۔2018 عورت مارچ ہر سال 8 مارچ کو عالمی یومِ خواتین کے موقع پر منعقد کیا جاتا ہے۔ اس سال عورت مارچ لاہور 8 مارچ کی بجائے 12 فروری کو پاکستان کے قومی یومِ خواتین پر ہے۔ عورت مارچ 2025 کا موضوع فیمنسٹ ہسٹری ہے۔ جس کا مقصد پاکستان میں ماضی اور حال کی فیمنسٹ شخصیات اور تحریکوں کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہے۔ ان کا تعلق آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن (APWA) سے ہو، سندھیانی تحریک سے، لیبر موومنٹ سے، جنسی ہراسانی کے خلاف اتحاد (AASHA) سے، وکلاء تنظیموں سے یا خواتین محاذ عمل (WAF) اور دیگر سے ہو جو جنرل ضیاء الحق کی آمرانہ اور جابرانہ حکومت کے خلاف کھڑی ہوئیں۔
۔12 فروری پاکستان میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ 1983 میں اسی دن کئی خواتین نے مارشل لاء کے باوجود، جب تمام سیاسی سرگرمیوں، جلوسوں اور عوامی احتجاج پر پابندی تھی، لاہور کے مال روڈ پر ایک عوامی مظاہرہ کر کے جنرل ضیاء الحق کی فوجی آمریت کے خلاف مزاحمت کی۔ احتجاج کرنے والی خواتین کا تعلق مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تھا، وہ استاد تھیں، مزدور، وکلاء، سماجی کارکن اور دیگر۔ پاکستان ویمن لائرز ایسوسی ایشن اور ویمن ایکشن فورم کی خواتین نے اس مظاہرے کا اہتمام کیا جس کی بنیادی وجہ قانونِ شہادت کا وہ مسودہ تھا جو عورتوں کی گواہی کو مردوں کے مقابلے میں آدھا کر دیتا۔
ویمن ایکشن فورم کی رکن اور قومی کمیشن برائے وقارِ نسواں (NCSW) کی سابقہ سربراہ، محترمہ خاور ممتاز بتاتی ہیں، ”دفعہ 144 نافذ تھی اس لئے ہم نے دد دو تین تین کے گروپوں میں ہائی کورٹ پہنچنے اور وہاں احتجاج کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ہمیں لاہور ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس، جاوید اقبال، کو مسودے کے خلاف درخواست بھی جمع کروانا تھی۔ میری 10 سال کی بیٹی میرے ساتھ تھی۔ جب ہم ہال روڈ پر AGHS Legal Aid Centre کے اس وقت کے دفتر کے سامنے پہنچے تو دیکھا وہاں پولیس کی بھاری نفری کھڑی تھی جنھوں نے سڑک کو گھیرے میں لے رکھا تھا تاکہ ہم آگے نہ جا سکیں۔
انقلابی شاعر حبیب جالب نے بڑے جوش سے اپنا کلام سنانا شروع کر دیا۔
ایسے دستور کو، صبحِ بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
اچانک ڈیمو کریٹک ویمنز ایسوسی ایشن کی رکن مبارکہ رکاوٹوں میں سے آگے نکل گئی اور وہ ہمیں اپنی پیروی کرنے کا اشارہ کر رہی تھی۔ اس کے ساتھ ہی آنسو گیس کے بادل چھا گئے اور پولیس نے خواتین مظاہرین پر بے دریغ لاٹھی چارج شروع کر دیا۔ بہت سی خواتین کو کھینچ کر پولیس کی گاڑیوں میں بھرا اور انھیں تھانے لے جا کر بند کر دیا۔ ہم نے وہاں بھی اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ ہم نے تھانے میں انقلابی گیت گائے ٗ، پریس کے لئے بیان تیار کیا اور اسے باہر پریس تک پہنچانے کا انتظام کیا۔ میں اس وقت پنجاب یونیورسٹی میں پڑھا رہی تھی۔ مدیحہ گوہر کنیرڈ کالج میں پڑھا رہی تھیں۔ اس جدوجہد کی وجہ سے ہم دونوں کو اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے۔
اسی کی دہائی میں ریاست نے طاقت کے حصول اور اسے برقرار رکھنے کے لئے مذہبی قوتوں کا بھرپور استعمال کیا۔ سیاسی جماعتوں کو خاموش کر دیا، ذرائع ابلاغ اور درس و تدریس کو سنسر شپ سے جکڑ لیا، طلباء یونینز اور ٹریڈ یونینز پر پابندی لگا دی۔ بحالی جمہوریت کی تحریک ( MRD) سندھ میں فوجی حکومت کی مخالفت میں تھوڑی بہت سر گرم تھی لیکن پنجاب میں مکمل خاموشی تھی۔ تاہم، یہ مظاہرہ خواتین کی ہر قسم کے جبر کے خلاف مزاحمت اور مساوی اور منصفانہ جمہوری نظام پر یقین رکھنے کی ایک علامت بن گیا۔
نیلم حسین ویمن ایکشن فورم کی ایک اور رکن اور سیمروغ ویمن ریسورس اینڈ پبلیکیشن سنٹر کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر بتاتی ہیں ”1982 میں اللہ بخش کو سنگسار کر کے سزائے ٗ موت اور نابالغ فہمیدہ کو سرِعام کوڑے مارنے کی سزا سنائی گئی تو خواتین کے گروپوں نے اس نا انصافی کے خلاف بھر پور احتجاج کیا۔ جس کے نتیجے میں مقدمے کی دوبارہ سماعت کے بعد جوڑے کو بری کر دیا گیا۔ ویمن ایکشن فورم کی تشکیل انھیں میں سے کچھ پُرعزم خواتین نے کی۔ جو کہ ہر طرح کی نا انصافی کے خلاف خصوصاً خواتین اور اقلیتوں کے حق میں ایک جاندار آواز تھی اور ہے۔ ویمن ایکشن فورم نے 1990 میں عراق کویت جنگ کے خلاف زبردست احتجاج کیا اور امن کے لئے پر زور آواز بلند کی۔ قومی شناختی کارڈ میں مذہب کے خانے کو شامل کرنے اور جداگانہ طریقہ انتخاب کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی۔ ویمن ایکشن فورم کے اراکین نے 1986 میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی برائے ٗ عوامی حقوق کی بنیاد رکھی جو انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں کا ایک اتحاد ہے اور انسانی حقوق کا ایک موثر فورم ہے۔
ویمن ایکشن فورم لاہور کے بعد ویمن ایکشن فورم کراچی، پھر ویمن ایکشن فورم پشاور اور دیگر بنے۔ ویمن ایکشن فورم میں کوئی درجہ بندی نہیں، سب کچھ جمہوری بنیادوں پر ہوتا ہے۔ بانیوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ اس کے لئے کوئی فنڈنگ نہیں لیں گی۔ سب کام رضاکارانہ بنیادوں پر ہو گا جیسا کہ ہو رہا ہے۔ ہم سیاسی ایشوز پر زیادہ آواز اٹھاتے تھے۔ تاہم عورت مارچ کی نوجوان فیمنسٹ ذاتی کو سیاسی سے جوڑنے کی کوشش کر رہی ہیں اور میں ان کی جراٗت مندانہ کاوشوں کو بہت سراہتی ہوں۔ ”
عورت مارچ تحریک 2018 میں پدرانہ نظام کے خاتمے کے نعرے کے ساتھ شروع ہوئی۔ یہ نوجوان فیمنسٹس کی تحریک ہے جبکہ سینئر فیمنسٹس ان کی حامی ہیں۔ نوجوان فیمنسٹس ہر سال آٹھ مارچ کو عورت مارچ کا انعقاد کرتی ہیں جبکہ پورا سال وہ مختلف ایشوز پر پریس بیانات، چھوٹے مظاہرے اور فنکارانہ سرگرمیاں جاری رکھتی ہیں۔
مارچرز کے پدرانہ نظام کو چیلنج کرنے اور بنیادی حقوق کے لئے جراٗتمندانہ جد و جہد کی وجہ سے انھیں خطرناک ردِعمل کا سامنا ہے۔ داہنے بازو کے گروہوں، بنیاد پرستی کی موجودگی اور سیکولرازم کی عدم موجودگی کی وجہ سے، خواتین کو سائبر ہراسانی، عوامی مقامات پر جنسی طور پر ہراساں کیے جانے اور بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عورت مارچ اس معاشرے اور ریاست سے مطالبہ کرتا ہے کہ ان تمام چیلنجز کو حل کیا جائے، خواتین کو اس ملک کا مساوی شہری گردانا جائے، ان کے لئے حامی قوانین اور پالیسیاں بنائی جائیں اور خواتین اور لڑکیوں کے لئے Civic Spaces کو یقینی بنایا جائے۔ عورت مارچرز کہتی ہیں، ”ہم جینے کے لئے مزاحمت کرتی ہیں، ہم تبدیلی کے لئے مارچ کرتی ہیں“ ۔
محترمہ ہادیہ، رضاکار عورت مارچ لاہور، نے عورت مارچ 2025 کے مقاصد کو تین نکات میں بیان کیا۔ ”اول یہ کہ ہماری جدوجہد بہت سی پیشوا فیمنسٹس کی پیروی میں ہے جن سب کو ہم خراجِ تحسین پیش کرتی ہیں۔ عورت مارچ ان بہادر خواتین اور خواجہ سراؤں کو سراہتا ہے جنہوں نے اس سے پہلے خواتین کے حقوق کے لئے آواز بلند کی۔ دوسرا یہ کہ عورت مارچ عورتوں، ٹرانس جینڈر لوگوں اور ان کی مزاحمتی تحاریک کو جو تاریخ اور اجتماعی یاداشت سے مٹانے کی کوششیں کی جاتی ہیں ان کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔ تیسری بات اور افسوسناک بات یہ ہے کہ آج ہم جن ایشوز پر آواز اٹھا رہی ہیں جیسے ہراساں کیے جانا، گھر اور باہر تشدد سے تحفظ، جسمانی وقار، باعزت محنت، آزادی مذہب، آزادی اظہار، سنسر شپ کے خلاف مزاحمت، جمہوری اقدار کا احترام اور ان پر عمل، یہ نئے نہیں ہیں۔ مزاحمتی تحریکوں کی نسلیں انھی مطالبات کے لئے جد و جہد کرتی رہی ہیں۔ ہم اب بھی انھیں مسائل کے حل کے لئے لڑ رہی ہیں۔ ہم معاشرے اور ریاست کو یہ یاد دلانا چاہتی ہیں کہ ہمیں ترقی کی طرف بڑھنا چاہیے۔“
عورت مارچ کی ایک اور رضاکار نادیہ نے ”ہم سب“ سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ایک دوسرے کی جدوجہد کو سراہنا ضروری ہے کیونکہ ہمیں امید کو زندہ رکھنے کے طریقے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح جو آج مزاحمت کر رہی ہیں وہ پہلے کی مزاحمت کا حسن دیکھتی ہیں۔ حقوقِ نسواں کی تاریخ نہ صرف ہمیں ٹکراؤ اور غصہ سکھاتی ہے بلکہ تحریکوں میں خوشی اور امید لانے کا طریقہ بھی بتاتی ہے۔ بہت سی مقامی نسوانی تحریکیں ہیں جن کے بارے میں ہم میں سے اکثر نہیں جانتیں۔ اس لئے اس سال نسائی تاریخ کے تھیم کے ساتھ ہمارا مقصد ان کی جدوجہد اور تجربات کو اجاگر کرنا ہے جنہوں نے ہمارے لئے کوششیں کیں۔ ہم امید کرتی ہیں کہ عورت مارچ حقوقِ نسواں کی تحریکوں کو دستاویزی شکل دینے اور محفوظ کرنے کی طرف ایک چھوٹا سا قدم بن جائے گا۔“
2025 تک نسائی تحریک کی وجہ سے کافی کچھ حاصل کیا جا چکا ہے لیکن بہت کچھ باقی ہے۔ آج بلوچ خواتین آزادی کی تحریک کی قیادت کر رہی ہیں۔ وا اک تحریک کی خواتین پختون تحریک میں اپنے لئے جگہ بنا رہی ہیں اور پختون خواتین میں ان کے سیاسی، سماجی، معاشی اور قانونی حقوق کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ نظرانداز کی گئی نسائی تاریخ اور موجودہ فیمنسٹس کے عزم اور مزاحمت پر روشنی ڈالنے کی ازحد ضرورت ہے۔ عورت مارچ 2025 ماضی کی تحاریکِ نسواں کو یاد کرنے اور موجودہ نسائی جدوجہد کو منانے کے لئے ہے۔ مساوی حقوق اور جمہوریت پر یقین رکھنے والوں کو فیمنسٹ موومنٹس، خصوصاً 12 فروری 1983 کے لاہور کے مال روڈ کے تاریخی احتجاج کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے جب خواتین ضیاء کے کالے قوانین کے خلاف بہادری سے ظالم حکومت کے خلاف کھڑی تھیں، اِس سال کے عورت مارچ میں شامل ہونا چاہیے۔
*******