اندھے، گونگے، بہرے : یوحناجان

ایک مقصد جس کو ازسر نو جاننا ضرورت اور جاننے کے لیے ضروری ہے۔ کہاں سے شروع کروں یا کس لہجہ سے اس کا مجھے کوئی اندازہ نہیں۔ ان خیالات کی کشمکش میں ان اعضاء نے سر اُٹھا کر جینے کا فیصلہ کیا۔ دن رات ایک ایک کرکے اپنے اپنے اسلوب میں سلیقہ زندگی کا پروان کرنے میں مگن ۔ کان ، زبان اور آنکھ تینوں ہاتھوں میں ہاتھ لیے صبح کی سیر کے لیے باغ میں گئے۔ گفتگو کا انداز محبت سے لبالب ، موسم خوش گوار ، پرندوں کی آواز سُر سے مہک ، پھولوں کی ادا ایک سحر کے روپ میں رونق کو دوبالا کرنے میں مگن۔
یہ تینوں دوستی روپ میں اس ماحول کے باطنی عکس کو گہرے سانسوں سے محو گفتگو لُطف اندوز کیے جا رہے ہیں۔ زبان نے بات کو بڑھاتے ہوئے کہا؛
” اگر میں نہ ہوں تو تم دونوں کسی کام کے نہیں بالکل اُدھورے رہ جاتے ہیں۔ کیوں نہ پھر اس پر مجھ ناز ہونا چاہیے۔ اس کا کہنا تھا کہ باقی دونوں نے قدرے حیرانی سے کہا ” کیا مطلب ؟”
میں ہوں گی تو بول پاو گے، میں لب کشائی کروں گی تو دوسرے سُن پائیں گے۔ اگر ایسا نہ ہو تو موقف بیان نہ ہو پائے گا۔ لہذا قدر ثابت ہوتی ہے میں میں ہی ہوں جو۔۔
جیسے ہی یہ الفاظ کان کی سماعت کا حصہ بن کر ٹکراتے ہیں تو آنکھوں نے اُکھڑے لہجہ پر ایک گہری نظری کی ، سماعت نے رُخ بدلا, آنکھوں نے منہ پھیرا ، ہاتھوں میں ہاتھ ایک دم نکل کر جدا جدا راہ پہ ہوئے۔ دونوں نے بیک وقت مخاطب ہوکر اپنا وقف دیا جب سے تم نے اس اثر کو اپنے من میں جگہ دی , راہیں جدا ہوئیں ۔ ایک سے بڑھ کر ایک جدائی کا عالم بے رنگینی کا غلبہ لیے پھیل گیا۔ تم جتنا مرضی بولتے جاو سُننے والا کام تمام ہو گیا ہے۔ دیکھنے والا عمل رُک جائے تو بولنا کس کو ہو گا۔
اب نہ تمھارا وہ معیار رہا اور نہ وہ قصہ و کردار ، ان لمحات سے قبل تمھارا معیار کچھ اور تھا اور نہ اب کچھ اور۔ عالم کا رنگ بے رنگ ہو کر نیم مدہوشی کا لبادہ لیے سُننے کو تیار نہ دیکھنے کو ترجیح۔ ایک ایسا رنگ جو تم نے اس باغ کی فضاء میں بکھیرا دیا اس پر باغ نالاں ہے۔ جو تم انداز تکبر پر لیے ہو تمھیں سُننے والا نہ پایا۔ فضول بیکار ، بے اثر و بے معانی۔
یہ انداز کے اگلے ہی لمحہ کانوں نے اپنا ، آنکھوں نے الگ موقف دیتے ہوئے زبان سے علاحدہ ہونے کا اعلان کیا۔
اب باغ سُنسان ، عجب داستان ، اکیلی زبان ، چرب زبانی کا سازوسان کرتی باغ میں بوہٹر کے درخت کے پاس جاتے ہی بولی پر کوئی جواب نہ ملا۔ بعد ازاں ہر ایک پودے اور درخت سے جاجاکر فر فر کرتی جاتی پر کوئی جواب نہ ملا۔ ہر طرف چُپ کا سماں ، گونگے بہرے کا نشاں ، دیکھنے جستجو سب کی سب نالاں ، کہنے میں تو خاموشی ایک عبادت لیکن جسم و روح کے لیے ایک باغباں نہ جانے کھو گیا کہاں۔ جس کے بعد اُس نے تنہائی میں آہستہ آہستہ اپنے آپ میں رہنے کا عادی بنا لیا۔
ایک دن اچانک باغ میں تیز ہوا چلی ، آندھی اور طوفان کا منظر برپا ہوا، پرندے اپنے گھونسلوں میں ، حشرات اپنے محلوں میں بیٹھے قدرت کے حضور التجا میں مصروف اور یہ تن تنہا زور زور سے چلا کر ” کوئی ہے سُننے والا”۔
یہ معاشرہ ( انارکی ) آپ کے باغی ہونے پر تنقید تو کرتا ہے ،پر آپ باغی کیوں بنے اس پہ بات نہیں کرتا ہے۔
رات کی رعنائی ، دُکھ کی دوہائی ، ایک طرح کی مصیبت آئی جس نے طرح طرح کے رنگ میں رنگ ڈال کے ان کی اہمیت کو ختم کر ڈالا۔
وقت کی لہر کے بدلنے کے ساتھ سب بدلے ، اس بدلے کے عوض سب نے بدلا لینے کی ٹھان لی، وہ بدلے ، رنگ بدلا، ڈھنگ بدلا، آنگ بدلا بدلتے بدلتے سب بدلا ، راستے جدا ہو کر سب بیگانے بن گئے۔ ہوس کا بازار ، زر کا پرچار ، غروب آفتاب کا یلغار اپنا آپ دکھانے لگا۔
سب کے سب اندھے گونگے ، بہرے ، ہوکر ڈھنگ کی جگہ ڈنگ مارتے ملے۔ کبھی ماضی میں سپیرے سانپ کا کرتب دکھاتے ، اپنے فن کا جادو جلاتے ، گھر بار چلاتے بچوں کا پیٹ روز کی روٹی سے پاتے۔ پر اب سپیرے نہ سانپ سب کے سب ڈنگ کو نئے ڈھنگ سے پہچان کرواتے۔ ان کے اس کردار سے سانپوں اور سپیروں نے کنارہ کیا۔ اب اس میں ہمارا کام تو ہر ایک گلی و کوچہ میں ہے۔ ہم نےسانپ قید میں رکھا پر انھوں نے ہر موڑ اور چوراہے پر آزاد و خود مختار بیٹھا رکھے ہیں ۔ سانپ کو سانپ کاٹ رہا پر وس کسی کو نہیں چڑھ رہی۔ کوئی جواب نہیں کوئی سوال نہیں۔ وہ ڈبے جن میں سانپ قید تھا اب پناہ کے لیے انھوں نے جگہ لے لی۔ کہیں سانپ نہ کاٹ لے۔ گھر، گلی ، محلہ ، شہر اور گاوں کے گاوں سب سُنسان ہوئے پڑے ہیں۔ سانپوں کی یلغار دن بدن بڑھنے سے اب تو اونچی آواز میں بات کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ اب سپیرے خود خوف زدہ ، کاروبار بند کرکے ہاتھ پہ ہاتھ رکھے چُپ کا روزہ رکھے اپنے بچوں کو دلاسہ دے رہے ہیں بیٹا ابھی روزے چل رہیں۔ جیسے ہی ختم ہوں گے چیزیں سستی ہو جائیں گی پر معلوم نہیں کہ روزے کتنے ہوں گے۔ چاند روٹھ کر کہیں جا چُھپا ہے۔ وہ بڑھنے کی بجائے کم ہو جانے کو ترجیح دے کر بھول گیا کہ میں نے بڑھنا بھی تھا پر کیا کرے وہ خوف سے مارا باہر سر ہی نہیں نکال رہا کہیں کوئی سر ہی کاٹ نہ لے۔ نہ جانے وہ آنگن ، وہ ادا ، دل کی صدا اور اُلفت کا مدعا کب پیش ہو ۔۔ لیکن یہاں اندھے ، گونگے اور بہرے ہیں۔

نوٹ: “تادیب” کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ “تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام

دے رہا ہے۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading