عید کی خوشیوں میں دوسروں کو بھی شامل کیجئے : ڈاکٹر تہمینہ وزیر گل

کرسمس ہو کہ ایسٹر، عید ہو کہ ہولی دیوالی بہت خوبصورت دن ہوتے ہے ۔۔۔بچوں ،بڑوں،بزرگوں سبھی لیے ۔۔۔کہیں چمکتے لباس،کہیں دمکتے چہرے ،کہیں بچوں کی کلکاریاں ،کہیں عورتوں کی تیاریاں ۔۔کہیں چوڑیوں کی کھنک،کہیں،مہندی کی مہک،ٹک ٹک کرتی ہیل کی آوازیں ،کہیں ساڑی کے پلو سنبھالتی پھپھیاں، کہیں،میک اپ سنبھالتی کنگن گھوماتی خالائیں ،دوپڑے لہراتی بہنیں کزنز۔۔ پرفیومز کی ملی جلی خوشبو ۔۔۔سحر کا سا سماں ۔۔عبادتوں کی طہارت، عیدی کی چہک،پکوان کی مہک ۔۔اور میل ملاپ ۔۔۔ عید کے پیغام۔۔۔رشتے داروں کا آنا جانا ۔۔ سڑکوں پہ نوجوانوں کی بائیکس کا شور بلا سیلینسر ۔۔۔ گاڑیوں میں من چلے اپنی اسی عادت سے مجبور والدین سے چھپ کے سگریٹ کے دھویں اڑاتے ہوتے ۔۔۔چھتوں سے محبوب سے ملنے کو آنا ۔۔۔اور ننھنے کارڈز کی اسمگلنگ ۔۔۔دور گائوں ،اور شہروں میں رہنے والوں کو آواز دینا ۔۔دعوت دینا۔۔۔۔ٹرین کی چھک چھک بھی یاد ہے ۔ گوٹے کناری ستارے ٹاکنا ۔۔۔درزی سے الجھنا عید کا جوڑا کب ملے گا بھائی۔۔۔۔درزی کا کہنا ۔۔بہت کام ہے۔۔بہت حسین وقت ۔۔۔۔تھا۔۔۔
محبتیں لبریز ہوتی تھیں ۔۔بہت دل خیز ہوتی تھیں ۔۔۔
اب بھی عیدیں وہی ہیں ۔۔۔مگر ۔۔لبریز محبتیں ،دل خیز چاہتیں گم گیں ہیں ۔۔کم یاب۔۔نایاب۔۔یا ۔۔ دفن ۔۔موبائل کی ایک کلک اور کارڈ بھیج دو ۔ دل چاہے نہ چاہے ،مسکراتی ہوئی آموجی لگا دو ۔کوئی بریک اپ ہونے والا ہو تو دل کا سٹیکر لگا کے بھیج دو ۔۔۔مصروفیت ہے ۔۔۔دادا ،دادی،نانا نانی کا ماتھوں پہ بوسہ ۔۔وہ لمس کہیں ہے ہی نہیں ۔۔۔والدین کا گلے لگانا ۔۔ اور احساس دلانا کہ وہ ہیں ،،عیدی زبردستی مانگنا ۔۔۔والدین سے ۔۔بھائیوں سے، بہنوں سے اپنی خواہشات کا کھلے دل سے اظہار کونا ۔۔نا پید ہے اب ۔۔۔! بس یہی سوچ کہ میں آج بھی اُٹھی اور بہت سی محبتیں لے کر ہسپتال پہنچ گئی ۔۔۔کیونکہ جانتی تھی وہاں ان معصوم مریضوں کے ساتھ محبت پیار بانٹنے والا کوئی نہیں ۔۔۔گلے لگانے والا کوئی نہیں۔۔۔آنسو پونچھنےوالا نہیں ۔۔تنہائی کے زہریلے اثرات کو کون تریاق کرتا ۔۔۔؟
(خود تنہائیوں کے شہر میں۔۔۔اداس عیدیں منائیں ہوں تو تجربہ ہو ہی جاتاہے ۔)
ہسپتال پہنچتے ہی کچھ مدھم ،کچھ خوشی سے دمکتی،کچھ امید سے بھری آوازیں سماعت کو یوں چومنے لگیں کہ میرا دل ہزاروں خوشیاں سمیٹنے لگا۔۔جب سب کو عید مبارک کہتے ہوئے اپنے آفس پہنچی تو سب مریض عورتیں آفس میں آنے لگیں ۔۔(ہر طرف آوازیں تھیں ۔۔ڈاکٹر تہمینہ آ گیں۔۔میم آ گیں ۔۔میڈم آ گیں ۔۔) لگا جیسے انتظار ہی انتظار تھا جو ختم ہوا۔۔ ان کے لیے لائی چیزیں ان کو دیں ۔۔۔میری بانہیں ان کے لیے خود بخود کھل گیں اور وہ بھی گلے لگ کر بے انتہا رونے لگیں۔۔۔سسک میں ایک ہی بات بار بار۔۔۔میم شکر ہے اپ آگیں۔۔۔میم کتنا اکیلا لگ رہا تھا۔۔۔میڈم اللہ کا شکر ہے آپ آگئیں ۔۔۔
باری باری گلے لگ کر رو رہی تھیں ۔ان کے اشک آہیں ۔۔۔غم۔۔تنہائی کس قدر کر ب لیے برس رہی تھی۔۔میم۔۔بچے یاد آرہے ہیں ۔۔میڈم پاپا، ماما کو مس کر رہی ہوں،میم اچھا ہوا آپ آ گئیں۔۔ اور اس لڑکی کا پھوٹ پھوٹ کے رونا۔۔۔میں اپنے آنسو روک نہیں پا رہی تھی مگر ضبط کیا ۔۔۔اور کرب بھری ۔۔۔ ضبط شدہ آ واز سے زبردستی مسکراتے ہوئے کہا ۔۔۔!!! “ارے تیار نہیں ہوئی ۔۔چلو شاباش جلدی سے تیار ہو جاؤ ۔۔۔‘‘
روٹھی ہووں کی صلح کروائی اور خود بھی زرا سا فرش ہو کر۔۔۔۔ان کی عیدی دے دی۔۔اکٹھے کیک کاٹا ۔۔میٹھائی بانٹی ۔۔۔لنچ کرویا ۔۔۔پھر میوزک۔۔سونگز ۔۔یہی وقت تھا۔۔۔ان کو زندگی کو جینے کو ۔۔۔اور ان کو ہستے مسکراتے دیکھ کر لگا خدا نے مجھے آسمانی خوشیاں عطا کر دیں ہوں ۔۔۔غم و دکھ بانٹ لیے جائیں تو خوشی کو آنا ہی پڑتا ہے ۔۔۔روحانی خوشی تو ہے ہی اس میں قیدیوں اور بیماروں کے احوال پر نظر کی جائے، ان کو بتایا جائے کہ وہ اکیلے نہیں ۔۔ہم ان کے ساتھ ہیں،اُن کے آنسو پونچھنے اور لبوں کو مسکراہٹ دینے کو ۔۔۔،آیئے ! عید کی خوشیاں دوسروں کے ساتھ مل کر منائیں۔

*******

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading