وہ وقت میری جاں دُور نہیں: ساحل منیر

یکم مئی ہرسال مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس حوالے سے جگہ جگہ مختلف سیمینارز,کانفرنسزاور دیگر تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں شکاگو کے مزدور شہدا کی یاد تازہ کرتے ہوئے اس دن کی اہمیت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔پاکستان بھی دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں یہ دن نہایت جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔لیکن بدقسمتی سے وطن عزیز کی تاریخ مزدوروں کے استحصال اور انکے ساتھ روا رکھے جانے والے غیرانسانی سلوک سے بھری ہوئی ہے اور مزدور طبقات آج بھی دن رات محنت و مشقت کرنے کے باوجود اپنے بنیادی انسانی حقوق کو ترس رہے ہیں۔
ملک کی غالب ترین اکثریت کو ایک معمولی سرمایہ دارانہ اقلیت نے اپنے قابل نفرت مالیاتی حصار میں جکڑ رکھا ہے۔طبقاتی تفریق کے اس نظام میں ایک مخصوص طبقہ تمام تر مادی وسائل پر قابض ہے اور زندگی کی تمام تر آسائشوں کو اپنا وراثتی حق سمجھتا ہے جبکہ دن رات محنت و مشقت کی چکی میں پسنے والا غالب ترین اکثریت کا حامل مزدور طبقہ اس مملکت خداداد میں بمشکل اپنے جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہے۔اس طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد جب مایوسی اور محرومی کی آخری حدوں تک پہنچ جاتے ہیں تو بعض اوقات اپنے بچوں کو بھی سربازار نیلامی کے لئے لے آتے ہیں اور انکے گلوں میں برائے فروخت کی تختیاں لٹکادیتے ہیں۔کبھی خود سوزی کرلیتے ہیں اور کبھی اپنے گلے میں پھندا ڈال کر یا زہر کھا کر اپنی زندگی بھر کی محرومیوں کے روگ کا ازالہ کرلیتے ہیں۔لیکن وطن عزیز کے مراعات یافتہ طبقے کو اِس سے کوئی سروکار نہیں۔ان کے نزدیک کیڑے مکوڑوں کی طرح زمین پر رینگنے والے یہ لوگ اس قابل ہی نہیں کی انہیں شرف انسانیت بخشا جائے اور زندگی کی بنیادی سہولیات و مادی وسائل کا حقدار سمجھا جائے۔ بقول ساحر لدھیانوی؛
جہانِ کہنہ کے مفلوج فلسفہ دانو
نظامِ نو کے تقاضے سوال کرتے ہیں
یہ شاہراہیں اسی واسطے بنی تھیں کیا
کہ اِن پہ دیس کی جنتا سسک سسک کے مرے
زمیں نے کیا اسی کارن اناج اُگلا تھا
کہ نسلِ آدم و حوّا بلک بلک کے مرے
ملیں اِسی لئے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں
کہ دخترانِ وطن تار تار کو ترسیں
چمن کو اسلئے مالی نے خوں سے سینچا تھا
کہ اُسکی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں
تپتی ہوئی دوپہروں اور یخ بستہ ہواؤں میں زندگی کی مشقتوں کو جھیلنے والے یہ بے مراد لوگ اس قابل بھی نہیں ہو پاتے کہ اپنی اور اپنے اہل خانہ کی ریائش و خوراک اور علاج معالجے کی مناسب ضروریات پوری کرسکیں۔اپنے بچوں کو بہتر تعلیم وتربیت دلانے کے خوابوں کی تعبیر پاسکیں اور غربت وافلاس کے چنگل سے رہائی پاکر اپنی من پسند دنیا تخلیق کرسکیں۔اپنی جسمانی محنت و مشقت سے دوسروں کو زندگی کی آسائشیں بہم پہنچانے والے یہ بدنصیب لوگ صرف دو وقت کی روٹی کے لئے کولہو کے بیل بنے رہتے ہیں اور اپنے انسانی حقوق کا راگ الاپنے والوں کو شاید یہ بھی نہیں سمجھا پاتے کہ انسانی حقوق کیا چیز ہیں؟……مگر واضح رہے کہ خلق خدا کے ساتھ روا رکھا جانے والا معاشی و معاشرتی استحصال کا یہ سلوک تادیر قائم نہیں رہ سکتا اور جبر و استحصال کا زور ایک نہ ایک روز ضرور ٹوٹے گا۔رات کے تاریک سینے سے روشنی کا شگوفہ ضرور پھوٹے گا اور کبھی وہ دن بھی طلوع ہوگا جب مزدوروں اور محنت کشوں کے انسانی حقوق کے تصور کو حقیقی معنوں میں عملی جامہ پہنایا جائے گا۔اِسی تناظر میں اپنی ایک نظم اپنے قارئین کی نذر کرتا ہوں؛
وہ وقت میری جاں دور نہیں
جب ظلم و ستم کے ماروں کا، اور پِسے ہوئے انسانوں کا
اِس جیون کھیل میں ہاروں کا،بے خوف و خطر دیوانوں کا
اس خاک پہ بہنے والا لہو،دھرتی سے خراج سمیٹے گا
اور اشکوں،غموں، آہوں سے لکھے،تاریخ کے ورق لپیٹے گا
مزدور کے خون پسینے کی،عظمت کی گواہی سب دیں گے
اور وقت کے منصف کے ہاتھوں،مظلوم کا ہر بدلہ لیں گے
وہ وقت میری جاں دور نہیں؛
جب بھوکے ننگے بچوں کی،فریاد عرش پہ پہنچے گی
ان پتھر ہوتی آنکھوں کی،تسکین یہ دنیا دیکھے گی
جاگے گی حقیقت رشتوں کی،برسوں کی خموشی ٹوٹے گی
اور بہکی بہکی سانسوں کی،توقیر یہ دنیا سمجھے گی
کٹ جائیں گے رستے سولی کے،آنسو نہ بہائے جائیں گے
الزام بھی حکم عدولی کے،ہم پہ نہ لگائے جائیں گے
اور قرضہء جاں کی وصولی کے،مت شور مچائے جائیں گے
ہر سمت محبت کی خوشبو،پھیلے گی امر ہو جائے گی
مٹ جائے گا فتنہء من اور تو،چاہت کی خبر ہو جائے گی
تب رقص کریں گے جام و سبو،اور تلخی ئجاں سو جائے گی
چیخے گا صلیبِ دل پہ لہو،آوا ز نہ پھر کھو پائے گی
پھر رات کا پیالہ الٹے گا،تاریک ہوا کے سینے پر
اور صبح کا قشقہ چمکے گا،ظلمات کے اندھے ماتھے پر
وہ وقت میری جاں دور نہیں؛ (ساحل منیرؔ)

(اقتباس: ماہنامہ “نیاتادیب” لاہور /ملتان، مئی 2023 صفحہ نمبر 15)

https://www.facebook.com/media/set/?set=a.634155735396187&type=3

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading