ریورنڈ پطرس سلامت (چیئرمین فِلدلفیہ پینتی کاسٹل چرچ آف پاکستان) کا لکھا ہوا یہ مضمون ”خداوند یسوع مسیح کے شاگرد،مُقدس تُوما رسول، ٹیکسلا میں“ محکمہ آثارِ قدیمہ حکومت پنجاب کے لیے تحریر کیا گیا، اور یہ سرکپ کھنڈرات ٹیکسلا کے مقام پر انگریزی اور اُردو زبان میں زائرین کے لیے نصب کر دیا گیا ہے۔ جس کے لیے ہم محکمہ آثارِ قدیمہ حکومت ِ پنجاب کے شکرگزار ہیں۔ ۔۔۔۔ ایڈیٹر
خداوند یسوع مسیح نے اپنی بشری حیاتِ مبارکہ میں بارہ اشخاص کو اپنے شاگرد ہونے کے لئے چُنا اور اُن کو رُسول کا لقب دیا (لوقا 13:6)۔ ان بارہ کو چند سال منجّی عالمین کے ساتھ شب وروز رفاقت رکھنے اور تربیت پانے کی سعادت نصیب ہوئی اور یہی رُسل اپنے آقا کے معجزات ، کمالات اور الٰہی قدرت کے چشم دید گواہ ہوئے۔ ان کو تمام دُنیا میں ساری خلق کے سامنے اِنجیل کی منادی کا حکم ملا۔ اِسی حکم کی بجا آوری میںمقدس تو ما رسول ہندوستان ( موجودہ پاک وہند ) میں تشریف لائے۔
کلیسیائی روایات کے مطابق مقدس تو مارسول انطاکیہ میں پیدا ہوئے ،عظیم مورخ یوسی بئیس کے مطابق آپ کا اسم مبارک ” یہوداہ“ تھا۔المسیح نے ان کو خاص شناخت کے لئے” تو ما بمعنی توام “کا نام عطا فرمایا۔
ٹیکسلا ( تکش شِلا) کے جس مقام پر آپ کھڑے ہیں ، اس شہر کی عظیم تاریخ سکندرِ اعظم راجہ امبھی ، موریہ خاندان کے راجہ چندر گُپت ، اشوک ، پارتھیا خاندان کے عظیم شہنشاہ گنڈا فورس ، خاندان گشان کے راجہ کنشک اور دیگر کئی حکمرانوں سے جڑی ہے۔آبائے کلیسیاکی تصانیف اورمسیحی مورّخین کے مطابق مقدس تو ما رسول حبان نامی ایک سوداگر کے ساتھ یروشلیم سے سکندریہ، سکوترہ اور ٹھٹھہ سے ہوتے ہوئے دریائے سندھ کے راستے اٹک کے مقام پر اور پھر پیدل ٹیکسلا کے اس مقام پر پارتھی شہنشاہ گنڈا فورس کے پاس آئے جو زَرتشت تھا۔
آپ نے یہاں تقریبا 44 ء سے 52ء قیام فرمایا اورالمسیح کے لاثانی پیغام کی منادی کی۔ جس کے رُوحانی اثر سے یہاں کے مقامی راجہ گنڈا فورس اور اُس کے بھائی جادؔ نے مسیحیت کو قبول کر لیا۔ اس خطہ کے ہزاروں لوگوں نے آپ کے وسیلے گناہوں کی معافی، خدا کی بادشاہی اور ابدی زندگی کے کلام سے اپنے دلوں کو منور کیا۔ یہ کھنڈرات جہاں آپ کھڑے ہیں، یہ مقدس توما کے تعمیر کردہ گرجا گھر (چرچ) کے ہیں۔ یہاں بپتسمہ دینے کے دو حوض بھی موجود ہیں۔کیمرج ہسٹری آف انڈیا جلد اوّل کے مطابق بگرام (کابل) سے ملنے والے سِکوں ،1857ء میں تخت بائی ( پشاور ) سے ملنے والے کتبہ ( جولاہور عجائب گھر میں موجود ہے ) اور دیگر کئی شواہد نے راجہ گنڈا فورس اور اس کے بھائی جادؔ کی اس علاقہ میں حکومت کی تصدیق کی ہے۔
سن1935ء میں اِسی علاقہ سے ایک کسان کوہل چلاتے ہوئے ایک صلیب ملی، جسے وہ راولپنڈی کے کمشنر مسٹر کیوتھ برٹ کنگ کے پاس لایا۔ اب یہ صلیب کیتھیڈرل چرچ ، لاہور میں نصب ہے۔محکمہ آثارِ قدیمہ کے ڈائریکٹر جنرل سر ’جان مارشل‘ نے قدیم ٹیکسلا کی کھدائی کروا کر ان حقائق کو دوام بخشا ہے۔
تو اریخی شہادتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ گنڈا فورس کی وفات کے بعدکُشان خاندان کا ایک راجہ کنشک حکمران ہوا، جس کا دار الحکومت پشاور تھا۔ اُس نے اِس علاقہ کے مسیحیوں پر بہت ظلم کیا اور بہتیروں کو شہید کیا۔لیکن کچھ مسیحی یہاں سے شمال مغربی ہندوستان ، کابل اور قندھار کی جانب ہجرت کر گئے۔سُریانی کلیسیاکی روایات کے مطابق مقدس تو ما رسول52ء میں جنوبی ہندوستان کے علاقے کرنگانور ( کیرالا ) سے ہوتے ہوئے مائلا پور کے مقام پر گئے جہاں اُنہوں نے سات کلیسا ئیں قائم کیں اور چار پاسبان مقرر کیے۔ اور 72ء میں مائلا پور کے مقام پر آپ نے شہادت کا رُتبہ پایا۔ اُن کو وہیں دفن کر دیا گیا۔ لیکن بعد ازاں اُن کی ہڈیوں کو شام کے شہر ایڈیسہ میں لے جا کر دفن کیا گیا۔ شام کی کلیسیا بھی آپ کو اپنا رسول مانتی ہے۔
شہیدوں کا خون کلیسیا کا بیج ہے۔مقدس توما رسول کی ہندوستان آمد ، تبلیغ اور شہادت کلیسیائے پاک و ہند پر ایک قرض اور ذمہ داری ہے۔
کتابیات؛
۔(1) تاریخ کلیسیائے ہندو و پاک از آرچ ڈیکن برکت اللہ
۔(2) رسولوں کے نقش قدم پر از بشپ ولیم جی۔ ینگ
۔(3) تاریخ ِ کلیسیائے پاکستان از بشپ ایس کے داس
The Work of Josephus By Hendrichson Publishers 1980 ۔(4)
The Apocraphal New Testament by Dr M R James ۔(5)
بارہ رسولوں کی تعلیمDidachay ۔(6)
*******