اور زندگی بدل گئی ۔۔: یوسف سلیم قادری

ہونہہ! کیسے بڑے اور عجیب کام کرنے کا جنون تھا اس کو! کبھی کسی سے بحث کرتا تھا اور کبھی شریعت کے خلاف بول کر لوگوں کو گمراہ کرتاتھا۔ لوگوں نے بھی اسے سنگسار کر کے اسے اس کے انجام تک پہنچا دیا۔ جب لوگ اسے پتھر مار رہے تھے تو کیسے پکار رہا تھا اپنے یسوع کو! بڑا شوق تھا اسے خدا کا کلام سنانے کا! کہاں ہے اس کا خداوند یسوع؟ ستفنس۔ ستفنس مقدس۔۔ ایسے شخص کا یہی انجام ہونا چاہئے! ساؤل نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا۔ وہ شربت انڈیلتے ہوئے بولا ”ایک ایک کو تباہ و برباد کر دوں گا۔ قید خانوں میں ڈالوا دوں گا سب کو! ساری عمر اندر سڑتے مرتے رہیں گے!“ ہا۔۔۔ ہا۔۔۔ ہا۔۔۔ ساؤل نے حقارت سے قہقہ لگاتے ہوئے کہا۔ دوپہر کا وقت تھا۔ ساؤل سوچ رہا تھا کہ اب اسے دمشق جا کر ان لوگوں کو پکڑوانا چاہئے جو خود کو یسوع کا پیروکار کہتے ہیں اور یروشیلم لا کر قید خانوں میں ڈلوانا چاہئے۔ تا کہ کوئی اور ان کی باتوں اور تعلیم سے گمراہ نہ ہو سکے۔ اسی دوران ساؤل اپنے ساتھیوں کے ساتھ کارواں لے کر دمشق جانے کی تیاریاں کرنے لگا۔
سردار! ہم نے سارا بندوبست کر لیا ہے۔ کھانے پینے کا کافی سامان ساتھ رکھ لیا ہے“۔ ایک خدمت گار نے ادب سے جھکتے ہوئے کہا ”دیکھو کچھ فالتو گھوڑے اور اونٹ بھی ساتھ لے لینا۔۔۔ اور۔۔۔ اور سنو۔۔۔! جانوروں کے لیے چارا اور پانی بھی زیادہ رکھ لینا۔ ہو سکتا ہے ہمیں وہاں زیادہ دن لگ جائیں“۔ ساؤل نے چاندی کا کٹورا منہ سے ہٹا کر ایک طرف رکھتے ہوئے کہا۔ ”جو حکم ہو مالک! ویسے ہر کام اسی طرح ہوگا جیسے آپ چاہیں گے“ دوسرے خدمت گار نے کٹورا اٹھاتے ہوئے کہا ۔اچھا! اچھا! اب تم جاؤ۔۔۔! مجھے آرام کرنے دو کل سویرے دمشق کے سفر پر روانہ ہونا ہے۔ ساؤل نے دری پر اپنی ٹانگیں دراز کرتے اور چادر اپنے اوپر لیتے ہوئے کہا اگلی صبح سب تیاریاں مکمل تھیں۔ اونٹ اور گھوڑے سب سامان سے لدے ہوئے تھے۔ ”وہ سردار کا ہن کا خط جو دمشق کے عبادتخانوں کے لیے لکھوایا تھا وہ کس کے پاس ہے؟ ساؤل نے ایک گھوڑے کی گردن تھپتھپاتے ہوئے پوچھا۔ سردار! وہ تو آپ کے چمڑے والے تھیلے میں رکھ دیا تھا“ ساؤل کے خاص خدمت گار نے آگے بڑھ کر جواب دیا۔
”اچھا! ٹھیک ہے۔۔۔! تھوڑی دیر میں ہم روانہ ہوں گے“
ساؤل نے سر کھجاتے ہوئے کہا۔ کچھ دیر کے بعد قافلہ دمشق کو روانہ ہوا۔ راستے میں کئی جگہ پڑاؤ کرتے، ضروریات کی اشیاء خریدتے۔ آخر کار وہ دمشق کی سرحد کے نزدیک پہنچ گئے۔ ارے! ارے۔۔۔! بھائی دیکھو! یہ کیسی روشنی ہے؟ ساؤل کے ایک ہمراہی نے دوسرے سے حیران ہو کر پوچھا ”ارے ہاں۔۔۔! یار۔۔۔! یہ کیسا نور ہے۔۔۔؟ اور۔۔۔ اور۔۔۔ یہ صرف ہمارے سردار کے اوپر ہی کیوں چمک رہا ہے۔۔۔؟ دوسرے نے آنکھوں کے آگے ہاتھ کرتے ہوئے کہا۔ ان کی حیرانی اور باتوں کے دوران ہی ساؤل زمین پر گر پڑا۔ بھاگو۔۔۔ بھاگو۔۔۔ مالک کو کچھ ہو گیا ہے۔ تیسرے ساتھی نے ان دونوں کو پکارتے ہوئے کہا اور وہ دونوں تیزی سے دوڑتے ہوئے ساؤل کے قریب پہنچ گئے۔ لیکن اس پہلے کہ وہ ساؤل کو سہارا دے کر اٹھاتے وہ ایک انجانی سی آواز سن کر وہیں رک گئے۔ ”اے ساؤل۔۔۔ اے ساؤل۔۔۔ تو مجھے کیوں ستاتا ہے۔۔۔؟ سب تعجب سے ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ ساؤل نے آسمان کی طرف اپنی آنکھیں اٹھا کر پوچھا ”اے خدا وند! تو کون ہے۔۔؟ آواز آئی ”میں یسوع ہوں جسے تو ستاتا ہے۔۔ مگر اٹھ۔۔۔! شہر میں اور جو تجھے کرنا چاہئے وہ تجھ سے کہا جائے گا۔ جو لوگ ساؤل کے کارواں میں اس کے ہمراہ تھے۔ خاموش کھڑے رہ گئے۔ وہ حیرانی و پریشانی کے ملے جلے احساس میں مبتلا تھے کیوں کہ وہ آواز تو سنتے تھے مگر انہیں کوئی دکھائی نہ دیتا تھا۔ اور ساؤل زمین پر سے اٹھا لیکن جب اس نے آنکھیں کھولیں تو اسے کچھ دکھائی نہ دیا۔ اور اس کے ساتھی اور خدمت گار اس کا ہاتھ پکڑ کر دمشق میں لے گئے اور وہ تین دن تک نہ دیکھ سکا اور نہ اس نے کھایا نہ پیا۔ دمشق میں حننیاہ نامی ایک شاگرد تھا خداوند نے رویا میں دکھائی دے کر اس سے کہا اے حننیا۔۔۔! اس نے جواب میں کہا اے خداوند میں حاضر ہوں!
خداوند نے اس سے کہا اٹھ! اس کوچہ میں جو سیدھا کہلاتا ہے اور یہوداہ کے گھر میں ساؤل نامی ترسی کو پوچھ لے کیوں کہ دیکھ وہ دعا کر رہا ہے“ اور اس نے حننیاہ نامی کے ایک آدمی کو اندر آتے اور اپنے اوپر ہاتھ رکھتے ہوئے دیکھا ہے تا کہ بینا ہو۔۔۔ حننیاہ نے جواب میں کہا اے خداوند! میں نے بہت سے لوگوں سے اس کا ذکر سنا ہے کہ اس نے یروشلیم میں تیرے مقدسوں کے ساتھ کیسی برائیاں کیں۔ کتنے ظلم ڈھائے ہیں۔۔۔ اور۔۔۔ اور یہاں بھی وہ تیرا نام لینے والوں کو گرفتار کرنے آیا ہے“۔مگر خداوند نے اس سے کہا کہ تو جا! کیوں کہ یہ قوموں بادشاہوں اور بنی اسرائیل پر میرا نام ظاہر کرنے کا میرا چنا ہوا وسیلہ ہے اور میں اسے جتا دوں گا کہ اسے میرے نام کی خاطر کس قدر دکھ اٹھانے پڑیں گے۔
پس حننیاہ جا کر اس گھر میں داخل ہوا اور اپنے ہاتھ اس پر رکھ کر کہا اے بھائی ساؤل! خداوند یعنی یسوع جو تجھ پر اس راہ میں جس سے تو آیا ظاہر ہوا تھا۔ اسی نے مجھے بھیجا ہے کہ تو بینائی پائے اور روح القدس سے بھر جائے اور فوراً اس کی آنکھوں سے چھلکے سے گرے اور وہ بینا ہو گیا اور اٹھ کر بپتسمہ لیا پھر اس نے کھانا کھا کر طاقت پائی۔
اور وہ کئی دن ان شاگردوں کے ساتھ رہا جو دمشق میں تھے اور فوراً عبادت خانوں میں یسوع کی منادی کرنے لگا کہ وہ خدا کا بیٹا ہے اور سب سننے والے حیران ہو کر کہنے لگے کیا یہ وہ شخص نہیں ہے جو یروشلم میں اس نام کو لینے والوں کو تباہ کرتا تھا؟ اور یہاں بھی وہ اسی لیے آیا تھا کہ ان کو باندھ کر سردار کاہنوں کے پاس لے جائے لیکن ساؤل کو اور بھی قوت حاصل ہوتی گئی اور وہ اس بات کو ثابت کر کے کہ مسیح یہی ہے دمشق کے رہنے والے یہودیوں کو حیرت دلاتا رہا اور جب بہت دن گزر گئے تو یہودیوں نے اسے مار ڈالنے کا مشورہ کیا۔ مگر ان کی سازش ساؤل کو معلوم ہو گی اور رات کو اس کے شاگردوں نے اسے لے کر ٹوکرے میں بٹھا یا اور دیوار پر سے لٹکا کر اُتار دیا اور یوں ساؤل کی زندگی بدل گئی وہ نیا ہو گیا تھا۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading