پاکستان میں مُستند اور میعاری مسیحیت کی طرف راغب ہونے کا بُلاوا
حالیہ برسوں میں، پاکستان میں مسیحی برادری نے خاص طور پر ٹیلی ویژن کی منسٹریز اور آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے مغربی اثرات کی آمد دیکھی ہے۔ اگرچہ ان ذرائع نے انجیل کو پھیلانے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ انہوں نے ایسے رجحانات بھی متعارف کرائے ہیں جو حقیقی مسیحی ایمان کے قلب میں سادگی، عاجزی اور صداقت ماند کر دینے کا خطرہ پیدا کرتے ہیں۔ یہ اثرات اکثر گلیمر، خوشحالی اور نُمائش پر زور دیتے ہیں ۔۔۔ جو حواس کو بھلے معلوم ہوتے ہیں، لیکن بعض اوقات مسیح کے ہمشکل ہونےکی بُنیادی خوبیوں کو رفتہ رفتہ بہا لے جانے کا سبب بنتے ہیں۔
پاکستانی مقدسین کی حیثیت سے، ہمیں اس بات کا تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اپنے ایمان اور خدمت کو ایسے طریقوں سے نبھانے کا کیا مطلب ہے جو مسیح کی عکاسی کرتے ہوں نہ کہ نمود و نُمائش کے ثقافتی نمونوں کی۔ یہ کتاب مقدس کی تعلیمات اور اخلاقی دیانتداری کے ساتھ ہماری توجہ کو دوبارہ ترتیب دینے کی دعوت ہے جسے مسیح ہمیں جِسم میں کرنے کیلئے بلاتا ہے۔
خدمت میں گلیمر (دلفریبی) کا خطرہ؛
نمود و نمائش کی جانب بڑھتے ہوئے زور سے پیدا ہونے والے سب سے بڑے خطرات میں سے ایک یہ ہے کہ خدمت میں مسیح پر توجہ مرکوز کرنے سے خود پر توجہ مرکوز کرنے کے نقطہ نظر کی طرف منتقلی ہو گئی ہے۔ عالمی تحقیق، جیسے کہ برنا گروپ کی طرف سے کی جانے والی تحقیق نے یہ ظاہر کیا ہے کہ کس طرح صارفیت اور مشہور شخصیات کے کلچر کے تعاقب نے دنیا بھر میں مسیحی روایات کو منفی طور پر متاثر کیا ہے۔ برنا کی تحقیق سے یہ پتہ چلتا ہے کہ نوجوان مسیحی اکثر خدمت میں کامیابی کو وفادار شاگردیت اور خادمانہ دل سے قیادت کے بجائے عوامی پہچان، بڑے مجمعے اور مادی خوشحالی سے تشبیہ دیتے ہیں۔
یہ رجحان خاص طور پر پاکستان میں تشویش ناک ہے، جہاں کلیسیا ظلم و ستم اور محدود وسائل کے تناظر میں کام کرتی ہے۔ ابتدائی کلیسیا کی پھر سے اُبھرنے کی قوت اور سادگی سے ترغیب حاصل کرنے کے بجائے ، کچھ منسٹریز نے مغربی میگا چرچ ماڈلز کی نقل کرنا شروع کردی ہے اور روحانی گہرائی اور کمیونٹی کی دیکھ بھال کی بجائے پُرتعُش تقریبات، مہنگی پروڈکشن، ذاتی برانڈنگ (اپنا نام بڑھا چڑھا کر پیش کرنا) کو ترجیح دی ہے۔
پولوس رسول نے اس طرح کی الجھنوں کے بارے میں متنبہ کرتے ہوئے لکھا تھا؛
۔” کیونکہ اَیسا وقت آئے گا کہ لوگ صحِیح تعلِیم کی برداشت نہ کریں گے بلکہ کانوں کی کُھجلی کے باعِث اپنی اپنی خواہِشوں کے مُوافِق بُہت سے اُستاد بنا لیں گےـــ”۔ (2 تِیمُتھِیُس 3:4)
مسیح کی مماثلت: ایمان کا حقیقی پیمانہ
مسیحیت کی اصل اساس مسیح کی مانند بننے پر مبنی ہے۔ اُس کی عاجزی، محبت اور قربانی کا مظاہرہ کرنا۔ یسوع نے ازخود کامیابی کے دُنیاوی اقدامات کو مسترد کر دیا۔ وہ ایک گدھے پر سوار ہو کر یروشلم میں داخل ہوا نہ کہ رتھ پر۔ اُس نے اپنے شاگردوں سے خدمت کا مطالبہ کرنے کے بجائے اُن کے پاؤں دھوئے۔ یہ وہ نمونہ ہے جس کی ہمیں تقلید کرنے کے لئے بلایا گیا ہے۔
پاکستان میں کلیسیا سادگی اور پھر سے ابھرنے کی قوت کی اپنی جڑوں سے طاقت حاصل کرسکتی ہے۔ تاریخی طور پر یہاں کی مسیحی برادریاں عظیم الشان تقریبات یا مالی دولت کی وجہ سے نہیں بلکہ خدا کے ساتھ اُن کی وفاداری اور اپنے پڑوسیوں سے محبت اور اُن کی خدمت کرنے کے عزم کی وجہ سے پھلی پھولیں ہیں۔ خدمت میں حقیقی کامیابی زندگیوں کو تبدیل کرنے اور ایسی برادریوں کی تعمیر میں مضمر ہے جو مسیح کی بادشاہی کی اقدار کی عکاسی کرتی ہیں۔
خدمت میں میڈیا کا کردار؛
میڈیا اور ٹیلی ویژن کی منسٹریز ان لوگوں تک پہنچنے میں اپنا مقام رکھتی ہیں جو کلیسیائی عبادات میں شرکت کرنے سے قاصر ہیں یا بائبل تک آسانی سے رسائی حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔ تاہم، میڈیا کو جس طرح استعمال کیا جاتا ہے وہ بھی بہت اہم ہے۔ صارفین پر مبنی نقطہ نظر اپنانے کے بجائے، میڈیا کو پُختہ تعلیمات سکھانے، دعا کی حوصلہ افزائی کرنے اور حقیقی کمیونٹی کو فروغ دینے کا ایک ذریعہ ہونا چاہئے۔
جرنل فار دی سائنٹیفک اسٹڈی آف ریلیجن کی تحقیق اس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ جب مسیحی میڈیا خوشحالی اور ظاہرا نمائش پر زور دیتا ہے تو اُس سے اُن مُقدسین میں مایوسی پیدا ہوتی ہے جو حقیقی جدوجہد کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں۔ پاکستانی مسیحیوں کے لیے، جن کو روزمرہ زندگی میں اکثر امتیازی سلوک، غربت اور ظلم و ستم جیسے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس طرح کا تضاد روحانی الجھن کا باعث بن سکتا ہے۔
مستند ایمان کی طرف لوٹنے کی دعوت؛
ان منفی رجحانات کا مقابلہ کرنے کے لئے، پاکستان میں کلیسیا کو حقیقی ایمان اور مسیح پر مبنی اخلاقیات کی طرف لوٹنے کے لئے دانستہ اقدامات کرنے چاہئیں:
۔1۔ شاگردیت کے لئے ازسرِنو پیش کرنا: منسٹریز کو چاہئے کہ وہ ایمانداروں کو یہ سکھانے کو ترجیح دیں کہ کس طرح مسیح کی مانند بنا جائے اور کیسے عاجزی ، سخاوت اور بے غرضی جیسی خوبیوں پر توجہ مرکوز کی جائے۔
۔2۔ مادہ پرستی کو مسترد کریں: رہنماؤں اور کلیسیاؤں کو یکساں طور پر دولت، حاضری یا تالیوں کے ذریعہ کامیابی کی پیمائش کرنے کے لالچ کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ اس کے بجائے ہمیں مسیح کی قربانی کی خدمت کی مثال کی پیروی کرنی چاہئے۔
۔3۔ احتساب کو فروغ دینا: کلیسیاؤں کو چاہیے کہ وہ اپنے رہنماؤں کو بائبل کے دیانتداری کے معیارات کے مطابق جوابدہ بنائیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ذاتی عزائم خدا کے مشن پر حاوی نہ ہوں۔
۔4۔ میڈیا کو دانشمندی سے استعمال کریں: گلیمر کو ظاہر کرنے کے لئے میڈیا کا استعمال کرنے کے بجائے، اسے بائبل کی معیاری تعلیم، پرستش اور روزمرہ زندگی میں خدا کے کام کی گواہیوں کے لئے ایک پلیٹ فارم ہونا چاہئے۔
حاصلِ کلام: ایک ایسی کلیسیا جو تاریکی میں چمکتی ہے
ایک ایسے ملک میں جہاں مسیحی پسماندہ ہیں، کلیسیا کے پاس یہ ایک نادر موقع ہے کہ وہ اپنی منفرد حیثیت قائم کرے۔ چمکیلی بھڑکیلی نُمائش یا مغربی نمونے کے ذریعہ نہیں، بلکہ مسیح جیسی زندگی بسر کرنے کی اپنی غیر متزلزل وابستگی کے ذریعہ۔ جب پاکستانی مسیحی گلیمر پر عاجزی، خود کی ترویج پر خدمت اور رحجانات پر سچائی کو ترجیح دیتے ہیں، تو وہ اِنجیل کی طاقت کی گواہی اس طرح پیش کرتے ہیں جیسے کوئی ٹیلی ویژن یا میڈیا پرودڈکشن کبھی پیش نہیں کر سکتی۔
آئیے ہم میکاہ 8:6 کے الفاظ پر دھیان دیں؛
” اَے اِنسان اُس نے تُجھ پر نیکی ظاہِر کر دی ہے۔ خُداوند تُجھ سے اِس کے سِوا کیا چاہتا ہے کہ تُو اِنصاف کرے اور رحم دِلی کو عزِیز رکھّے اور اپنے خُدا کے حضُور فروتنی سے چلے؟”
خدا کے جلال اور اس کی بادشاہی کی وسعت کے لیے یہی پاکستان میں ہمارے ایمان اور خدمت کی دھڑکن ہو۔
*******