مجید صاحب کے چہرے پر ایک سنجیدہ پریشانی چھائی ہوئی تھی۔ آنکھوں میں ایسی روشنی تھی جیسے کسی دینی کشف کا نزول ہوا ہو۔ میں نے خیر خیریت پوچھی تو کچھ دیر خاموش رہ کر گہری سانس لی، پھر آہستہ بولے؛
“یار۔۔۔ ریٹائرمنٹ میں تین سال رہ گئے ہیں۔ اب کوئی ایسا کام شروع کرنا چاہتا ہوں جو نفع بخش ہو، مگر رسک بالکل نہ ہو۔”
میں نے حسبِ معمول مشورہ دیا، “کریانے کی دکان کھول لیں؟” وہ ہنس دیے، ہنسی میں ایک نخوت بھری بے نیازی تھی۔ “او یار، وہ عام لوگوں کا کام ہے۔ صبح شام دکان پر بیٹھو، گاہکوں سے بحث، چوریاں سہو، منافع کم، وقت زیادہ۔۔ نہ بھائی نا، وہ کام میرے بس کا نہیں۔” میں نے پوچھا، “پھر کیا سوچا ہے؟” آہستگی سے، جیسے کوئی راز افشا کر رہے ہوں، بولے؛ “سوچ رہا ہوں۔۔۔ چرچ کھول لوں۔اپنا چرچ”
میں نے چونک کر اُن کا چہرہ دیکھا، شاید مذاق ہو ۔ مگر ان کی آنکھوں میں وہی سنجیدہ، بیدار روشنی تھی۔
“چرچ؟ اور آپ؟” “ہاں! عبادت کا کام ہے ۔پاکیزہ بھی اور منافع بخش بھی۔ جتنا اسے چمکاؤ، اتنا ہی پھولتا ہے۔” پھر جیسے کسی بزنس کنسلٹنٹ کی زبان میں بولنے لگے؛
“ہفتے میں دو دن بدھ اور اتوار کو عبادت، ایک دن خواتین کی دعائیہ نشست،ایک دن یوتھ کا، باقی دن گھریلو وزٹ۔ اگر جیب خالی ہو تو کسی بیمار کے گھر دعا کر آؤ، ہمدردی میں لفافہ خود آ جائے گا۔
ایسٹر، کرسمس، نیو ایئر، عیدیں، چودہ اگست، مدر ڈے، فادر ڈے۔۔۔ بیگم کی سالگرہ تک کو روحانی رنگ دے کر فنڈ جمع ہو سکتا ہے۔” پھر ہنستے ہوئے بولے، “اب تو لوگ مہندی جیسی فضول رسمیں چھوڑ کر شادیوں اور سالگرہ پر عبادت رکھتے ہیں۔ ہم نے ہی سمجھایا انہیں کہ یہ دنیا عارضی ہے، ہنسی خوشی کا وقت نہیں، توبہ کا موقع ہے!” میں نے یاد دلایا، “مگر لوگ آپ پر اعتماد کیسے کریں گے؟ آپ کا این جی او والے واٹر فلٹریشن پلانٹس اسکینڈل بھی تو ابھی تازہ ہیں، اور سیاسی وعدے اب بھی میمز کی صورت سوشل میڈیا پر گھوم رہے ہیں۔”
وہ بے فکری سے بولے؛ “یار فلپس کو جانتے ہو،میرے یار کو،چار جگہ عبادت کرواتا ہے۔اس سے بدتر تھوڑی ہوں! وہ اگر پادری بن سکتا ہے چرچ چلا سکتا ہے تو میں تو اُن کے لیے دودھ کا دھلا پادری ہوں گا۔” میں نے کہا، “چرچ کہاں بنائیں گے؟ آپ تو سرکاری کوارٹر میں رہتے ہیں۔” چہک کر بولے؛ “پہلے کمیونٹی سینٹر میں عبادت رکھیں گے۔ اگر کسی نے اعتراض کیا تو اُس پر ‘شیطانی سایہ’ کا فتویٰ لگا دیں گے۔ پھر وہ دعا بھی ہم سے کروائے گا۔ اور چندہ بھی وہی دے گا۔
سنیاڑی اسلام آباد میں دس مرلے کا پلاٹ دیکھا ہے ۔نیچے گرجا، اوپر رہائش۔ گرمیوں میں مری اور ہنزہ میں روحانی کیمپ۔ عبادت بھی، سیاحت بھی۔ وارے نیارے ہوں گے تیرے بھائی کے!”
میں نے شرارت سے کہا، “تو ریٹائرمنٹ کا پیسہ چرچ پر لگاؤ گے؟” مسکرا کر بولے؛ “نہیں یار، کلیسیاء بنائے گی خدا کا گھر ، پیسہ اُس کے بندے خود لے آئیں گے۔ فلپس کو پچھلے دنوں ایک بہن نے اپنی بالیاں دے دیں، دوسری نے سونے کی چوڑیاں۔ اور سنو، گزشتہ ہفتے ڈھیر لاکھ ملے ہیں، صرف بیوی کی سالگرہ پر دعائیہ تقریب رکھ کر!” سوٹ الگ سے ،دونوں میاں بیوی کے، کلیسیاء کے لوگ ان کو ماما پاپا کہتے ہیں اور وہ لوگوں سے کہتا ہے ماما کی سالگرہ پر پاپا کوبھی یاد رکھا کرو، “لیکن وہ تو کورین مشن سے ہے، جس پر بدعت کا الزام ہے۔” کہنے لگے؛ “یار، یہ سب عقیدے کی لڑائیاں ہیں۔ ہمیں تو اپنے ‘سلسلہءِ رزق’ سے غرض ہے۔ بدعت وِدعت بعد کی باتیں ہیں۔” میں نے آخری تیر چلا دیا؛ ” یہ پادری لوگ بہت کھاتے ہیں،خیال رکھنا، تم تو ہارٹ پیشنٹ بھی ہو!” تو قہقہہ لگا کر بولے؛ “اسی لیے تو ہنزہ جاؤں گا۔ وہاں کا پانی شفا دیتا ہے، فضا پاکیزہ ہے، اور چندہ دل کو خوش رکھتا ہے!”۔
مگر ایک بڑے پادری صاحب تو کہتےہیں۔ وہاں سے آنے والے کے ساتھ بدروحیں آتی ہیں۔
ہنستے ہوئے کہنے لگے بدروحیں بھی ہمارے پاس ہی ہوتی ہیں جب دل کیا کسی میں ڈال دی جب کیا نکال لیں۔
آج مجید صاحب کا چالیسواں تھا۔ تو ان کی مذہبی زندگی کے آغاز کی سب باتیں یاد آرہی تھیں
وہ تو نہیں رہے ۔مگر ان کا قائم کردہ سلسلہ جاری ہے۔ عبادتیں ہو رہی ہیں، کیمپ لگتے ہیں، وزٹ جاری ہیں۔ اب ان کی بیوہ چلاتی ہیں یہ سب ۔ وہ کہتی ہیں؛ “بنابنایا کاروبار ہے، کسی اور کو کیوں دیں؟”
چرچ میں اور دعاوں میں ان کا نام بڑے احترام سے لیا جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں؛ “وہ روحانی شخصیت تھے ۔ خالص عبادت گزار!” میں جب بھی ان کی قبر کے پاس سے گزرتا ہوں تو خود سے سوال کرتا ہوں؛ کیا مجید صاحب واقعی کامیاب رہے؟
کیا ہر وہ شخص جو خدا کی راہ پر دکھائی دیتا ہے، واقعی خدا کی راہ پر ہوتا ہے؟ اِنجیلِ مقدس میں مرقوم ہے کہ
“اور اگر آدمی ساری دنیا حاصل کرے اور اپنی جان کا نقصان اُٹھائے تو اُسے کیا فائدہ ہو گا؟” ( مرقس 36:8)۔
*******