کسی بھی لفظ کی حقیقت ، اس کے استعمال اور استعمال کرنے والے کی سرگرمی سے عیاں ہوتی ہے ورنہ بہت سی اصطلاحات اس خطہ کے علاوہ دیگر زبانوں اور ریاستوں کے ستون عمل میں لاتے ہیں۔ عام الفاظ میں یہ کہنا واجب ہو گا کہ جاہل کی جہالت اور اخلاقی ذلت ذہنی غلاموں کے نزدیک ایک عمدہ عبادت ہے۔ جو طرح طرح کے رنگ بدل کر اصلیت کے خلاف اعلانِ جہالت کا نمونہ ہوتے ہیں۔ ایسے میں ادب نہ ادب والے بلکہ صاحب اختیار ان جاہلوں کی تقرری کے لیے راہِ فرار استعمال کرتے ہیں۔ ان دنوں نظام تعلیم کا ایک سرسری خاکہ لے لیں جو کسی بھی قوم و ملک بلکہ فرد کی زندگی کو داخلی و خارجی بدلنے کے لیے ضروری ہے۔
اس لحاظ سے اسکول ، کالج اور یونی ورسٹی سطح پہ مختلف تعلیمی گروپ تشکیل دیے گئے ہیں ۔ اس درجہ بندی کے مطابق ذہنی معیار کُھل کر سامنے آتا ہے جو اس موضوع کی بہترین دلیل ہے۔ اس درجہ بندی میں سائنس ، آرٹس اور کامرس نمایاں ہیں جن میں آرٹس گروپ کا شمار آخر پہ کیا جاتا ہے۔جب پہلے درجے پر موجود والا طبقہ آخری والے کے زیر آ جائے اور انھی کے انتحاب کے لیے اپنا تن من دھن لگا دے تو جاہلوں کہ نگاہ میں گویا وہ مر گئے اور ان کا انتقام بد بختی سمجھا گیا۔ جب یہی برسرِ اقتدار ہو کر سامنے آ جائیں تو جو ردعمل آ رہا ہے اس کو پاکستان کہتے ہیں۔ اپریل 2024ء کا مہینا رواں دواں اور میڑک کے امتحانات ابھی ختم ہوئے جس کے بعد انٹرمیڈیٹ کے امتحان شروع ہونے کو تھے۔ جس کا باقاعدہ آغاز اپریل کی 20 تاریخ کو ہونے جا رہا تھا۔
اس سے قبل یہ معرکہ ہو اس ملک میں موجود درزی اور وردی نےسب عیاں کر دیا۔ اب دوبارہ جو اَن پڑھ کی حد ِنگاہ سے بچ چکے تھے اُن کی تقرریں کیے جانے کے لیے انتخابی دنگل لگنے جا رہا ہے۔
فطرت کی آواز تدبر کا ساز اور انصاف کا راز پُکار پُکار کر کہتا ہے یہ افلاس کے مارے ، گندگی کے بیچارے ، حرام پارے مجموعی طور پہ عمل کے ہاتھوں مارے۔ ان کے ذاتی کردار سے لے کر خاندانی نسب تک چلے جاؤ سب کے سب کے نااہل ہیں جس نے ثابت کر دیا واقع داخلی و خارجی یہ ہیں۔ وہ بے چارے طالب علم سارا سال اس آس پر تھے کہ امتحاں ہوں اور اگلی کامیابی کی سیڑھی پر قدم رکھیں۔ ان کی جہالت نے ایسا تاثر دیا کہ امتحانات کو ملتوی کر ڈالا۔ اصلیت میں امتحان ملتوی نہیں ہوئے شیطان آزاد ہوتے ہی اپنا کرم دیکھا رہا ہے۔
ایک طرف کہتے ہیں شیطان روزوں کے ایام میں قید ہو جاتا ہے قید ہوتے ہی سب عمل رُک جاتے ہیں صرف غریب کی چیخیں نکالنے والا موقع ہمہ وقت موجود ہے۔ وہ اعلان کرتا ہے میں قید میں ہوں پر ہوں نہیں ، تمھیں آگاہی دے رہا ہوں۔ جو تم سمجھ رہے ہو میرا مطلب ہرگز نہیں۔ میرے کہنے سے مُراد؛
” تم نے مجھے خیالوں میں قید کر لینا تاکہ کوئی باقی نہ رہے۔ تم نے مجھے گھروں میں قید کرکے رکھنا کیوں کہ روزے تو خُدا کی طرف سے فرض ہیں پر پکوڑے سموسے میرے طرف سے ۔۔۔”
اب آپ ہی دیکھ لیں عقل بھی مانتی ہے جب کسی چیز کی طلب میں اضافہ ہو تو قیمت آسمان سے باتیں کرتی ہے۔ یہ باتیں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک صاحب ِاختیار ، ظلم کا جانب دار ، اصلیت سے منہ موڑ میرے یار ، یہ زندگی چار دن کی سرکار ، نہیں تو کچھ جیب ہی بھر لو میرے فن سے فنکار، تمھیں نہیں اب کسی سے سروکار ، مرتا ہے تو مرنے دو صرف دھیان اپنے مطلب پر دن رات واجب نہ رہے گا اب کی بار ۔۔۔
کہنے میں مزید کچھ نہ رہا تو پھر جواب میں یہی بولا۔” ضرورت کے وقت تم کسی طرح نہ گھبراؤ گے ، سوچ کر نام میرا لے لینا، مجھے اپنی جیب میں پاؤ گے، ہو سکے تو اگلے کو ماموں بنانا پھر دیکھ تم کیسے کیسے نوٹ لاؤ گے۔ ”
ہر وہ فرد جو ان باتوں کا قیدی ہوا ظاہر میں وہ ایک بیوی کا مالک پر ہیرا منڈی کے باسیوں نے کئی عطاکیں۔ گھر سے چپل پہن کر مسجد میں نماز اس نیت سے پڑھنے جاتا کہ واپسی پر نئی باٹا کی جوتی لاتا۔ ایک ایک کرکے اب اتنے جوتے اکھٹے کر لیے ہیں کہ اب پوری دنیا سے جوتے ہی پڑتے جا رہے ہیں۔ اپنے ذہن میں ایسے قید کیا ہوا کہ سارا سال نکلنے کا نام ہی نہیں لیتا ، اعتماد اتنا بڑھ چکا کہ بم بلاسٹ کرتے وقت بارود اتنا زیادہ ڈالنے کو ترجیح دینے لگے کہ جنت سے بھی دس کلو میٹر آگے جا نکلے۔
اپنے ملک میں ہر روز نعرہ لگانا کہ امریکہ کافر ، اسرائیل مُردہ باد مگر ویزہ کی آفر آتے ہی چپکے سے چلے جانا۔ مجھے تو اب معلوم ہوتا ہے جنت میں حوروں کی بجائے اب ہُورے پڑیں گے۔ ” تم نے پہلے کیوں نہ دی یہ آس ، تم رہتے ہو ہر وقت میرے پاس ، اب کی بار کوئی نہ ہو گی غفلت و افلاس چھوڑوں گا نہیں ماریں گے چُن چُن کر سب بہو اور ساس ، رہیں گے اُداس بدلے روٹی ، کپڑا اور مکان، حواس باختہ ، اشتعال انگیزی دے کر دور کھڑا دیکھوں گا تماشا شناس ، مقروض ہوں جناب کا جس نے دی تربیت بس کرو اب آپ کا تہ دل سے شکریہ میرے فرماں بردار ۔
اس اعلان کے بعد گھر بچا نہ فرد ، خانہ خُدا نہ مدرسہ ، اقلیت نہ اکثریت ، بس چاروں طرف سُننے والوں کو اپنے گھیرے میں لے کر جنگ کا اعلان ۔ اس کے بعد قابلیت ، فن اور ہنر اس قوم کے لگے جُگاڑ۔
نوٹ: “تادیب”کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ “تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔
*******