پاکستان اور بھارت کے ما بَیْن اب تک لگ بھگ چار جنگیں ہو چکی ہیں دنوں ممالک کا دعویٰ ہے کہ وہ جنگیں ہم نے جیتی ہیں ہوسکتا ہے ایسا ہی ہو لیکن سوال پیدا ہوتا ہے جب دنوں نے وہ جنگیں جیتی ہیں تو اس جیت سے حاصل کیا ہوا ہے ،کوئی زمین، کوئی نئے پیداواری ذرائع ،نوادرات ، معدنیات ، مطلب کیا حاصل کیا؟۔ کچھ بھی تو نہیں سوائے اناکی تسکین کے۔یا اس کے کریڈٹ میں الیکشن میں حاصل کیے گئے ووٹوں کے سوا کچھ بھی نہیں کیا، اپنے اقتدار کی طوالت ہی چند لوگوں کی اولین حصول رہا ہے۔
پچھلے چند دنوں سے جب سے پہلگام میں ہونے والے سانحہ پر جہاں کچھ دہشت گردوں نے مذہب پوچھ کر چند ہندو اور دیگر غیرمسلم لوگوں کی جان لے لی۔برا ہوا بہت برا ہوا، انسانوں کی موت پر جشن نہیں ہوسکتا ، ویسے تو اس پر بھارت کی سیکیورٹی پر کئی سوالات اُٹھتے ہیں کیونکہ جب رکھوالوں کی موجودگی میں شہر غیر محفوظ ہو جائیں تو سمجھ لیں دشمن باہر سے نہیں اندر ہی کہیں موجود ہوسکتا ہے۔ ظاہر دشمن سے چھپا دشمن زیاد ہ خطرناک ہوتا ہے۔ یہ جنگ ہم سب کی جنگ ہے۔ جب انسان مریں تو اس پر ماتم نہ منانا بھی انسانیت کا قتل ہی تصور کیا جاتا ہے اور اس پر غلاظت یہ کہ اس پر سیاست کی جائے۔
جنگ واقعی جس لیول کی بھی ہو قوموں اور ملکوں کے لیے خطرناک ہی ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے سوشل میڈیا پر تو جیسے عید کا سماں لگ رہا ہے ، لوگ مذاق اور لطیفے بنا رہے ہیں اور خوش ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر زیادہ کلکس کی چکر میں میمز کا ایک سیلاب اُمڈ آیا ہو یعنی جنگ نہ ہوئی کوئی کھیل تماشا ہوگیا،ویسے اس کا ایک مثبت پہلو تو یہ ہوسکتا ہے بالخصوص پاکستانی قوم بڑی معصوم اور بہادر بھی ہے جب عوام جنگ کو شغل سمجھ لیں تو سمجھ لیں خوف اپنی موت آپ مر جاتا ہے اور اس بات پر بھارتی میڈیا سمیت لوگ پریشان بھی ہیں وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر بھی ہے کہ یہ پاکستانی قوم آخر ہیں کیا؟ انہیں کسی قسم کا ڈر ،خوف ہی نہیں لگتا ، کسی کو کوئی گھبراہٹ تک نہیں۔ الٹا انتظار کر رہے ہیں ،دراصل یہ وہ لوگ ہیں جن کی عمریں لگ بھگ اٹھار ا سے چوبیس پچس سال ہیں جنہیں جنگ کی ہولناکیوں کا قطعاً کوئی اندازہ نہیں اوپر سے ہمارا تعلیمی نصاب اور نیشنل میڈیا جس نے پاکستانی قوم کی وہ آبیار ی کی ہے جنگ،تباہی اور نفرت قومی کھیل سمجھ کر کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے اس نازک وقت میں جب آسمان کو جنگی طیاروں کی گھن گرج سنائی دے رہی ہے اس قوم کا مورا ل بلند ہے ۔ بحرحال ان سارے خرافات کے باوجود جنگ ایک بری چیز ہے۔ گولی اُدھر سے چلے یا ادھر سے چلے۔ لہواس خطے کے باسیوں کا ہی گرے گا۔ ہم جیسے مڈل کلاس اور غریبوں کا لہو۔ اَپر کلاس نہ تو اُ دھر مریں گے نہ اِدھر شہید ہونگے ان کا کردار سوائے ہمارا لہو گرمانے سے کچھ بھی زیادہ نہیں۔
اس بے فائدہ جنگ کے نتائج کبھی اچھے نہیں نکل سکتے اس کاایک درمیانی حل موجود تھا کہ دونوں ملکوں کے بڑے کسی ثالث کے پاس بیٹھتے اور دہشت گردی کے خلاف ایک جوائنٹ انوسیٹی گیشن ٹیم بناکر تحقیق کرتے اور مجرمان کو پکڑکر عدالتی فیصلہ پر سزائیں دلواتے تاکہ جو ہلاک ہوگئے وہ ہوگئے باقی لوگوں کی زندگیوں کو جنگ کے داؤ پر نہ لگایا جائے لیکن بات گھوم پھرکر پر وہی آتی ہے جنگیں انا پر شروع ہو کر ہلاکتوں پر ختم ہو جاتی ہے۔ اس دفعہ بھارت پوری طرح بکھلاہٹ کاشکار نظر آتا ہے اُس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ دیکھا پاکستان پر الزامات کے ذریعے چڑھ دوڑا،اور جب اندر کی خبر ملی کہ چور کہیں ان کی اپنی بگل میں ہوسکتا ہے تو شرمندگی مٹانے کی خاطر واویلہ شروع کر دیا۔
دولت اور سائز کے تکبرنے بھارت کو اندھا کر دیا ہے پاکستان کے لوگ بھارت کو اپنا ازلی دشمن سمجھنے کے باوجود پیپل ٹو پیپل ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ میں ہیں اگر کوئی ہندستان سے پاکستان دیکھنے آئے تو مہمان نوازی کی بھی آخیر کر دیتے ہیں کم از کم اس بات پر ہی شرم کر لینی چاہیے تھی۔ پاکستان سمیت ہر ذی شعور انسان کو پہلگا م میں ہونے سانحہ پر دلی افسوس ہے کیونکہ مذہب کوئی بھی ہو یہ انسانوں کی ہلاکت ہے اس پر بھی سیاست شرم ناک عمل ہے ۔ باقی ہمارے ہاں توہیرو اور ویلن بھی مذہب دیکھ کر سمجھے جاتے ہےں بیشک آپ مطالعہ پاکستان پڑھ کر دیکھ لیں ۔ ہمیں جنگوں سے ڈر نہیں لگتا۔اب قوم کے بچوں کو کچھ امن کے بارے میں سکھایا جائے نفرت اب مزید قومی کھیل نہیں ہونی چاہیے۔ امن کبھی بھی بزدلی نہیں ہوا بلکہ ترقی کا راستہ ہوتا ہے۔ آج جو دنیا میں ترقی دکھائی دیتی ہے وہ جنگوں کی بدولت نہیں بلکہ امن کی بدولت ہیں ۔یورپ ایک ہوسکتا ہے، مشرقی وسطیٰ اور عرب ایک ہوسکتے ہیں تو سارک کو ایک ہونے میں کیا مسلہ ہے۔ آخری حل تو امن ہے چاہیے جب بھی ہوجائے۔ ورنہ ترقی ناممکن ہے۔
*******