حیات جُرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو : پروفیسر عامرزریں

پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے 77 بر س ہونے کو آرہے ہیں۔ ماہ ِ رواں میں ہم پاکستان کی 77ویں سالگرہ منا ئیں گے۔ اس پون صدی میں مُلکی تاریخی میں کئی ایک نشیب و فراز آئے۔ اس حوالے سے کئی ایک موضوعات پر بات ہوسکتی ہے۔ لیکن اس تحریر کا محورماہِ اگست کی 11، 14 اور 16 تاریخ ہے۔
۔14 اگست 1947ء کے حوالے سے ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوستانی آزادی ایکٹ کے مطابق…… متحدہ یا برٹش ہندوستان کی تقسیم نے ایک مسلم اکثریتی پاکستان اور ہندو اکثریت والا ہندوستان قائم کیا۔آزاد ریاستوں جیسے جموں و کشمیر کے متنوع علاقوں کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ کس ملک سے الحاق کرنا چاہتے ہیں؟ 1947 کی تقسیم کے بعد پرتشدد فرقہ وارانہ انتشار کے ماحول میں ہندوستان اور پاکستان کی سرحدوں کے آر پار آبادی کی بڑے پیمانے پر نقل و حرکت ہوئی۔ لاکھوں لوگ سرحدوں کے اس پار اور اُس پار چلے گئے۔ کہا جاتا کہ یہ ہجرت ریکارڈ شدہ عالمی تاریخ میں اب تک کی سب سے بڑی ہجرت تھی۔ یہ ہجرت انتہائی عجلت میں اور تھوڑی سی آگاہی کے ساتھ ہوئیں۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ 14 ملین اور 18 ملین کے درمیان لوگ
منتقل ہوئے۔لُٹے پٹے، گھائیل اور اپنے خاندان کے کئی افراد کو کھو کر یہ لوگ اپنے اپنے نئے وطن میں آباد کاری کی اُمیددل میں لئے جیسے تیسے پہنچے۔
بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا 11 اگست 1947 ء کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس سے صدارتی خطاب، جنوبی ایشیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ نتیجہ خیز اعلانات میں سے ایک تھا۔انہوں نے ایک جامع اور غیر جانبدار حکومت، مذہبی آزادی، قانون کی حکمرانی اور سب کے لیے برابری کی بات کی۔ قائداعظم محمد علی جناح آئین ساز اسمبلی میں انہوں نے کہا کہ اسمبلی کے دو کام ہیں: ایک عارضی آئین لکھنا اور اس دوران ملک پر حکومت کرنا۔قائد کی اس تاریخی تقریر سے اقتباس ملاحظہ ہو جو کہ بعد ازاں ”یوم اقلیت (11 اگست)“ کی اساس بنا:”آپ آزاد ہیں، ہندو اپنے مندروں میں، سکھ اپنے گردواروں میں، مسیحی اپنے گرجا گھروں میں اور مسلمان اپنی مساجد میں، آزادی سے عبادت کرسکتے ہیں۔“ لیکن آج پاکستان کی 77 ویں سا لگرہ کے موقع پر افسوس اور دُکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ دن بس ایک سرکاری آرڈر کی حد تک رہا۔ پاکستان میں اقلیتیں مذہب کے نام پر استحصال اور تعصب کا شکار ہوتی رہیں۔یہ الگ بات کہ حکومتی اور مذہبی راہنما پوائنٹ اسکورنگ کے لئے عالمی پلیٹ فارم پر اقلیتوں کے تحفظ اور حقوق کی مکمل پاسداری و فراہمی کا ڈھول پیٹتے رہے۔ لیکن …… یہ اکیسویں صدی، انفارمیشن ٹیکنالوجی کی صدی ہے…… اور یہ ا نفارمیشن ٹیکنالوجی جہاں ایک ہتھیار ہے …… وہیں معلومات اور تیز ترین آگاہی کا ذریعہ ہے۔ اس بات میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں کہ مختلف حکومتی ادوار میں صاحبِ اقتدار اپنے مُلک میں بسنے والی اقلیتوں کو تحفظ دینے میں ناکام نظر آئے۔
۔16 اگست 2023ء وہ دن ہے جب پنجاب کے شہر جڑانوالہ میں مسیحی آبادی اور ملحقہ مسیحی عبادت گاہوں پر مشتعل ہجوم نے حملہ کردیا۔ اس شر پسندی اور حملہ کا جواز یہ بنایا گیا کہ چند مسیحی افراد توہین مذہب کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس حملہ سے قبل ایسا ماحول بنایا گیا کہ قرب وجوار کے عوام کو مذہبی اشتعال دلایا گیا۔ اس طرح ایک جنونی اور خطرناک آتش گیر مواد اور اسلحہ سے لیس گروہ مسیحی آبادی پر حملہ آور ہوا۔ جڑانوالہ، پنجاب، پاکستان میں 26 مسیحی گرجا گھروں کو آتشزدگی کی کارروائیوں سے جلا دیا گیا، اور مسیحی خاندانوں سے تعلق رکھنے والے گھروں میں مشتعل ہجوم نے لوٹ مار کی اور گھر تباہ کر دیے،مسیحی عبادت گاہوں کی اور مقدس کتب اور صحائف کی بے حرمتی کی گئی۔مسیحی بہنوں، بھائیوں، بزرگوں اور بچوں نے مسیحیت کے نام پر مذہبی عدم برداشت، تعصب، تشدد اور استحصال کی صعوبتیں برداشت کیں۔
پاکستان میں اس طرح کا یہ واقعہ کوئی نیا نہیں۔ بلکہ اسی سال چند ماہ پہلے گوجرانوالہ میں بھی اسی نوعیت کا واقعہ پیش آیا۔ پاکستانی تاریخ ایسے کئی ایک واقعات سے داغ داغ ہے۔ اگر ہم مُلک پاکستان میں مذہبی عدم برداشت اور مسیحیوں کے خلاف رونما ہونے والے ایسے واقعات کا جائزہ لیں تو ذاتی اور اجتماعی نوعیت کے کئی واقعات ریکارڈ پر ہیں۔
پاکستانی حکومت کو مسیحیوں کے خلاف ایسے تکفیر کے تنازعات اور واقعات میں ماورائے عدالت ظلم و ستم سے بچانے میں ناکامی کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور اس پر مسیحیوں کے ظلم و ستم پر آنکھیں بند کرنے اور اس کی حمایت کرنے کا الزام بھی لگایا گیا ہے، جس میں مسیحیوں پر ظلم کرنے والوں کے خلاف مقدمہ چلانے میں ناکامی بھی شامل ہے۔قانون کی پاسداری اور اس کے پائیدار نفاذ کی باتیں تو بہت سے پلیٹ فارم سے ہوتی رہی ہیں، لیکن امن و امان بحال کرنے والے حکومتی ادارے وسائل ہوتے ہوئے بھی بہت سے مواقع پر بے بس نظر آتے ہیں۔ مذہبی تکفیر کی آڑھ میں ایسے ناخوشگوار واقعہ کے بعد غفلت برتنے والے سرکاری افسران اور اشتعال دلا کر اور مذہبی منافرت پھیلا کر اپنے مقا صد حاصل کرنے والے اکژیتی طبقے کے ذمہ دار افراد کی سرکوبی اور کیفرِ کردار تک پہنچانے کے کاغذی دعووں کے بعد یہ فائلیں دب جاتی ہیں اور ملزمان ضمانتوں پر رہا ہوجاتے ہیں۔
اس یوم ِ آزادی پرمسیحی قوم کی کئی ایک سماجی،ادبی اور سیاسی تنظیمیں اپنے بھرپور انداز میں یہ دن (11 اور 14 اگست) منائیں گی۔ شرکاء وطن سے اپنی محبت کا والہانہ اظہارکریں گے…… اور کرنا بھی چاہیے۔قومی ترانے اور نغمے گائیں اور بجائیں گے۔ یہاں تک کہ عبادت گاہوں میں قومی تقریبات پر مذبح کی حرمت کا لحاظ اور احترام قربان کرکے ٹیبلو پیش کئے جائیں گے اور ان ٹیبلو میں بچے اور بچیاں رقص کریں گے۔ماضی کے مسیحی جنگی معرکوں کے شہداء اور غازیوں کو یاد کیا جائے گا …… انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا جائے گا۔ ملکِ خُداداد کی ترقی میں اپنا حصہ ملانے والے ماضی کے تاریخی مسیحی تعلیمی اور تربیتی اداروں کو یاد کیا جائے گا، …… جنہیں 70 کی دہائی میں حکومت نے اپنی تحویل میں لے کر اداروں کی مُلکی اور عوامی ترقی کے تسلسل کو توڑ دیا تھا۔
لیکن!…… کیا ہم اپنے وطن، اپنے گھر میں قائد اعظم کے 11 ا گست کے اعلان کے مطابق اپنے مذہبی تشخص کے ساتھ آزاد ہیں؟…… کیا ہم ایک ایٹمی قوت کے حامل ملک میں محفوظ ہیں …… جس ایٹمی قوت کے حصول میں گمنام مسیحی ہیروز نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنے اہداف حاصل کئے۔ کیا ہماری عبادت گاہیں، آبادیاں ، ادارے اور کاروبار محفوظ ہیں؟ کاش!……ہمارے آباؤ اجداد اور پھر ہمیں پہچان دینے والے ملک ِ خداداد میں ان سوالات کے جوابات ہم بابانگِ دُہل اثبات میں دے سکتے۔
اس وقت پاکستانی معاشرہ…… معاشرتی، معاشی، سماجی اور مذہبی عد م برداشت اور استحصال کا شکار ہے۔ انہی حالات کے پیش ِ نظر مذہبی تکفیر اور متعلقہ قوانین جو اکہ ایک حساس نوعیت کا معاملہ ہے، اسے مذہبی اکثریتی طبقہ کے افراد جب چاہیں اپنے ذاتی یا گروہی عناد یا دشمنی کی آڑھ میں اپنے ہم وطن غیر مسلم پر ڈال کر اپنا مفاد باآسانی حا صل کرلیتے ہیں۔ ماضی کے کئی ایک واقعات اس بات کا بعین ثبوت ہیں۔ انہی حالات کے پیش نظر ملکِ پاکستان میں غیر مسلم طبقات، بالخصوص مسیحی و ہندو طبقہ اپنی ہی جنم بھوم سے ہجرت اور نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ ………… صرف اور صرف اس اُمید پر کہ شاید! …… اس دُنیا میں کہیں کوئی ایسی جگہ میسر آجائے جہاں احترام ِ انسانیت ہو، تحفظ اور طبقاتی برداشت ہو…………”جہاں حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو“۔

نوٹ: “تادیب” کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ “تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading