کیسے کیسے خیال آتے ہیں؟ : پروفیسر وکٹوریہ پیٹرک امرت

 مَیں نے عالم ِ خواب میں دیکھا کہ شاعر مشرق علامہ اقبالؒ بادشاہی مسجد کی سیٹرھیوں پر سرجھکائے کسی گہری سوچ میں غرق بیٹھے ہیں۔ مَیں مؤدبانہ عرض کی،”یا حضرت! کس سوچ میں گم ہیں؟قوم پر کڑی آزمائش کا وقت ہے اکابرین اور مدبرین ایک گھتی سلجھانے کے لئے بلند و بانگ دعوے کر رہے ہیں۔ جمہوریت وہ نہیں …… جمہوریت یہ ہے…… جمہوریت وہاں نہیں، جمہوریت یہاں ہے۔

آپ کو قوم مفکر عالم مانتی ہے آپ ہی بتا دیجئے آخر جمہوریت اصل میں ہے کیا؟“

علامہ اقبال ؒ نے بڑے عالمانہ انداز میں آنکھیں بند کرلیں اور یوں گویا ہوئے، 

     ؎

اِس راز کو اِک مردِ فرنگی نے کیا فاش

ہر چند کہ دانا اُسے کھولا نہیں کرتے

جمہوریت اِک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں 

بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

مَیں نے پوچھا، لیکن شومئی قسمت! ہمارے اِس دورِ حکومت میں یہ جو بندوں کو گننے کا چلن رواج پکڑتا جارہا ہے اور دو دھرنوں کے قائدین وطن ِ عزیز کے سر سے جمہوریت کا لہراتا آنچل نوچ کر نئی جمہوریت کا زرق برق دو شالہ اوڑھانے میں کوشاں ہیں اور دعویٰ یہ ہے کہ اس کے معجزاتی اثر سے پاکستان کے پژمردہ چہرے 

پر زندگی کے رنگ بکھرجائیں گے اور پھر ایک نیا پاکستان، نئے وسائل، خصائل سے آراستہ ہو کر جلوہ گر ہوگا۔ حضور آپ ہی فرمایئے کہ آپ کے خواب کی روشنی میں کیا نئی جمہوریت اور نئے پاکستان کا کوئی امکان نظر آ رہا ہے؟

علامہ اقبال ؒ چونک کر بولے ”کہاں میرا خواب! کہا ں یہ نیا پاکستان؟ ماضی میں ایسی ہی ایک صورت حال تھی جب میں نے کہا تھا؛

؎

 توقع بہتری کی رکھ نہ لبرل سے نہ ٹوری سے

کبھی آٹا نکل سکتا نہیں چونے کی بوری سے

مَیں سر تا پا کانپ اُٹھی، الفاظ پھسل پھسل جارہے تھے،”تو پھر ……تو پھر“ حضرت اُٹھ کھڑے ہوئے اور جاتے جاتے آہ بھر کے بولے تو پھر

ع 

آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading