گیارہ اگست اور اقلیتیں : امجد پرویزساحل

قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک وطن عزیز میں بسنے والے غیرمسلم پاکستانیوں پر جن کو عرف عام میں اقلیتیں کہا جاتا ہے اتنے احسان کیے جا چکے ہیں جن کا شمار نہیں،یہاں تک کہ حکومت نے پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کے نام ہی ایک دن کو منسوب کر دیا تاکہ وطن عزیز میں بسنے والی اقلیتیں کم سے کم احساس محرومی کا شکار ہوں۔ اب پتہ نہیں یہ بات کہاں تک درست ہے۔ بحرحال اس دن سارے پاکستان میں اقلیتیں اپنے اپنے طریقہ سے اس دن کو مختلف سیاسی وتعلیمی پلیٹ فارم پر مناتی ہیں ۔اس دن پاکستان کا سرکاری اور پرائیویٹ میڈیا پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں کے کارناموں پر حسبِ توفیق روشنی ڈالتا ہے ۔ مختلف قسم کی تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ جس میں سیاسی اور حکومتی نمائندے بے بس اقلیتوں کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کرتے اور اُنہیں یہ احساس دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ حکومت اُ ن کے جان و مال کے تحفظ کی مکمل ضامن ہے اور یہ بھی کہ وہ پاکستان میں محفوظ ہیں۔
وطن عزیز پاکستان پراقلیتوں کے بڑے احسانات ہیں حالاں کہ احسانات ہمیشہ غیروں پر کیے جاتے ہیں۔ اپنوں پر نہیں اور یہ بھی کہ اگر اقلیتیں پاکستان کے حق میں اپنا ووٹ کاسٹ نہ کرتیں تو شاید پاکستان معرضِ وجود میں ہی نہ آتا ۔میں سمجھتا ہوں یہ اوپر بیان کی گئی سب روایتی باتیں سچ بھی ہیں لیکن اگر پاکستان میں سابقہ حکومتیں یا سیاسی جماعتیں اس بات کو تسلیم کر لیتیں اور یہ مانتیں کہ اقلیتیں پاکستان کا ایک اہم جزو ہیں، ان کے بغیر پاکستان کی ترقی ناممکن ہے تو آج پاکستان کا نقشہ کچھ اور ہوتا اور یہ بھی کہ اس کو عام آدمی تک اور پاکستان کی ایک اہم دستاویز کا حصہ کیوں نہیں بنایا گیا۔ اقلیتوں کو آئینی طور پر تسلیم کیوں نہیں کیا گیا؟
تاریخی ،تعلیمی اور آئینی طور پر اقلیتوں کو دیوار کے ساتھ کیوں لگایا گیا؟ یہ بات لمحہ ٔ فکریہ ہے کہ آ ج تک اقلیتیں اپنے آپ کو غیر محفوظ اور بیگانہ کیوں خیال کرتیں ہیں۔ پچھتہر سال گزر جانے کے بعد بھی اکثریت اور اقلیت میں یہ خلا پُر نہیں کیا جا سکا۔ اکثریت آج بھی اقلیت کو کوئی خلائی مخلوق ہی سمجھتی ہے۔اس کی بڑی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ پاکستان میں نہ کوئی مناست نظام بن سکا نہ ہی جمہوریت اپنے پاﺅں پر کھڑ ی ہو سکی ۔ ساڑھے سات دہائیوں سے ہم اپنے اوپر تجربات ہی کرتے آرہے ہیں۔ آج بھی بابائے قوم قائداعظم محمدعلی جناح کی وہ تقاریر جس میں قوم کی تعریف ریاست کے باشندے سے منسوب ہے عام آدمی کی نظروں سے اوجھل رکھی جاتیں بل کہ اس ڈھٹائی سے یہ کہاجاتا ہے کہ بابائے قوم پاکستان کو ایک مسلم ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے اور پھر اس کے بعد اس کو ایسے بیان کیا جاتا ہے کہ جیسے وطن عزیز مسلمانوں کے سواکسی اور کا نہیں حالاں کہ حقائق اس سے بہت مختلف ہیں۔ پاکستان کی بنیاد جمہوریت تھی اور جمہوریت کا دارومدا ر عوامی رائے پر ہوتا ہے نہ کہ ایک طبقہ اور ایک عقیدہ پر۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان چودہ اگست کو نہیں بلکہ گیارہ اگست کوہی وجود میں آگیا تھا جس دن قائد اعظم نے اپنی گیارہ اگست کی تقریر میں کہا تھا کہ پاکستان میں بسنے والا چاہے اس کاتعلق کسی بھی مذہب اور عقیدہ سے ہو پاکستانی ہے اور اس کو اپنے مذہب و عقیدہ کے مطابق زندگی گزارنے کا پور ا پورا حق ہے اور ریاست اور مذہب دو مختلف چیزیں ہیں۔ ریاست کا کسی فردکے عقیدے سے کوئی سرو کار نہیں ۔ لہٰذا پاکستان میں بسنے والا ہر شہری صرف اور صرف پاکستانی ہے۔
پس آج اگر ہم اپنے تعلیمی ،ریاستی ،سیاسی اور آئینی نظام کو دیکھیں تو کیا اسی طرح ہے؟ آج ہمارے آئین نے ہماری قوم کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے ۔ مسلم پاکستانی اور غیر مسلم پاکستانی ۔ اور پھر غیر مسلم پاکستانی جیسے کسی اور ملک کا باشندہ ہو۔ نہ تو اس کو اعلیٰ عہدے تک جانے دیا جاتا ہے بلکہ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ان کو جان بوجھ کر پسماندہ ،غریب اور نادہند ہ رکھا گیا ہے تاکہ یہ ملک کی بہتر طور پر خدمت میں حصہ نہ لے سکیں۔ آئین میں تو صرف ملک کا وزیراعظم اور صدر بننے پر پابندی عائد کی ہے لیکن اس کے اثرات نیچے تک پہنچتے ہیں۔ عام چھوٹے سے چھوٹا ادارہ بھی اپنے اوپر یا انتہائی اوپر والی سیٹ پر کسی غیر مسلم کو برداشت نہیں کرتا۔ جاویدڈینی ایل کہتے ہیں؛
چھوڑ کر کوئی جائے نہ اِس دیس کو
کوئی تدبیر ایسی کیا کیجیے
تاریخ گواہ ہے کہ وطن عزیز میں محب وطنوں کو یا تو جلا وطن کر دیا گیا یا وہ خود ہی ملک چھوڑ کر چلے گئے اس کے علاوہ یہ چند سال پہلے کی بات ہے میرے ایک دوست کے ساتھ بالکل ایسا ہی واقعہ پیش آیا جس کو اس ادارے کے مالک نے یہ کہہ کر فارغ کر دیا کہ کوئی غیر مسلم کسی ادارے کاسربراہ نہیں بن سکتا۔ کیا یہ قائداعظم کی اس گیارہ اگست کی تقریر کی کھلم کھلا نفی نہیں؟ جس پاکستان میں بسنے والے چاہے اس کو کسی بھی مذہب یا عقیدہ سے تعلق کا ذکر کیا گیا ہے ۔ میں تو یہ سمجھتا ہے کہ اگر یہ حکومت پاکستان میں بسنے والے ا قلیتوں کوکوئی اچھا سا گفٹ دینا چاہتی ہے تو اس تقریر کو سرکاری طور پر آئین کا حصہ بنانے کے بعد پبلک کردے اور پاکستان میں ہر صوبہ کے تعلیمی نظام میں شامل کر دے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں پاکستان میں بسنے والے ہر پاکستانی کی عزت کر سکیں ۔ اور امن قائم ہو سکے۔ حب الوطنی کو ہوا مل سکے اور قائداعظم کی روح کو سکون مل سکے ۔ آج اگر ہم نے وطن عزیز کے اس بکھرتے شرازے کو نہ بچایا تو ہماری آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔
بس بقول جاویدؔ ڈینی ایل یہی کہنا چاہتا ہوں؛
اپنے گھر سے وطن سے وفا کیجیے
اَمن ہو قریہ قریہ دُعا کیجیے
پاکستان پائندہ باد

نوٹ: “تادیب” کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ “تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading