماس جان ، ریورنڈ فادر توصیف یوسف ، ریورنڈ فادر راشد الفونس ،ریورنڈ فادر شیراز( بطور برادر پاسڑ ورک) ، فادر سلیمان ( بطور برادر ) ،برادر عرفان اور برادر فیصل وغیرہ۔ سب کے ساتھ ایک اشتراکیت کا پہلو لیے دن رات بیداری کی آواز اور ترقی کی تحریک لیے گامزن رہا۔ مناد صاحبان میں بابو روفن ، بابو جارج ، بابو ڈیوڈ ، بابو مشتاق رحمت ،بابو نوید ، بابو دانش ، بابو بابر یوسف ، بابو الیاس برکت ، بابو عامر ، بابو بشیر انجم ، بابو اسحاق ، بابو پطرس غوری ۔ اور بابو محبت یوسف شامل ہیں۔ جو پیرش میں ان کے ساتھ رہے اور کارواں بنتا رہا۔ اس کارواں کا سلسلہ چلتا رہا منزل آگے بڑھتی گئی اور سپہ سالار کا جذبہ قائم و دائم رہا۔ 2019 ء میں حافظ آباد سے آپ کا تبادلہ لاہور کیتھڈرل چرچ لارنس روڈ ہوا اور خدمات کا سلسلہ بلاہٹ کا محور لیے بیج بونے کا کام سرانجام دیتا گیا۔ اس کے بعد آپ سیالکوٹ میں خدمت سراانجام دے رہے تھے- 24 جون 2025ء کو لاہور ڈیوسیز سے کاہنوں کا ایک وفد روم گیا جس میں آپ بھی شامل تھے۔ 16 اگست 2025 ء کی شام پانچ بجے آپ کا ایکسیڈنٹ ساہو والا نہر کے پُل پر ریل گاڑی سے ہوا۔ جس کے نتیجہ میں آپ اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے خیر آباد کہہ گئے اور ڈھیڑوں یادوں کا عکس صفحہ قرطاس پر مجسم کر گئے۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading