مجھ کو بے شک جواب دے دینا
پہلے سن لو سوال اندر کا
میں ہوں اونچی اڑان کا پنچھی
بھانپ لیتا ہوں جال اندر کا
دل کی مٹی کو نرم رکھتا ہے
کوئی تیشہ کُدال اندر کا
اس کو ظاہر سے کیا ڈراتے ہو
جس نے دیکھا زوال اندر کا
پار کرنا تھا ہجر کا صحرا
آڑے آیا وصال اندر کا
تم نے چاہا سفر تو کب چاہا
جب وطن تھا نہال اندر کا
اتنی جرأت نہیں ہے غیروں میں
کوئی چلتا ہے چال اندر کا
ٹمٹمانے لگے ہیں یہ دیپک
کوئی قصہ اُجال اندر کا
میں نے زندہ کی پیروی کر لی
مار کر احتمال اندر کا
جس نے سجدے سے روک رکھا ہے
وہ صنم تو نکال اندر کا
شہر بھر میں سنائی دیتا ہے
جانے کیسے خیال اندر کا
آنکھ جھپکی تو رہ گیا عادلؔ
دل کے اندر خیال اندر کا
*******