میرا گاؤں نہ جلاؤ۔: امجد پرویزساحل

صرف دس ماہ پرانی تو بات ہے جب ہمارے مومنین نے جنت کی خاطر اپنے مظلوم،تعداد میں انتہائی کم،امن پسند،معاشی طور پر پسماندہ لوگوں کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ ہمارے یہ مسیحی شاید بھول چکے تھے کہ اُن کی کسی حرکت پر جو آپ کو کسی وقت بھی ناپسند ہوسکتی اُن کے لیے مصیبت کھڑی کر تی ہے۔ تاریخ فی الحال خاموشی سے یہ ظلم و ستم لکھ رہی ہے۔یعنی یہ بات سانحہ جڑانوالہ کی ہو رہی ہے۔ اس واقعہ جس کو آپ کے امن پسند لوگوں نے نہتے کمزور اپنے ہی شہریوں پر ہلہ بول کر فتح کیا تھا۔ اب اُسی جبر کا تذکرہ کیے دیتاہوں جو سرگودھا میں ہوا ہے پھر کہتا ہوں یہ کوئی آخری واقعہ نہیں کیونکہ اس سے پہلے میں اس موضوع پر ایک کالم ”اگلاقیدی حاضر ہو“ لکھ چکا ہو جس میں باقاعدہ ذکر کیا کہ ایسے واقعات ہوتے رہیں گے اور کالم لکھتا رہو ں گا۔ یا یو ں کہہ لیں آپ کے ظلم کی داستان جاری ہے جو دیکھیں کہاں تک پہنچتی ہے۔ ہر دفعہ کہانی مختلف اور واقعہ ایک ہی ہوتا ہے۔ یعنی کچھ نہ پسند ہوتا ہے اور لڑائی کی وجہ بنتی ہے جب معلوم ہوتا ہے کہ جنگ مشکل ہوتی جاتی ہے تو ہتھیار کے طور پر مذہبی غیرت کا سہارالیا جاتا ہے اورپھر اُسی علاقہ کے ٹرینڈ لوگ چند لونڈے لپاڑوں کو مذہب کی غیرت کا جھانسہ دے کر اُکساتے ہیں اور پھر یہ انتہاپسند ہجوم مقدس فریضہ ادا کرنے کے لیے پاکستان کے غیرمسلم شہریوں پر چڑھ دوڑتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ جب یہ واقعہ ہو رہا ہوتا ہے، تباہی برپا ہو رہی ہوتی ہے تو حکومتی مشینری خاموش تماشائی بنی سب کچھ دیکھ رہی ہوتی ہے پھر کچھ دیر بعد سب کچھ تباہ ہونے کے بعد محض کاروائی ڈالنے کے لیے چالیس پچاس لوگوں کو گرفتار کرتی ہے جو اگلے چند دنوں میں ثبوت نہ ملنے کی وجہ سے چھوٹ جاتے ہیں اور پھر اگلا واقعہ۔
مورخہ 25 مئی 2024کو بھی بلکہ گزشتہ واقعات کی طرح ہی ہوا، ایک شخص آیا اس نے چند مقدس اوراق کے جلائے جانے کا الزام (مبینہ طور پر) لگایا اور لوگوں کو اکسانا شروع کیا۔ لبیک کے نعرے لگائے اور ہجوم کو مذہبی غیرت دلائی اور ثواب کمانے کی خاطر حملہ کروا دیا۔ جس میں چند گھر جلا دیتے اور لعزر مسیح جس کی جوتوں کی فیکٹری تھی اس کوجلایا، لوٹا اور اُسے مار مارکر ادھ موہ کر دیا۔ یعنی وہی پرانی کہانی وہی پرانا بہانہ۔
خدارا ہمیں بخش دو، ہمیں معاف کردو، یہ درست ہے کہ اقلیتوں کا پاکستان کے حق میں ووٹ کاسٹ کرنا اور پاکستان کو اپنا ملک سمجھتے ہوئے بھارت کو ریجیکٹ کرنا ایک غلطی تھی۔ مگر اس غلطی کی سزا اتنی بڑی تو نہ دیں۔ پچھلے چالیس سال سے اس قتل و غارت، تباہی، گرجوں،مقدس کتا بوں کی بے حرمتی، گھروں کو مسمار کرنا،جلانا، کمزور اقلیتوں کو زدو کوب کرنا بہت ہوگیا۔ اب بس کردینا چاہیے۔ اب بس ہوگئی ہے۔اب جیسے ڈر ختم ہو رہا ہے، یہ کب تک چلے گا۔ یہ سلسلہ شانتی نگر سے شروع ہوا سرگودھا تک چلا اور ناجانے کہاں تک چلے گے۔
ملک تو پہلے ہی اخلاقی و معاشی طور پر ختم ہو چکاہے، اب یہاں اقلیتں ختم ہو رہی ہے بلکہ ختم ہو گئی ہیں۔ اب یہاں یہودی نہیں رہتے بھاگ گئے یا ماردیے گئے، اب پارسی بھی لگ بھگ ختم ہو گئے ہیں۔ ہندوبھی پاکستان کو چھوڑ کی بھارت چلے جائیں گے۔ پاکستان کے ساتھ تو کوئی مسیحی ملک بھی نہیں لگتا یہ کہاں جائیں۔ یہ سب یا مرجائیں گے، یا بھاگ جائیں گے۔ باقی بچے کھچے مسلمان ہو جائیں گے۔ مسیحی بچیوں کو اغوا کرکے مسلمان بنانے کا سلسلہ تک کب سے جاری ہے۔ جتنے لوگ قیام پاکستان میں تھے اب وہ اتنے نہیں رہے۔ بالکل ویسے جیسے سعودی عرب میں نہیں، جیسے مشرقِ وسطیٰ میں نہیں جیسے ترکیہ نے مسیحوں کا مردیا اور کچھ بھاگ کر آرمینا چلے گئے۔ اب وہاں مسیحی نہیں ملتے، کہاں چلے گئے سب۔ بھاگ گئے، مارے گئے یا مسلمان ہو گے۔ جی تاریخ تو یہی بتاتی ہے۔ ورنہ صلح حدیبیہ مسلمانوں کے درمیان تو نہیں ہوا ہوگا۔ یقینا وہاں یہودی بھی تھے، مسیحی اور مسلمان بھی تھے۔ لیکن اب وہاں نہیں مسلمانوں کے علاوہ کوئی نہیں رہتا۔
پاکستان میں بھی حالات اس سے مختلف نہیں، ظلم تو یہ ہے کہ اِن ممالک نے بھی اس کو ظلم کہا ہی نہیں اور ظلم تو یہ ہے کہ یہ بھی اس کو ظلم نہیں کہتے۔ ہماری تاریخ اور کتابیوں میں پاکستانی اقلیتیں کہاں گئیں سب خاموش ہیں۔اقلیتوں کے ساتھ تو ظلم ہو ہی رہاہے اب تاریخ دان تو تاریخ کے ساتھ یہ ظلم نہ کریں۔ یہ کھلواڑ مت کریں۔ تاریخ میں تمھارا نام و نشان نہیں رہے گے۔ مہنجوڈارو کھدائی کرکے ملا ہے کہ وہ لوگ کیسے تھے، تم تو شاید کھدائی کرنے سے بھی نہ ملوگے۔
وقت تمھیں معاف نہیں کرے گا۔ بس کر دو۔ اب اور اس ملک کے اصلی باشندو ں کے ساتھ مت کرو۔ ایک دیوانے کی التجا ہے، خدا سب دیکھ رہا ہے۔ کل جب عذاب آیا تو توبہ کرنے سے بھی نہیں ٹلے گا۔ ملک میں غربت لعنت بن کر ناچ رہی ہے۔ بے ایمانی خدا کے طرف سے لعنت بن کر ہمارے معاشرے میں سَرایَت کر چکی ہے۔ اب اور کتنا تباہ ہونا ہے۔ تم مرے ہوئے ہو جو جنت براستہ ظلم جانا چاہتے ہو، یہ کتنا درست ہے، یہ تم بھی جانتے ہو اور ہم بھی۔ اب بس کرو۔ میرے گاؤں نہ جلاؤ میرے گاؤ ں نہ جلاؤ۔

نوٹ: “تادیب”کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ “تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading