خواب سے آگے۔۔۔ : آصف عمران

رات کا پہلا پہر۔گلی میں لہراتے ہُوئے خاموش سائے۔ ہوا کی دیوار پر زرد چاندنی کی تنی ہُوئی چادر۔ چاروں طرف ایک گہرا سناٹا۔ اور کلینک میں ڈاکٹر میری آنکھوں کے صحرا میں اُتر آیا۔اور ریت میں آنکھیں گاڑے میرے دُکھ کی جڑیں ڈھونڈ رہا تھا۔ اچانک مجھے محسوس ہُوا کہ باہر دروازے پر کِسی کے قدموں کی چاپ آکر رُک گئی ہے۔ دروازے پر ہلکی دستک کی سرگوشی نے میری سماعت کے پردے پر اپنا نام لکھنے کی کوشش کی ہے۔ مَیں نے گردن موڑ کر دروازے کی طرف دیکھانہیں۔۔دروازے پر کوئی نہیں ہے۔۔۔ ڈاکٹر نے میرے چہرے پر بیقراری کی لہر محسوس کر کے کہا، ڈاکٹر اپنی کُرسی پر بیٹھا مجھے دیکھ کر مُسکرا رہا تھا۔ میری برداشت جواب دی گئی۔ مَیں جلدی سے اُٹھا اور دروازے سے باہر جھانکا۔۔ مجھے یاد آیا کہ وہ میرے ساتھ چلتی ہُوئی کلینک تک آئی تھی اور جب مَیں کلینک میں داخل ہُوا تو وہ اُلٹے پاؤں واپس چلتی ہُوئی گلی میں گُم ہو گئی تھی۔ مَیں نے سوچا کہ شاید وہ جلد واپس آکر میرا اِنتظار کررہی ہے مگر وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ مَیں واپس آکر اپنی کُرسی پر بیٹھ گیا۔
مَیں نے کہا تھا نا کہ باہر کوئی نہیں ہے۔۔ڈاکٹر موٹی سی کتاب بند کر کے میری طرف متوجہ ہُوا۔لیکن ڈاکٹر!مَیں نے خُود دروازے پر دستک کی سرگوشی کو محسوس کِیا تھا۔ مجھے لگا کہ وہ جلدواپس آگئی ہے۔کیا تُم بتا سکتے ہو کہ وہ تُمہیں پہلی بار کب مِلی تھی؟ ڈاکٹر نے اپنا سوال میری طرف اُچھال دِیا۔
ڈاکٹر۔۔۔میرا مسئلہ یہ کہ مَیں اُسے بچپن سے جانتا ہُوں۔ وہ ہمیشہ میرے ساتھ ہی رہتی ہے۔ دراصل وہ میری ایسی گُمشُدہ پسلی ہے جو میرے وجود کا گوشت پہن
کر میرے دِل کے اندر بسی ہُوئی ہے اور مَیں اُس سے شدید محبت کرتا ہُوں۔وہ میرے خوابوں میں بسنے والا ایک بے وجود خواب ہے۔ وہ میری سانسوں میں اِس طرح رچ بس گئی ہے کہ مَیں اُسے محسوس کر سکتا ہُوں مگر چھُو نہیں سکتا۔ وہ مجھ سے گھنٹوں باتیں کرتی ہے۔ مگر اُسے ہر وقت ایک انجانا سا خوف لاحق رہتا ہے کہ کہِیں مَیں اُس کا راز اپنے کِسی دوست کو نہ بتا دُوں۔
اور پھِر یُوں ہُوا کہ میرے خیالوں میں انجانی آوازوں کی لہریں محسوس ہونے لگِیں۔ ہیولے میرے چاروں طرف چلتے پھِرتے نظر آنے لگے۔ تب مَیں پریشان ہُوا اور اُن سے ہلکا سا خوف محسوس ہونے لگا۔ رفتہ رفتہ وہ آوازیں میرے خوابوں میں آنے لگِیں۔ بہت سے سائے میرے خوابوں میں آکر مجھ سے آنکھ مچولی کھیلنے لگتے۔ وہ بھی اُن سایوں کے ساتھ میرے خوابوں میں ساتھ ساتھ ہوتی۔۔۔ یُوں آہستہ آہستہ سایوں کا جنگل میرے اِرد گرد آباد ہو جاتا اور مجھے محسوس ہوتا کہ مَیں سیاہ دلدلوں میں اُگے صدیوں پرانے گھنے جنگل میں تنہا کھڑا ہُوں اور میری اپنی حقیقت کہِیں دُور اُس جنگل میں چھُپ گئی ہے۔ مَیں بھی اُن سایوں کی زندگی جینے لگتا ہُوں۔۔۔ اورمَیں وہ سایہ ہُوں جو اِس جنگل میں بھی موجود ہے اور اِس جنگل سے باہر بھی۔۔۔یہ جنگل اِتنا وسیع ہے کہ میرے تصور سے بھی باہر۔۔۔ مگر اِس کے باوجود اِس جنگل کی تمام ممکن اور نا ممکن وسعتوں میں۔۔۔ ہونی اور انہونی حقیقتوں کے ساتھ ایک الگ ہی دُنیا میرے ذہن میں بسی ہُوئی ہے۔ رات کے اپنے بھید ہیں اور خوابوں کے اپنے اسرار۔۔۔ دِن اور رات زِندگی کی دو اِنتہاؤں کا نام ہیں۔ رات رات سے خاموشی اور گہرے سکوت میں بات کرتی ہے جبکہ دِن دِن سے شوراور ہنگامے میں بات کرتا ہے۔ دِن جب جاگتا ہے تو زِندگی آگے بڑھتی ہے۔ دِن کی خوراک گہرے سمندروں کا سکوت نہیں بلکہ قیامت خیز ہنگاموں میں زِندگی کے عارضی ہونے کے دُکھ کا روگ ہے۔ اِس دُکھ کی شِدت کو کم کرنے کے لئے ہم دونوں نے جیتی جاگتی، ہنستی کھیلتی زِندگی کا حصہ بننے کا فیصلہ کِیاتو ہمارے سامنے زِندگی اور مسرتوں کی نئی منزلیں تھِیں۔ اور پھِر رات کے وجود پر میرے دِن کا بادل بُوند بُوند برس کر اُس کی کوکھ کی تشنگی کو سیراب کرنے لگا تاکہ اُس کی کوکھ ہری ہو اور زِندگی کے بیج کا پھُول بہار بن کر ہماری زِندگی کے آنگن میں اُگ آئے۔ وہ میری رُوح کی پیاس کو متاعِ جان سمجھ کر۔۔۔ اپنے جِسم کی شکستگی کو سہتی ہُوئی ایک نئی خواہش، تازہ اُمید اور اندھی چاہت میں تخلیق کی دیوارِ گریہ تک پہنچ گئی اور نا معلوم اور خوابیدہ وجود کو ممکنات کی دُنیا میں لانے کے عمل میں مصروف ہو گئی۔ مگر نا معلوم وجوہات کی بِنا پر زِندگی کا بیج کوکھ کی سخت زمین پر اپنے پاؤں جما نہ پایا اور وہ میرے بیٹے کی ماں بننے کی خواہش میں کرب اور اذیت سے گزرتی ہُوئی زِندگی کی بازی ہار گئی۔۔۔مجھ سے جُدا ہوگئی۔ اِس زمین پر یہی زِندگی ہے جہاں ہر طرف دُکھ ہی دُکھ ہیں اور اِنہی دُکھوں میں زِندگی کے اسرار پوشیدہ ہیں۔ زچہ بچہ کا میری زِندگی سے رُوٹھ جانا ایک المیہ تھا۔ اِس المیے نے میری رُوح کو ایسا گھائل کِیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ زخم گہرا ہوتا گیا۔ غم اور اُداسی اور تنہائی کے بادل میری زِندگی کے صحرا میں تسلسل سے بڑھنا شروع ہوگئے اور مَیں اکثر اپنی بے بسی پر رو پڑتا۔ مجھے لگتا کہ مَیں تنہا ہو گیا ہُوں۔۔۔میرے سینے میں خلا پیدا ہو گیا ہے اور میرا وجود خالی پنجرہ بن کر رہ گیا ہے اور پھِر آہستہ آہستہ انجانی آواز کی لہروں، چلتے پھِرتے سایوں۔۔۔اور بے وجود خوابوں کے ہجوم نے میرے وجود میں بسیرا کر لِیا۔ تب مَیں نے محسوس کِیا کہ نیند میں میرے جِسم کے قلعے کی فصیلوں میں رخنے اُبھرنے لگے ہیں۔ میرے سارے خواب جھٹکے کھانے لگے ہیں اور ایک نامعلوم خوف میرے اندر بس گیا ہے۔ جیسے جیسے اُس خوف کی جڑیں گہری ہونے لگِیں مَیں خُود کُشی کے بارے میں سوچنے لگا۔
نہیں۔۔۔نہیں۔۔۔تُمہیں خُود کُشی کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔ ڈاکٹر اپنی کُرسی پر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور پھِر میری آنکھوں کے سمندر میں اُترنے لگا۔ میرا بچہ بھی دُنیا سے بیزار نئے نئے خواب دیکھتا تھا اور پھِر ایک دِن خوابوں کے جنگل میں کھو گیا۔ میرے دوست۔۔۔یہ دُنیا ہے اور دُنیا میں دُکھ تو ہوتے ہی ہیں۔ لیکن تُمہں اِن دُکھوں کے جنگل میں سے ہی اپنے سکون کے اسرار تلاش کرنے ہیں۔ دراصل آپ ڈِپریشن کا شکار ہو۔ آپ کو بہت پہلے ہی اپنے دوسرے جیون ساتھی کو ڈھونڈ لینا چاہئے تھا۔ بہر حال اب مَیں دوائی لکھ رہا ہُوں۔ یہ تِین مہینے کا کورس ہے۔ فِکر نہ کریں آپ جلد ہی اِس خوف اور تنہائی اور اُداسی کے جال سے باہر نکل آئیں گے۔
ڈاکٹر مَیں ڈِپریشن کی دوائی نہیں لُوں گا۔۔۔مَیں نے ڈاکٹر سے نسخہ لے کر پھاڑ دِیا اور جانے کے لئے اُٹھ کھڑا ہُوا۔ ایک بات یاد رکھو۔۔۔ جب تک تُم خُود ٹھیک نہیں ہونا چاہو گے۔۔۔تو مَیں کیا۔۔۔کوئی بھی ڈاکٹر تُمہارے لئے کچھ بھی نہیں کر پائے گا۔ جب تُم خُود ٹھیک ہونے کا فیصلہ کرو گے پھِر بہت جلد ٹھیک ہو جاؤ گے۔ دراصل بیمار وہ شخص ہوتا ہے جو بیماری کو شکست دینے کی خواہش دِل سے نکال دیتا ہے اور بیماری سے آگے بڑھ کر موت سے سمجھوتہ کر لیتا ہے اور مجھے تُم بیمار نہیں لگتے۔کمرے میں خاموشی چھا گئی۔۔۔ڈاکٹر بھی اُٹھ کھڑا ہُوا اور مَیں تیزی سے کمرے سے نکل کر باہر گلی میں آگیا۔
گلی میں چاندنی رات کی شفاف چادر نے میری گاڑی کو اپنی بُکل میں چھُپا رکھا تھا۔ چاندنی رنگ کے پیسٹ سے گاڑی کا رنگ سونے کے ہلکے رنگ کا لشکارہ مار رہا تھا۔
مَیں نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ ر بیک ویو مرر میں دیکھا کہ وہ تو پہلے ہی سے پچھلی سیٹ پر موجود ہے اور میری آنکھوں میں ہی دیکھ رہی ہے۔ مَیں نے مُڑ کر اُس کی طرف دیکھا تو اُس نے گاڑی کا اسٹیرنگ پکڑ کر گاڑی کو انجانے راستے کی طرف موڑ دِیا۔ مَیں گاڑی کنٹرول کرتا ہُوں تو وہ گاڑی سے نکل کر سڑک پر بھاگنا شروع کر دیتی ہے۔ مَیں تنگ آکر گاڑی کو سڑک کنارے پر کھڑا کر دیتا ہُوں۔ سامنے سایوں کا جنگل آباد ہے۔ ہم اُس کی طرف چلنا شروع کر دیتے ہیں۔ شروع، شروع میں تو جنگل اچھا اور کشادہ لگا چلنے کو راستہ مِل رہا تھا مگر جیسے جیسے آگے بڑھتے رہے جنگل گھنا ہوتا گیا اور ساتھ ہی راستہ سُنسان اوربے سمت ہوتا گیا۔
نا ہموار راستوں پر چلتے چلتے ہم ریلوے لائن کے ٹریک پر پہنچ گئے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم پہلے بھی یہاں تک آچکے ہیں۔ اگرچہ میری یادواشت کی جڑیں کھوکھلی ہوتی جارہی ہیں اور میرے وجود میں تبدیلی کا عمل جنم لے چکا ہے۔ یُوں تبدیلی کی بھٹی میں جِسم کی بوسیدگی کا عمل وقت کی دیگ میں پک رہا ہے۔
ہمیں اپنے بارے میں کچھ سوچنا چاہئے۔ کوئی فیصلہ کرنا چاہئے۔ریلوے ٹریک کے ساتھ چلتے ہُوئے مَیں نے اُس کی طرف غور سے دیکھا پھِر ہِمت کر کے اپنا دایاں بازُو اُس کی کمر کے گرد حائل کر دِیا اور پھِر اُسے اپنی بانہوں کے حصار میں لے کر اپنے گرم سانسوں کی پھوار اُس کے چہرے پر پھیلا دی۔

اِس طرح تو نہ دباؤ۔۔۔ میری پسلیاں ٹُوٹ جائیں گی۔ مَیں نے بازُو کی گرفت ڈھیلی کر دی اور اپنے ہونٹوں کی مُہر اُس کی پیشانی پر ثبت کر دی۔ اُس نے کمر کے گرد پھیلے ہُوئے بازُوؤں کے حصار کو توڑ ااور خُود کو آزاد کر کے مجھے پرے دھکیل دِیا۔ مَیں خاموشی سے اُسے دیکھنے لگا۔ دُور سے ٹرین کی سیٹی کی آوازہوا کے دوش پر سوار تیزی سے قریب آرہی تھی۔ ہم ٹریک سے ہٹ کر ٹرین کی طرف دیکھنے لگے۔ لائن کے دونوں طرف اِنسانی ہڈیوں کے ڈھیر پڑے تھے۔
کیا اِن لوگوں نے محبت کی ناکامی پر ٹرین کے نیچے آکر خُود کُشی کی ہے۔۔۔ اُس نے خوف سے میرا ہاتھ پکڑ لِیا۔ نہیں۔۔۔ یہ ہڈیاں خُود کُشی کرنے والوں کی نہیں بلکہ اُن لوگوں کی ہیں جو اِس جنگل میں محنت کرنے آئے اور راستہ کھو جانے کی وجہ سے بھٹک گئے اور نہ جانے کِتنے برسوں تک ماضی، حال اور مستقبل کے ربط کے ساتھ وقت کی رسی پر چلتے رہے اور پھِر ایک دِن اُن کی ہڈیاں یہاں پر پڑی ملِیں۔ ٹرین تیزی سے گزر رہی تھی اور ریل کے ڈبوں سے اِنسانی ہڈیاں ٹریک کے دونوں طرف گر رہی تھِیں۔ ٹرین گزر گئی تو مَیں نے دیکھا کہ میرا ڈاکٹر ریلوے ٹریک پر کھڑا ہے۔ مَیں اُس کے قریب پہنچا، اُس نے مُڑ کر دیکھا، اُس کے چہرے پر سکون اور اطمینان کا نقاب لہرا رہا تھا۔
کیا تُم خُود کُشی کرنا چاہتے تھے ٹریک پر ابھی ابھی ٹرین گزری ہے۔ تُم بچ کیسے گئے؟ میرے ہونٹوں سے نکلا ہُوا سوال اور آنکھوں میں تیرتی حیرت دیکھ کر وہ مُسکرا یا اور بولا۔ بالکل نہیں۔۔۔ اُس کی مسکراہٹ نے مجھے عجیب کیفیت سے دوچار کر دِیا۔ مَیں حیران تھا کہ ڈاکٹر ریلوے ٹریک پر کیسے پہنچا۔
مَیں زِندگی کی ٹرین میں سوار تھا تُمہیں دیکھا تو ٹرین سے یہاں اُتر گیا ورنہ میری ہڈیوں نے بھی آگے جاکر کِسی ڈھیر پر گرنا تھا۔ اِنسانی ہڈیوں کے ڈھیر اِس جنگل میں جا بجا بکھرے پڑے ہیں۔ شاید میرے بیٹے کی ہڈیاں بھی کِسی گُمنام ڈھیر میں دب چکی ہوں۔ مَیں تو اپنے بیٹے کی تلاش میں اِس جنگل میں آیا ہُوں۔ ڈاکٹر نے اپنی کہانی سُنائی۔ہم نے اُس کا ساتھ غنیمت جانا اور اُس کے ساتھ چلنے لگے۔
کیا یہ ہڈیاں پھِر سے اِنسانی گوشت کا لباس پہن سکتی ہیں۔ پھِر سے زِندہ ہو سکتی ہیں، مَیں نے اپنا سوال ڈاکٹر کی طرف اُچھال دِیا۔ ڈاکٹر نے بڑے تحمل سے جواب دِیا کہ دُنیا میں ہر وہ بات ممکن ہوتی ہے جو کِسی اِنسانی ذہن میں جنم لیتی ہے۔ کہِیں نہ کہِیں اُس کا وجود حقیقت میں موجود ہوتا ہے اور بعض اوقات انہونی اپنی شکل بدل کر ہونی کا رُوپ دھار لیتی ہے۔ ممکن ہے کہ وہ جو سوچتا ہے وہ خواب میں سچ ثابت ہُوا ہو مگر وہ بات کِسی کو دِکھا نہیں سکتا۔ میرا سارا علم اور ساری تحقیق ابھی تک اپنے خوابوں کی دُنیا کے وجود کو چھُو نہیں سکی اور نہ خواب میں ہونے والی باتیں دوسروں کو دِکھا سکا ہُوں کیونکہ خواب میں ہونے والے کِسی بھی واقعے کا میرے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں ہوتا مگر دُنیا میں کوئی بھی سوچ یا خیال ناممکن نہیں ہوتا۔باتیں کرتے کرتے ہم ایک چوراہے پر پہنچ گئے اور سوچنے لگے کہ اب کسِ طرف جانا چاہئے۔ راستوں کا جائزہ لِیا تو ایک راستے کی طرف سے ایک آواز آتی سُنائی دی۔ ہم دونوں کو وہ آواز جانی پہچانی سی محسوس ہُوئی۔ ہمارے قدم آواز کی سمت بڑھنے لگے۔پھِر مَیں نے اُس کا ہاتھ تھام لِیا اور آواز کی شناخت کے لئے ٹھہرگئے۔ لمحہ بھر میں وہ آواز پہچان کی چھلنی سے گزر کر شناخت کے دائرے میں داخل ہو نا شروع ہو گئی۔
ابُو۔۔۔ابُو۔۔۔ٹھہرو۔۔۔ مَیں آرہا ہُوں مجھے بھی ساتھ لیتے جاؤ۔ اب مجھے اکیلا چھوڑ کر دُور مت جاؤ۔ اَمی۔۔۔اَمی۔۔۔ٹھہرو۔۔۔ مَیں آرہا ہُوں۔ اور پھِر اُس نے اپنے بیٹے کی آواز پہچان لی۔ یہ اُس بیٹے کی آواز تھی جِس نے ماں کے پیٹ میں ہی سے کہہ دِیا تھا کہ زمین رہنے کے لئے محفوظ جگہ نہیں ہے مَیں وہاں نہیں جاؤں گا بلکہ بادلوں کے ساتھ ہی اپنی ماں کو بھی لے کر اُن فضاؤں میں گُم ہو گیا تھا۔ تب سے اُن کی جُدائی کے دُکھ کی دیمک نے میری زِندگی کے پیڑ کی جڑوں کو کھوکھلا کرنا شروع کر دِیا۔ ڈاکٹر نے کہا ہمیں چلنا چاہئے۔ دِن ڈھل چکا ہے رات ہونے سے پہلے ہمیں کِسی محفوظ پناہ گاہ تک پہنچ جانا چاہئے مگر زمین کی مٹی نے ہم دونوں کے پیروں کو مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔ تب آوازکی سمت میں کان لگا کر اُس نے نامعلوم راستے پر اپنی نظروں کی چادر بچھا دی اور زیرِ لب بولی میرا بچہ مجھے بُلا رہا ہے۔ مَیں اُس کے پاس جاؤں گی۔ وہ اکیلا ہے اور
اُسے میری ضرورت ہے۔ اور پھر اپنا پہلا قدم آواز کی تنی ہُوئی رسی پر رکھ دِیا۔ مَیں نے اُسے روکنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ ڈاکٹر خوف زدہ ہو گیا۔
مَیں نے اُسے سمجھایا کہ ٹھہرو۔۔۔ دِن ڈھل چکا ہے۔ سورج غروب ہونے کو ہے۔ اُس نے ہمیں دیکھ لِیا ہے۔ ہم یہاں ہی اُس کا اِنتظار کرتے ہیں۔ نہیں میرے پیارے۔۔۔ اُس نے اپنی بانہوں کا ہار میرے گلے میں ڈال دِیا اور آنکھیں بند کر کے میرا ماتھا چُوما۔ اور پھر اُلٹے قدم چلنے لگی۔ چلتی گئی۔۔۔ اور کہتی جاتی تھی صبر کرو میرے پیارے۔۔۔مجھے بُلایا گیا ہے مجھے جانا ہی ہوگا۔ میرا بچہ مجھے بُلا رہا ہے اور پھر وہ ہموار راستے پر چلتی چلتی جنگل میں گُم ہوگئی۔
ڈاکٹر حیران پریشان اُسے جاتا ہُوا دیکھتا رہا۔ پھِر کہنے لگا تُم نے اچھا کِیا جو یہاں پر ہی رُک گئے۔ اب تُم اپنا فیصلہ کرنے میں آزاد ہو۔۔۔ تُمہارے دِل کے اندر نئے خواب کا جنم اب دُور کی بات نہیں۔تُم حقیقت کی دُنیا میں لَِوٹ آؤ گے۔
سورج غروب ہو رہا تھا اور شام گہری ہوتی جارہی تھی اور پھر مغرب سے اُبھرنے والی چاندنی رات نے گہرے سکوت کا دروازہ کھول دِیا۔ مَیں قریب ہی گرے ہُوئے بوڑھے پیڑ کے تنے پر بیٹھ گیا۔ رات نے اپنے بھید کھولنے شروع کئے تو میری آنکھیں خُود بخُود بند ہونا شروع ہو گءِیں کیونکہ زِندگی کا سکون تو نیند کی وادیوں میں ہی آشکارہ ہوتا ہے۔ چاندکی کِرنوں کے نرم و نازک ہاتھوں نے بڑے پیار سے میرے دِل کا دروازہ کھول دِیا تو مجھے محسوس ہُوا کہ جیسے مَیں زِندگی کے ناہموار راستوں پر چلتا ہُوا دِن کے شور اور ہنگاموں میں تلاش کر رہا ہُوں جہاں ہر روز مشرقی اُفق سے اُبھرنے والا سورج ہواؤں کے رتھ پر سوار اپنی قیامت خیز دھوپ میں میرے جِسم کے صحرا کو جھُلساتا رہا رہا ہے۔ وہ وہاں سے ایک ہی جُست میں سایوں کے جنگل سے نکل کر میرے دِل کی پُر سکون آغوش میں سما چکا ہے۔ اب جب کہ را ت نے اپنے اسرار کا پردہ چاک کِیا ہے تو مجھے یقین نہیں آرہا ہے کہ مَیں جِس کی تلاش میں آج تک سرگرداں تھا وہ میرے لئے تسلی اور اطمینان اور سکون بن کر میرے دِل کے اندر سما چکا ہے۔ تب ایک پُر اسرار سی سرگوشی کی سرسراہٹ میری سماعت سے چِپک گئی کہ ”جِسے تُو باہر دُنیا کے ہنگاموں میں تلاش کر رہا تھا وہ تو ازل سے تیرے جنم کے ساتھ ہی تیرے دِل کی گہرائیوں میں بو دِیا گیا تھا۔ تُو اپنے اندر یقین سے جھانک کر تو دیکھ۔۔۔ اپنے رب سے رجوع کر کے تو دیکھ۔۔۔وہ سب کچھ تجھے مِل جائے گا۔ پُر اسرار سرگوشی کی سرسراہٹ ہوا میں تیرتی ہُوئی دُور جا چکی تھی۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ میرے وجود میں بستا ہو اور مجھے خبر ہی نہ ہو۔۔۔میری سوچ ایک دائرے میں تیزی سے گھوم رہی تھی۔
ہاں۔۔۔ایسے ہوتا ہے۔ ڈاکٹر نے مضبوط لہجے میں اپنی گونجدار آواز میں کہا۔ دِن کے اپنے بھید ہیں اور رات کے اپنے اسرار۔۔۔اور زِندگی کی دونوں اِنتہائیں تُمہاری سوچ اور خیال کی حدوں سے بہت پرے کائنات کی بیکراں وسعتوں میں گُم ہیں۔ تُم لا محدود کائنات کے سمندر کو اپنے محدود ذہن کے کنوئیں میں کیونکر بند کر سکتے ہو! یہی تُمہاری بھُول ہے غلطی ہے۔ رات اور دِن جب دلوں کے دروازوں کو کھولتے ہیں تو رب خُود دِل کے اندر آجاتا ہے اور اگر آپ توبہ اور ندامت اور معافی کے پیالے کو اپنے آنسوؤں سے نہیں بھرو گے تو وقت کے بے رحم گزرتے لمحے بھاری پتھر کی مانند تُمہاری زندگی کی نیند اور سکون کو زخم زخم کر دیں گے۔
یہ کہہ کر ڈاکٹرنے بڑے اطمینان سے ایک موٹی سی نفسیات کی کتاب مجھے دی۔ مَیں نے چاند کی روشنی میں کتاب کو اندر باہر سے دیکھا اور پھر اپنی کنپٹیوں کو سہلانے لگا۔ میری آنکھوں میں ایک نیا منظر جاگ اُٹھا۔ دُور کہِیں بہت دُور۔۔۔ کِسی سُوکھے میدان میں ایک پیاسا مسافر اپنی بے بسی پر بے اِختیار رو پڑا۔۔۔پیاس کی تڑپ نے بانجھ بادل کا سینہ چِیر دِیا تو موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔۔۔مسافر نے اپنے دونوں ہاتھوں کے پیالے میں پانی بھرا اور مُنہ کو لگا لِیا۔ سُوکھے میدان کی پیاس بجھ چکی تھی۔ مَیں نے اپنا فیصلہ کر لِیا۔ وہ نئے رُوپ میں ایک ہی جُست میں خوابوں کی دُنیا سے نکل کر دِ ن کے اُجالے میں میری جیتی جاگتی زِندگی کا حصہ بن کر گرے ہُوئے پیڑ کے تنے پر میرے ساتھ بیٹھ گئی۔ ڈاکٹر نے مُڑ کر ہماری طرف دیکھا اور ہوا میں ہاتھ لہرا کر نئی منزل کی طرف آگے بڑھ گیا۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading