افسانہ ۔ رزقِ خاک : آسناتھ کنول

زندگی بڑے آرام و آسائش سے اپنی ڈگر پر رواں دواں تھی۔اتنے عیش و آرام تھے۔کسی بھی بات کی فکر نہ تھی۔وہ ان حسین پہاڑوں کی بیٹی تھی۔حدِنگاہ تک پھیلے ہوئے جنگلات اور یہ دیدہ زیب نظارے اس کی تڑپتی پھڑکتی روح کو بڑا سکون دیتے تھے۔کتنی ہی باتیں تنہائی میں وہ ان سرمئی پہاڑوں کی نظر کرتی تھی،کتنے راز و نیاز چلتے تھے اور وہ دل کی باتیں ان ہوائوںاور برفانی فضائوں سے کہہ لیتی،سارے صنوبر اور چنار اپنے تھے۔چناروں کی سرخ آگ اُس کو اپنے اندر دہکتی محسوس ہوتی تھی۔کشمالہ اٹھارویں برس میں قدم رکھ چکی تھی۔ایف اے تک پڑھ لیا تھا۔بی اے کرنے کی خواہش تھی پر اماں بابا کو بڑا اچھا رشتہ مل گیا تھا۔ساتھ والے حاجی مراد خان صاحب کا بیٹا سجاول خان پچھلے چار سال سے مانچسٹر (انگلینڈ) میں تھا تاکہ کما سکے ا ور بھرا پرا گھر چلا سکے۔
حاجی مراد خان کا خاندان بھی تو بہت بڑا تھا۔بڑے بھائی حاجی رزاق خان کو انگلینڈ کا چانس ملاتو وہ خود بھی گیا اور گھر کے اور بہت سے افراد کوبلا لیا۔محنت کی دولت کمائی۔مظفر آباد میں اپنی مارکیٹ بنائی۔دو سال پہلے ہی ایک ہوٹل بھی بنا لیا تھا۔اتنی خوبصورت اور پُرفضا جگہ پر ہزاروں لوگ آتے۔خاص طور پر گرمیوں میں تو بہت لوگ آتے۔غیر ملکیوں کے ساتھ ساتھ اب تو اپنے ملک کے لوگ بھی بہت آنے لگے تھے۔ہوٹل اور مارکیٹ کی کمائی تھی۔گھر بھی خوبصورت تھے۔باغیچے اور پھول،فضا اور سرمئی پہاڑوں کا جلوہ، زندگی اس سے زیادہ خوبصورت اور پُرفریب نہیں ہو سکتی تھی۔
کشمالہ اپنے گھرانے کی سب سے حسین لڑکی تھی،سجاول کی پسند بھی تھی اور یوں یہ رشتہ بغیر کسی رکاوٹ کے طے پا گیا۔کشمالہ کے باپ اور بھائی کا بھی گرم کپڑوں کا ایک بڑا جنرل سٹور تھا۔ چھوٹا بھائی سیبوں کا کاروبار کرتا تھا۔یوں یہاں بھی خوشحالی تھی۔خوبصورت ڈھلانوں پر بنے گھر سبزے میں گھرے موتی لگتے تھے۔اب تو سنگ مرمر اور ماربل کا بہت کام ہونے لگا تھا۔برف باری کے موسم میںکاروبار کچھ مندا ہو جاتاپر دو تین ماہ کے بعد ہی کاروبار پھر عروج پر پہنچ جاتا۔کشمالہ کی سہلیاں اُسے بڑا خوش قسمت قرار دیتی تھیں۔کشمالہ تو مانچسٹر کی میم بن جائے گی،تو پہلے ہی میم لگتی ہے،سرخ سفید رنگ،سبزی مائل شربتی آنکھیں،ستواں ناک،لانبی پلکیں،سروقد،نازک سراپااور وہ سہیلیوں کی اٹھکیلیوں پہ ہنستی جاتی۔بے فکری کے پُر شباب دن تھے،بے فکری کی خواب آسا راتیں تھیں۔آنے والے حسین لمحوں کی شنگرفی دھنک اس کے چہرے کو گلنار کیے رکھتی،اٹھتی جھکتی لانبی پلکوںمیں دور دیس کے سپنے سجے تھے۔سجاول کے خواب تھے جو پورے ہونے کو تھے۔شادی کی تیاریاں ہونے لگیں،دونوں گھرانوں کیاسارے محلے میں تیاریاں تھیں،سکھی سہلیاںالگ،آس پڑوس کی عورتیں الگ خوشیوں اور مسکراہٹوں کے گجر بجنے لگے تھے۔کشمالہ کے وجود میں کسی یاد کی کٹار اُترتی تو وہ ان سُرمئی پہاڑوں میںنکل جاتی۔دل کا حال کہتی تو پہاڑ بھی مسکرانے لگتے۔ہوائیں جھومتی،فضائیں گاتیں اور اُسے پیا ملن کی مبارکباد دیتیں۔اس سے زیادہ حسین زندگی کا تصور کہاں تھا اور پھر وہ گھڑی آ بھی گئی۔چناروں کے سرخ سایوں میں وہ سرخ گلاب بنی سجاول کے سنگ انگلینڈ چلی گئی۔سجاول سارا دن کام پر رہتا اور وہ اکیلی پڑے پڑے گھبرا جاتی۔دیکھتے دیکھتے سال گزر گیا۔وہ ماں بننے والی تھی اور اس صورت میں اس کی وحشت دو چند ہو گئی۔اس کا مانچسٹر میں رہنا دوبھر ہو گیا۔پہاڑوں کی پلی بڑھی تھی۔نرم فضائوں کو دل میں جگہ نہ ملی تو مظفر آباد کی کھلی فضائوں میں واپس آگئی۔راز دل فضائوں میں پھیلا تو اس کو سکون مل گیا۔دو ماہ بعد ہی ایک خوبصورت بیٹے کو جنم دیا۔سجاول ایک ماہ کی چھٹی لے کر آیا تھا۔بیٹے سے دل لگ گیا۔کشمالہ کوواپس لے جانے کی بڑی کوشش کی پر وہ مکر گئی۔سجاول سے کہا کہ وہ واپس آ جائے۔اپنے پیسے سے ہم یہاں کاروبار شروع کر لیں۔کچھ عرصہ تو سجاول نہ ماناپھر بیوی اور بیٹے کی یاد تڑپانے لگی تو سارا کاروبار سمیٹ کرواپس آ گیا۔باپ کے ساتھ مارکیٹ میں پیسہ لگا کر کاروبار کو فروغ دیا۔اپنا علیحدہ خوبصورت گھر بنایا،کشمالا نے چھوٹے سے قطع اراضی پر چھوٹا سا باغ بنایا ۔جس میں سیب اور آڑو کے درخت لگائے۔بہت سے پھولوں کی کیاریاں بنائیں،بیلیں لگائیں اور گھر اور بچوں کی پرورش میں لگ گئی۔وقت پر لگا کر اُڑتا رہا وہ تین بچوں کی ماں بن چکی تھی۔بڑے بچے سکول جانے لگے تھے۔وہ خود بچوں کو چھوڑنے اور لینے جاتی۔خود بچوں کو پڑھاتی۔میاں بیوی قابلِ رشک زندگی گزار رہے تھے۔گلی محلے والے بھی خوش تھے جتنا ہو سکتاوہ غریبوں کی مدد کرتی۔سہلیاں بھی کئی کئی بچوں کی مائیںبن چکی تھیں۔قریب قریب آباد تھیں،ملنے جلنے کا سلسلہ بھی رہتا۔زرتاشہ اور ام کلثوم تو دو تین گھر چھوڑ کر رہتی تھی۔روز ہی گپ شپ ہو جاتی۔کشمالہ آج بڑی پریشان تھی،آج صبح سے اُس کا دل گھبرا رہا تھا،بہت برا خواب دیکھا تھا۔سجاول آج کام پر نہ جائو میرا دل گھبرا رہا ہے۔بچوں کو تیار کر کے سکول چھوڑ آئی پر وہم اور گھبراہٹ کم نہیں ہوئے۔چھوٹے کو دودھ پلا کر سلا دیا،خود ناشتہ کرنے بیٹھ گئی۔سجاول نہا کر آیا اور ناشتہ کرنے لگا۔اس نے مطالبہ دو بارہ دوھرایا۔سجاول آج کام پر نہ جائو، پتہ نہیںلگتا ہے کہ جیسے کچھ ہونے والا ہے۔فضائیں بڑی خاموش اور گھمبیر لگ رہی ہیں۔کوئی پرندہ بھی نظرنہیں آرہا۔بُرے بُرے خیال آرہے ہیں۔
کشمالہ جان یہ تمہارا وہم ہے۔ کیا ہونا ہے۔کیا ہو سکتا ہے؟ برفباری کا موسم ابھی دور ہے۔میں لکڑیوں اور گیس کا بندوبست کر لوں گا۔ویسے بھی اتنا بڑا شہر ہے۔سب کچھ آرام سے مل جاتا ہے تم بہت جلد گھبرا جاتی ہو، ہاں اس طرح کرو زرتاشہ کو بلا لو، دل بہل جائے گا، میں جا رہا ہوں۔آج گوہر خان کو سامان کی سپلائی بھجوانی ہے۔اُنہوں نے پیسے بھجوا دئیے تھے۔سامان بھیجنا ضروری ہے۔اچھا اﷲ حافظ، خدا حافظ۔
بجھے دل سے اس نے سجاول کو دیکھا، دل کو دھچکا سا لگا۔یوں لگا جیسے آخری بار اسے دیکھا ہو، اُس نے دل کو ملامت کی۔اس سوچ سے ہی وحشت ہونے لگی۔بیڈ پر بیٹھی،ٹی وی لگا لیا اور قہوہ پینے لگی۔زرتاشہ نے دستک دی۔کشمالہ کیا بات ہے۔سجاول بھائی نے مجھ سے کہا کہ تم سے مل آئوں۔بچے سکول بھیج دیئے۔اب میاں کام پر گیا ہے تو ادھر آئی ہوں۔کیوں پریشان ہو رہی ہو۔۔زرتاشہ دل گھبرا رہا ہے یا تو مجھے کچھ ہونے والا ہے یا خدانخواستہ کسی اور کو۔زرتاشہ ہنسنے لگی، ایک بات بتائو، ’ہوں ـ ـ‘وہ رازدارانہ لہجے میں بولی۔کہیں پھر پائوں تو بھاری نہیں ہو گیا۔نہیں۔زرتاشہ ایسا کچھ نہیں ۔کچھ ہوتا تو تمہیں پتہ ہوتا۔ لیکن کچھ ہے جس کی آگاہی مجھے مل رہی ہے۔پر میں سمجھ نہیں پا رہی۔وہ دیکھو کھڑکی سے باہریوں جیسے پہاڑوں سے دھواں اُٹھ رہا ہو۔فضائیں بھی ساکت ہیںاوریوں لگ رہا ہے جیسے زمین ہلنے لگی ہے۔کوئی طوفان آنے والا ہے۔یہ دیکھو، یہ جیسے سب کچھ ہل رہا ہے۔زرتاشہ یکدم گھومی،کشمالہ باہر آ جائو زلزلہ آ رہا ہے۔ہائے میں مر گئی۔میرے بچے،زرتاشہ نے باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔کشمالہ گھبراکر باہر نکلی۔میرے بچے، زرتاشہ نے باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔کشمالہ گھبرا کر باہر نکلی۔میرے بچے،وہ واپس کمرے کی طرف مڑی۔ننھے کو پکڑنے کیلئے۔پر یہ کیاپائوں دہلیز پر تھا اور دہلیز کہیں اور پہنچ گئی۔وہ جھٹکا کھا کرباہر گری۔کتنے ہی پتھر ٹوٹ کر اس پر آ گرے۔سر کسی پتھر سے ٹکرایا اور وہ بے ہوش ہو گئی۔ ہوش میں آئی تو سر سے خون نکل نکل کربالوں اور کپڑوں میں چپک گیا تھا۔کپڑے پھٹ گئے۔ٹانگوں پر اینٹوں کا ڈھیر پڑاتھا۔کیسے نکلے،کیا ہُوا،وہ کر اہنے لگی۔ایک ایک اینٹ پیچھے کی۔سر کی درد نے اٹھنا دوبھر کر دیا تھا۔آنکھوں کے آگے دھند چھا رہی تھی۔بمشکل اینٹیں اُٹھا کر پیچھے کیں۔ٹانگیں گھسیٹیں،شلوار جگہ جگہ سے پھٹ گئی۔ٹانگوں سے خون رس رہا تھا،پر ہڈی سلامت رہ گئی۔ایک ٹوٹی ہوئی دیوار کا سہارا لے کر اُٹھی اور لڑکھڑا کر گرپڑی۔گھر کی طرف نظر کی تو ہولا گئی۔ابھی تو یہیں تھا،سلامت تھا،چمکیلے ماربل سے مزین خوبصورت گھر جس کی اینٹوں میں اس کا خون جگر شامل تھا۔سارا گھر بکھرا ہوا پڑا تھا۔نہ دیواریں تھیں،نہ چھتیں۔کافی دیر اس ماحول کا یقین کرتی رہی۔یوں لگا جیسے کوئی خوفناک خواب دیکھ رہی ہو۔وہ رات بھر بھی ایسے ہی مناظر دیکھتی رہی تھی۔ایک ایک کر کے اسے سب یاد آنے گا۔اس کا بچہ اندر سو رہا تھا۔اندر۔۔۔پر اندر کہاں ہے میرا بچہ،وہ پاگلوں کی طرح گرے ہوئے ملبے کی طرف بڑھی۔مگر منوں وزنی کنکریٹ کی چھت کو ہٹانااس کے بس میں کہاں تھا۔آہیں اور کراہیں دھاڑیں بن گئیں۔ملبے پر کھڑے ہو کر دیکھاسرد ہوائوں کا ہولناک شور سارے پہاڑجن سے وہ محبت کرتی تھی دشمن بن گئے تھے۔ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر رہے تھے۔سارے شہر پر جیسے کوئی جن پھر گیا تھا۔یہ کیا سارا شہر گر پڑا۔میرے بچے!!سکول بھیجے تھے وہ ننگے سر اور ننگے پائوں اس بات سے بے خبر کہ کپڑے پھٹ کر چیتھڑے بن چکے ہیں،وہ ملبے اور پتھروں کو تیزی سے پھلانگتی پاگلوں کی طرح سکول کی طرف بھاگنے لگی۔کتنے ہی لوگ اس طرف بھاگ رہے تھے۔زرتاشہ بھی تھی۔اس کا حال بھی کشمالہ سے مختلف نہیں تھا۔آنسو بہانے کی فرصت بھی نہیں تھی۔دل سے اور وجود سے ٹیسیں اُٹھ رہی تھیں۔یا اﷲ میرے بچوں کو بچا لے۔دعائوں کا ورد کرتے وہ سکول کی عمارت کے باہر پہنچی۔صبح بچوں کو بڑے پیار سے تیار کر کے بھیجا تھا۔یہ کیا لوگ ملبے کے ڈھیرپر کھڑے بچوں کو نکالنے کی تگ ودو کر رہے تھے۔اصلی عمارت کہاں گری،کس کمرے پر،کون سا کمرہ گرا،کون سی چھت کہاں گری،کوئی پتہ ہی نہ چل رہا تھا۔کچھ آوازیں آ رہی تھیں۔ اماں۔ بابا مجھے بچا لو۔میں زندہ ہوں۔یہ چھت ہٹا دو۔ہائے مجھے یہاں سے نکالو۔ایسی ہی دوسری آوازیں دلوں کو دہلا رہی تھیں۔بہت سے لوگ کدالیں اور بیلچے لیے پہنچ گئے۔ان پتھروں اور مضبوط چھتوں کو ہٹاناان کے بس کی بات نہیں تھی۔سیمنٹ ٹوٹ جاتاپر لوہے کے جال کو کیسے کاٹیں۔کچھ لوگ دروازے کی طرف زور لگا کرچھت دھکیلنے کی کوشش کر رہے تھے۔بچوں کو تسلیاں دے رہے تھے۔بے بسی سے ہاتھ پائوں مار رہے تھے۔کیا کریں کیا نہ کریں بے بسی سے سر پٹخ رہے تھے۔کشمالہ بد حواسوں کی طرح اپنا درد بھول کر ان چھتوں کو دیکھنے لگی۔زریاب اور رباب یہیں آئے تھے۔سکول تو نہیں بدل گیا۔پھر وہ کہاں ہیں وہ پاگلوں کی طرح پتھرہٹانے لگی۔زریاب،رباب کہاں ہو؟ باہر آئو۔کہاں جائوں کیا کروں۔امید بھری نظروں سے وہ ان آدمیوں کو دیکھنے لگی۔جو بیلچے اور کدالوں سے پتھر توڑ رہے تھے۔جلدی کرو لالہ جلدی کروپر وہ کیا کریں کوئی کام کی چیز نہیں تھی۔سب ٹوٹ پھوٹ اور تباہی کا شکار تھا۔کوئی آ جائو وہ دہائی دینے لگی۔زرتاشہ کہاں ہے؟اس نے دیکھا زرتاشہ ایک دیوار کے ساتھ سکتے کی کیفیت میں بیٹھی تھی۔کوئی آواز ہی آئے،کوئی پکارے،کوئی ماں کہے۔کان ترس رہے تھے،دل پھٹ رہے تھے، آنکھیں اُبل رہی تھیں۔میرے بچے، وہ دہائی دینے لگی۔کوئی میرے بچوں کو بچائو۔سڑک پر بھاگنے لگی۔کوئی میرے بچوں کو بچائو۔اچانک ایک طرف سے تین چار فوجی بھاگتے آئے۔کشمالہ ان کی طرف بھاگی میرے بچوں کو بچائو۔میرے بچوں کو بچائو۔کہاں ہیں بچے وہ سکول کی طرف آئے ۔انہوں نے بیلچے اور کدالوں سے ایک طرف تھوڑا سا رستہ بنایا۔ایک فوجی ٹارچ لے کر نیچے اُترا۔بچے پتھروں کے ڈھیر میں گھرے کراہ رہے تھے۔لوگ باہر شور مچا رہے تھے۔کراہتے ہوئے زخمی بچے،کسی کی ٹانگیں،کسی کے بازو، کسی کا سر،کوئی سارا کا سارا چورچور۔کراہتے ہوئے بچے نکال لیے گئے۔ان میں زریاب اور رباب نہیں تھے۔
بی بی جتنے بچے زندہ تھے نکال لیے ہیں۔باقی پتھروں کے نیچے ہیں اور ان میں زندگی نہیںہے۔آپ انہیں سنبھالیں ہم سامان لے کر آتے ہیںاور جگہوں پر بھی جانا ہے۔تین چار زخمی بچے نکال کر وہ اگلے سکول کی طرف چلے۔شائد وہاں بھی کوئی بچ جائے۔باقی لوگوں کو وہ رونے کو چھوڑ گئے۔لاشیں تو نکال دو،ہم آخری دیدار تو کر لیں،خود دفنا لیں،زخمی مرد دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔کشمالہ سر پر بازو رکھے ملبے کے ڈھیر پر بیٹھ گئی۔زندگی کو کیا ہو گیا ہے۔اتنی جلدی بھی زندگی مٹ جاتی ہے۔میرا ننھا وہ تو چھت کے نیچے ہے۔شائد زندہ ہو۔وہ امید کی کرن جگائے واپس بھاگی۔پہچان مٹ گئی تھی۔گھر کی گلیاں بھی بدل چکی تھیں۔محلوں کے روپ بدل گئے تھے۔اپنا ہی گھر تلاش کرنا مشکل لگ رہا تھا۔سماں رو رہا تھا۔فضائیں بین کر رہی تھیں۔ہوائیں نوحے کر رہی تھیں۔لمحہ لمحہ سسک رہا تھاابھی کچھ دیر پہلے سب کچھ قائم تھا۔ہنس رہا تھا اور اب شہر وہ شہر ہی نہ رہا تھا۔زخمی ہاتھوں سے وہ پتھر ہٹانے لگی۔ننھے کوئی آواز دو،کوئی تو مجھے پکارو۔میرا دل پھٹ جائے گا۔اچانک اُسے سجاول کا خیال آیاوہ کہاں ہے،اتنا کچھ ہو گیا۔اُسے پتہ ہی نہیں۔وہ ابھی تک آیا کیوں نہیں۔ایک افراتفری کا عالم شروع ہوا۔روتے کراہیتے لوگ اپنوں کو ڈھونڈ رے تھے۔سجاول کہاں ہے وہ آئے اور ننھے کو نکالے،شائد وہ زندہ ہو۔سجاول کہاں ہو،وہ مارکیٹ کی طرف بھاگنے لگی۔بھاگتی رہی،پتھروں سے ٹھوکر لگی تو ملبے کے ڈھیر سے ٹکرائی۔بچنے کے لیے ایک دیوار کا سہارا لینے کی کوشش کی۔اس کوشش میں دیوار ریت کی دیوار ثابت ہو ئی ا ور ایک جھٹکے سے اس پرآگری۔تاریکی کی دبیز تہہ دماغ پر چھا گئی۔دنیا اندھیر ہو گئی تھی۔نازوں کی پلی آج خاک پر خاک ہو گئی تھی۔اُسے لگا کہ وہ مسلسل ہل رہی ہے۔درد کی ٹیسیں پورے وجود سے اُٹھ رہی تھیں۔ یوں جیسے سارا بدن کسی نے توڑ کر رکھ دیا ہو۔نہ ٹانگیں اپنی لگ رہی تھیں نہ بازو۔بس درد کا سمندر تھا جس میں وہ ڈوب کراُبھر رہی تھی۔پپوٹے سوجھ کر چپک گئے تھے۔بمشکل آنکھ کھلی۔وہ کسی اسٹریچر پر تھی۔کچھ لوگ اس کو اٹھا کر لے جا رہے تھے۔وہ کہاں ہے اور کہاں جا رہی ہے۔واقعات ایک تسلسل سے اس کے گرد گھومنے لگے۔وہ یاد کر رہی تھی کیا ہوا تھا۔شدید زلزلہ اور پھر سب کچھ ختم اور وہ زندہ ہے۔ میرے بچے اور شوہر، کچھ سوچنے کی کوشش کی تو دماغ پھر اندھیروں میں ڈوب گیا۔اب کہ جیسے کوئی چیز تیز کٹار بن کر بدن میں اتری۔شائد انجیکشن لگا تھا۔سوئی بدن میں چبھی تو کچھ دیر کو آنکھیں کھلیں، سامنے زبیر خان چچا کھڑے تھے۔وہ اُنہیں بلانا چاہتی تھی پر کیسے بدن نے ہلنے جلنے سے انکار کر دیا تھا۔چچا زبیر خان نے اس کو آنکھیں جھپکتے دیکھاتو لپک کر اُس کے پاس آئے،سر پر ہاتھ رکھا۔کتنے ہی آنسو چپکے سے کشمالہ کے بالوں پر گرے،وہ بولنا چاہتی تھی پرزبان نے ہلنے سے انکار کیا۔آنسو تھے جو بے دریغ بہے چلے جا رہے تھے۔میری بات سن رہی ہو۔اس نے آنکھوں سے اشارہ کیا۔گردن تو گویا سریا بن گئی تھی۔آنکھیں ہی تھیں جو کچھ بول اور سن رہی تھیں۔ڈاکڑ پاس کھڑا نبض چیک کر رہا تھا جو لمحہ لمحہ ڈوب رہی تھی۔سجاول زندہ ہے۔لیکن اس کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئی ہیں۔فوجی اسے ہیلی کاپٹر میں ڈال کر راولپنڈی لے گئے ہیں۔اس کے بچنے کی امید کم ہے۔ہو سکتا ہے پنڈی میں علاج ہو جائے۔باقی جہاں تک مجھے علم ہے سب رزقِ خاک ہو گئے۔ملبے ہٹا رہے ہیں،شائد کوئی زندہ نکل آئے۔آنسو رُک گئے تھے۔کھلی آنکھیں چاچا زبیر پر لگی تھیں جن میں انتظار اور اُمید کی کیفیت منجمد ہو گئی تھی۔
*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading