ماں تیری عظمت کو سلام : ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

ماں کا عالمی دن ہر سال مئی کے دوسرے اتوار منایا جاتا ہے۔امسال یہ دن 12 مئی کو دنیا بھر میں بڑے جوش و جذبہ کے ساتھ منایا جائے گا۔اسی مناسبت سے قائرین کی دلچسپی اور ماں کی عظمت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک پرمغز تحریر پیش خدمت ہے۔
اے ماں؛ تو قدرت کا وہ حسین کرشمہ ہے جس کی فضیلت کا مقام اتنا بلند ہے کہ شاید میرا قلم تیرے قدموں کو بوسہ دینے کے قابل ہو۔ میں فقط تیری محبت کا آسرا لے کر چند الفاظ کا نذرانہ تیری عظمت و عقیدت کے لیے رقم کر رہا ہوں۔ اے ماں ! تیرا نام کتنا سچا، شگفتہ، میٹھا، سندر، کھرا اور شکتی والا ہے۔ یہ نام جب بھی میرے لبوں پر آتا ہے میرے جذبات تیری الفت کے لیے بے قابو ہو جاتے ہیں۔کیونکہ تیری محبت ان چشموں کی مانند ہے جو کبھی نہیں سوکھتے بلکہ ان کا بہاؤ سدا بہار جاری رہتا ہے۔
بلاشبہ اس بہاؤ میں دن، مہینے، سال، موسم، تہذیب و تمدن اور روایات بھی چپکے سے بہہ جاتی ہیں۔
اے ماں! تیری محبت میں اتنی طاقت پنہاں ہے کہ یہ سمندر کی لہروں کا مقابلہ کرنے کی سکت موجود ہے جس میں زندگی لہروں کی طرح گردش کرتی ہے۔میرے جیسے کم بخت کو اگر ان اچھلتی کودتی لہروں میں تیری یاد آ جائے تو تیرے پیار کی طاقت ان لہروں کو ہٹا دے گی اور میرے جیون کو پھر سے اجلا بنا دے گی۔
اے ماں!
تیری آنکھوں کی چمک دیکھی تو مجھے شاہین کی مانند لگی جو آسمان کی بلندیوں سے مجھے تلاش کر لیتی ہے۔ تاکہ مجھے زندگی کے کسی موڑ پر احساس محرومی کا احساس نہ ہو۔ اس لیے تیری آنکھوں کی گردش اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک وہ مجھے دیکھ نہ لے۔ دراصل یہ تیرے پاس احساس، محبت، خلوص، رحم شفقت کا وہ انمول تحفہ ہے جسے کوئی دوسرا بانٹ نہیں سکتا۔ تیرا یہ احسان اس قدر خوبصورت ہے کہ جب تک میری احساس محرومی ختم نہیں ہوجاتی اس وقت تک تیری آنکھیں سکھ کا چین نہیں لیتیں۔ اے ماں!
میں نے تیری ان آنکھوں میں کمال ہنر دیکھا کہ دکھ ہو یا سکھ تیری آنکھوں میں شبنم کے قطروں کی چہل پہل ضرور دیکھی ہے۔ ہاں تیرے پاس ہی تو ایسا دل ہے جو اس بوجھ اور تڑپ کو برداشت کرتا ہے۔یہ تیری ہستی کی انوکھی کشش ہے جو سب کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔
اے ماں!تیرے پاس جو محبت کے خزانے ہیں انہیں کون دریافت کر سکتا ہے؟ شاید کسی دوسرے کے پاس ایسا دل نہیں جو ان خزانوں کو فراخ دلی سے بانٹ سکے۔ ہاں مجھے جب اپنا وقت یاد آتا ہے تو میں سوچتا ہی رہ جاتا ہوں کہ تونے اپنی ہر چاہ کو میری پرورش اور تعلیم و تربیت کے لئے قربان کر دیا۔ اس محبت میں نہ تو نے دن دیکھا اور نہ رات کے پہروں کی پرواہ کی بلکہ تیرے اندر احساس کا چراغ مسلسل جلتا رہا۔ مجھے ان باتوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ تیرے پاس انوکھے اور مخلص محبت کے کرشمے ہیں جو ہمیشہ اپنا مثبت کردار ادا کرتے ہیں اور میں یہ کہنے میں عار محسوس نہیں کرتا کہ تیرے پاس یہ سب کچھ قدرت کی بخشش کے تحائف ہیں جنہیں تو خلوص و محبت کے ساتھ بانٹ دیتی ہے۔ لہذا تیری اس ثابت قدمی کا چرچا نہ کروں تو یہ فضا ناراض ہو جائے گی کیونکہ اس فضا میں تیرا نام خاندان کے ماحول کو خوبصورت اور خوشگوار بنا دیتا ہے۔
اے ماں!
اگرچہ تیری ثابت قدمی کو گرانے کے لیے آندھیاں چلیں، طوفان آئے، زلزلے آئے، ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹے۔ پر میں نے تیری جرات کے ستون میں خم نہیں دیکھا کیونکہ تو نے ہر طوفان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اپنی محبت اور ممتا سے ہر دکھ اور طوفان کو روک دیا۔ اب مجھے اندازہ ہو گیا ہے کہ تیرے پاس بہادری اور جرات کا کون سا عصا ہے جو ہر طوفان کا مقابلہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ میں نے تیرے اس رشتے کو سب سے سندر، طاقت ور اور پاکیزہ پایا ہے جس میں نہ کوئی کھوٹ، نہ کوئی ملاوٹ، نہ کوئی عداوت، نہ کوئی خودغرضی، نہ کوئی بہروپیا پن، نہ کوئی ظلم و ستم کی داستان، نہ کوئی بناوٹی روپ اور نہ کوئی آمیزشی رویہ شامل ہے۔ بلکہ تیری آفاقی صداقتوں کی بدولت کون تیری محبت فراموش کر سکتا ہے؟ ہاں وہی بد نصیب ہو گا جو تیری محبت کا قرض بھول گیا ہو۔
اے ماں!
میں بچپن کا نغمہ چیھڑوں تو یادیں نیا عالم پیدا کردے گئی۔ محبت کے اس عالم میں یہ دل تیری نغمہ سرائی کے میٹھے بول ضرور بولے گا۔ تیری پکار مجھے چاند بابو، چاند کا ٹکڑا، فلک کا ستارہ، آنکھ کا تارا اور کبھی دل کا ٹکڑا کہتی ہے۔ تیری رغبت کے یہ انداز میرے لیے انوکھے اور ناقابل فراموش ہیں۔ تیری اس بے لوث خوشی کا خزانہ کسی دوسرے کے پاس نہیں۔
اے ماں! میں نے زمانوں کو کروٹیں بدلتے دیکھا پر تیرے اندر ایک ہی زمانہ ہے جو سب زمانوں پر حکمرانی کرتا ہے۔ میں نے زمانوں کی تہذیب و تمدن کو بدلتے دیکھا ہے۔ مگر تیری تہذیب اور وفاداری کا وہی اسلوب ہے جو ماضی حال اور مستقبل کا ضامن ہے۔ تو نے زمانوں، موسموں، روایات کی پرواہ کیے بغیر مجھے اپنی محبت سے فیض یاب کیا ہے۔ اس لئے تو زمین کی وہ ہستی ہے جس کا کردار تاثیری، آفاقی، کرشماتی اور معجزاتی ہے۔ لہذا تیرے اس کردار کی طاقت مجھے مثالی بنا دیتی ہے۔
اے ماں!
تو نے خدا کے اس عہد و وفا کو نبھایا ہے جسے دیکھ کر میرا سر فخر سے بلند ہوتا ہے کہ ایک ہی میری ماں اور ایک ہی میرا باپ ہے جو مجھے ہجوم سے الگ کرتا ہے۔ تیری اس وفاداری نے مجھے وفا کے نغمے گھنگنانا سکھائے ہیں تاکہ میں زمانے میں تیرے کردار کا جھنڈا لہرا سکوں میرا سر تیری اس فضیلت سے بلند ہوا ہے کہ واقع تیرے پاس وعدوں کی پاسداری کا نمونہ موجود ہے جو دنیا میں زمانے کے لیے ایسی تاریخ رقم کرتا ہے جہاں جوش و جذبہ محبت کی علامت بن جاتا ہے۔ میرا دل تیری آج تیری فضیلت کو دیکھ کر کہنے پر مجبور ہے کہ جب تک میری سانسیں وجود تن ہیں میں تیری محبت کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔
اے ماں!
میں نے موسموں کے تغیر پذیری دیکھی بلاشبہ موسم تو آتے جاتے اور اپنا رنگ بکھیرتے ہیں لیکن تیری محبت ان موسموں پر گہرے نقوش چھوڑتی ہے۔ حقیقی موسم تو تیرے اندر ہے جو ہر موسم کا عکاس بن کر مجھے سنبھالتا ہے۔ تو نے زمانے کی ہر بدلتی ہوئی رتوں، نظاروں، بہاروں کو اپنے دل کے موسم سے آباد کیا ہے۔ لہذا میں سمجھتا ہوں تیرے پیار و محبت کے جذبات ہر موسم میں یکساں رہے ہیں۔تیری زبان کی مٹھاس اور شیرینی کا ذکر نہ کروں تو میں اجنبی ٹھہروں گا۔ یہ تیرے وجود کا انوکھا ساز ہے جو ایک ہی سمت مڑتا ہے۔ تیری زبان ہمیشہ مجھے دعا دیتی ہے نہ جانے کیوں یہ گنہگار تجھے پھر بھی اچھا لگتا ہے؟ آخر تیرے پاس کس چیز کا دل ہے؟ جو سب کچھ جاننے کے باوجود بھی موم کی طرح پگھل جاتا ہے۔ میں لاکھ برا سہی پر تیری زبان ہمیشہ مجھے دعا دیتی ہے تاکہ میں کسی وقت بھی تبدیل ہو جاؤں اور زندگی کو ان خطوط پر استوار کر لوں جہاں انسانیت کا بول بالا ہو۔
اے ماں!
تیرے احسانات کو دیکھا تو میں ششدر رہ گیا۔ بلاشبہ تیرے احسانات مجھے بارش کی قطروں کی مانند دکھائی دیے جنہیں میری آنکھیں گن نہیں سکتیں۔ تیرا یہ احسان عجیب منظر پیش کرتا ہے نہ بارش کی طرح شور کرتا اور نہ پانی کی طرح ٹپکتا ہے۔ نہ یہ زبان پر بڑبڑاتا اور نہ شور کرتا ہے۔ تیری اس عظمت کو دیکھ کر میں خاموش رہ گیا اور میری ان خاموش نگاہوں نے دیکھا کہ تو ہی یہ لبادہ اوڑھ سکتی ہے۔
اے ماں!
تیری عزت و وقار کا چرچا نہ کروں تو تیری عظمت زوال پذیر ہو گئی۔ آج میں دیکھتا ہوں تیرے ہی دم سے معاشروں کا حسن و جمال ہے۔ تیری عدم موجودگی معاشروں کو طلاق کا پیغام دیتی ہے۔ جس گھر میں تیرا سایہ نہ ہو وہ گھر شفقت سے محروم ہو جاتا ہے۔ لہذا تیری موجودگی کھجور کے درخت کی مانند ہے جس کے پتے اور ڈالیاں کبھی نہیں مرجھاتے۔ان ساری باتوں کو دیکھ کر مجھے تیری عظمت و عزت کا مقام اتنا بلند لگا جیسے قدرت نے تجھے عمر درازی کا راز دان بنایا ہے۔
کاش! میں آج تیرے اس فرمان کو جو تو نے حضرت موسی کو احکام عشرہ میں دیا پورا کر سکوں۔
“تو اپنے باپ اور اپنی ماں کی عزت کر تاکہ جس ملک میں تو رہتا ہے تیری عمر دراز ہو” (خروج 20 : 12 )

نوٹ: “تادیب ” کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ “تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading