تحفہ اور گھر: جاویدیاد

تحفہ: زیادہ تر گھروں میں ایسا ہے کہ صبح ہوتے ہی اخبار ہمارے سامنے ہوتا ہے گو اب ٹی وی، ریڈیو، کیبل اور دوسرے ذرائع ابلاغ ہمارے سامنے دنیا بھر کی خبریں اخبار آنے سے پہلے ہی لے آتے ہیں، لیکن اخبار کی اہمیت اب بھی ویسی ہے جو پہلے روز سے تھی،جو ں ہی ا خبار ہما رے سا منے آ تا ہے د نیا بھر کی معلو مات ہمارے سامنے آنے لگتی ہے دنیا میں کیا ہو رہا ہے معاشرہ کن راہوں پراُستوار ہے بچے کیا سیکھ ر ہے ہیں، نوجوانوں کی سوچ اب کیا ہے،دہشت گر دی،بم دھما کے، قتل و غارت ز لزلے، طوفان،حا دثے غرض کہ کیا کچھ نہیں جو اخبارسے ہمیں نہیں ملتا۔۔۔ اور یہ سب کچھ پڑھ کر صبح سے ہی ہمارا ذہن بکھر نااور سمٹناشروع ہو جا تا ہے،چند دن پہلے ایک خبر میری نظر سے گزری اور ویسی خبر ا س کا لم کوتخلیق کرنے کی بنیا د بنی، ایک بدقسمت شوہر نے جو کا م کے سلسلے میں گھر سے با ہر گیا تھا ا چا نک گھر واپس آیا تو ا پنی بیوی کو آشنا کے ساتھ قابل اعتر ا ض حالت میں دیکھ کرمشتعل ہو گیااور اُس نے اپنی بیو ی اور اُس کے آشنا کو قتل کر کے خو د بھی خودکشی کرلی۔
میاں بیو ی کا رشتہ بہت سی با تو ں کو پہنا ں رکھنے، بر د ا شت کرنے،قا ئم کرنے،سمجھو تہ کر نے کا نا م ہے، اور ان ساری با تو ں کی بنیا د محبت جو سب کچھ سہنے کا نا م ہے دوسرے کی کمیو ں کو بھول جا نے کا نا م ہے، زیا د تیو ں کو فر ا مو ش کر کے وفا کر نے کا نا م ہے، بیو ی جو گھر میں ایک بنیا دی ستون ہے جو گھر کوسنبھا لتی، بچو ں کی تر بیت کر تی ہے، خاوند کا خیا ل رکھتی ہے، اور زندگی کے نشیب فر ا ز میں ا سے حو صلے د یتی ہے، وہ گھرکے ما حول کوخو شگوار اور تر و تا ز ہ ر کھتی ہے، جب ایسی خبر یں پڑ ھنے اور سننے کا اتفاق ہو تا ہے تو کلام مقدس کی یہ با ت یا د آ جا تی ہے کہ نیک بیو ی خداوند کا عظیم تحفہ ہے، ا نسان کے پا س د نیا بھر کی نعمتیں ہو ں روپے پیسے کی ریل پیل ہو، شا ن و شوکت، آ ر ام کچھ بھی ہو، گھر میں سکون نہیں تو سب کچھ بیکا رسا ہو جا تا ہے اور بے فا ئد ہ نظر آتا ہے، گھر کا سکون و چین پر سکون زندگی، مسکر ا ہٹیں اور رونقیں نیک بیو ی سے ہی منسلک ہیں ہمارے سا منے د نیا بھر سے تحائف کے ا نبا ر لگ جا ئیں لیکن نیک اور ا چھی بیوی کا تحفہ نہ ہو تو کچھ بھی نہیں۔بس یہی با ت سو چنے کی ہے۔ مگر۔۔۔ کب سو چیں گے؟

گھر:جنت کسی نے د یکھی تو نہیں لیکن گھر کو جنت کہا جا تا ہے، اس لئے کہ جب جنت کا ذ کر آتا ہے تو ہمارے ذہن میں انتہا ئی پر سکو ن ما حو ل کا تصو ر ا بھر تا ہے جس میں گھنے درختو ں کی ٹھنڈ ی چھا ؤ ں، میٹھے اور شفا ف پا نیو ں کے چشمے،خو اب آورما حو ل پید ا کرتی ہو ئی آبشا ریں، چہچہاتے ہو ئے ر نگین اور پُر کشش پر ند ے،بھو ک اور پیا س سے آزا د،ما لی مشکلات کا پو را ہو نا تما م تر ذہنی خلفشار سے آ ز ا د زند گی اور حسد،کینے اور بغض سے با لا تر ر شتو ں کا حا صل ہے۔جب ہم کسی گھر میں ر ہتے ہیں تو ہم خا و ند، بیو ی اور بچوں کی شکل میں ہو تے ہیں اور یہی ر شتے ما ں،با پ اور بہن بھا ئیو ں کی شکل میں بھی تبد یل ہو تے ہیں اور ا گر رشتوں کے درمیا ن محبت،ا عتما د، بھر و سا،بر د ا شت اور قر با نی کا جذ بہ ہو تو یہی جذ بے ایک پُر سکو ن،مضبو ط اور خو بصورت گھر کی بنیاد بنتے ہیں،وہ گھر جہاں کسی با ت کا اظہار کر تے ہو ئے خوف نہ ہو جہاں آنکھو ں اور ہونٹوں سے محبت کے سو تے پھو ٹیں ور نہ لو گ شیشو ں اور پتھر کے گھر وں میں بے چین اور مضطر ب۔ لیکن سر کنڈ ے اور کھاس پھو س کی جھونپڑ یوں میں پُر سکون نیند سو تے ہیں۔
انسا ن د نیا کے کسی حصے میں بھی چلا جا ئے سا حل سمندر پر کسی جھونپڑی میں ہو یافا ئیو سٹار ہو ٹل میں۔۔۔اُسے سکون ا نپے گھر میں ہی ملتا ہے گھر کو اُ سی لئے تو۔۔۔۔”ہوم سویٹ ہوم“ کہا جا تا ہے۔۔۔ جہاں میٹھے اور رس بھر ے رشتوں کی فر وانی ہو تی ہے۔۔۔۔ اور ا گر نہ ہو تو وہی گھر کا ٹنے کودوڑ تا ہے،کا لے بچھو اور ز ہر بھر ے سا نپ کی طر ح۔۔۔۔ حقیقت تو یہ ہے کہ گھر گا ر ے مٹی اور انیٹو ں سے نہیں بلکہ بے لو ث خو ا ہشو ں اور شکر گزا ر ی کی دعاؤ ں سے بنتے اور قائم رہتے ہیں۔کلام مقدس ہمیں بتا تا ہے:
”جب خداوند ہی گھر نہ بنا ئے توبنانے والی کی محنت عبث ہے۔۔۔“ (زبور1:127)
ہم چا ہتے ہیں کہ ہمار اگھر جنت کی تصو یر ہو جہا ں بر س لمحے بن کر گزر یں۔جہا ں مسکراہٹو ں اور قہقہو ں کی با ر ش رہے جہا ں کھلتے گلا بو ں کی مہک اور خو بصو رت پرندوں جیسی آواز یں ہیں یہا ں ما یو سی جیسی کو ئی شے گر دش نہ کر ے لیکن سا ر ی لذ تو ں کے لئے ہم خد ا و ند سے کتنی مد د ما نگتے ہیں۔۔۔بس یہی با ت سو چنے کی ہے۔مگر۔۔۔کب سو چیں گے؟

*******

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading