میں کس ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں؟: امجد پرویزساحل

میں نے جنگل کی ایک ویڈیو دیکھی جس میں ایک ہرن جنگلی خون خوار چیتوں کے ہتھے چڑھ گئی ہرن کے ساتھ ہرن کا بچہ بھی تھا، ہرن کچھ دیر چیتوں کے آگے لگ کر بھاگی بچہ کمزور تھا شاید ایک یا دودن کی پیدایش کا ہوگا۔
چیتوں نے ہرن کے بچے کو پکڑلیا جو بہت چھوٹا اور کمزور تھا ہرن نے جب دیکھاکہ خونخوار جانوروں نے میرے بچے کو پکڑلیا ہے تو اس نے اپنے بچے کی جان بچانے کی خاطر اپنے آپ کو پیش کردیا کہ وہ جانور اس کے بچے کو چھوڑ کر اُسے کھا لیں گے اور وقت ملتے ہی بچہ بھاگ جائے گا بچے کو نئی زندگی مل جائے گی۔ چیتوں نے دیکھتے ہی دیکھتے ہرن کو دبوچ لیا۔
کوئی لگ بھگ پچیس سال ہوگئے پاکستان میں اقلیتوں کو ایذا رسانیاں سہتے، ظلم ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا اور یہ ظلم بالکل سوچے سمجھنے منصوبے کے تحت ہورہا ہے۔ ایسا نہیں کہ اقلیتیں کوئی کمزور ہیں یا وہ اپنا دفاع کرنا نہیں جانتی۔ باقاعدہ اقلیتوں کو دبانے کے لیے قانون سازی کی گئی تاکہ کوئی اس پر آواز نہ اٹھا سکے، آپ ذرا تیس چالیس سال پیچھے چلے جائیں تو ظلم اُس وقت بھی ہوتا تھا لیکن لوگ اپنا دفا ع کر لیتے تھے یعنی جس کے بازوؤں میں جتنا زور تھا وہ لگا لیتا تھا لیکن آج ایسا نہیں کیونکہ سب کو پتاہے بات نجی سطح سے ہوتی ہوئی مذہبی رنگ اختیار کرلے گی جو بعد میں چرچوں کو جلانے اور گھروں کو مسمار کرنے تک جاپہنچے گی۔یہی وجہ ہے اکثر و بیش تر نان مسلم اقلیتیں جھگڑے سے کتراتی ہیں۔
ایسا واقعہ بھی سرگودھا میں پیش آیا چند دن پہلے بچوں میں لڑائی ہوئی اور پھر وہ لڑائی زاتی حیثیت اختیار کر گئی لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا دیکھائی دیا۔
شہیدلعزر عرف نذیرمسیح جو کے پچھلے کئی برسوں سے ملک سے باہر سلسلہ روزگار کے لیے گیا تھا، وہاں جب پاکستان میں اپنا گھر بار بہتر کر لیا تو اس نے سوچا اپنے ملک جایا تاکہ باقی زندگی آسانی سے گزاری جائے۔ اپنا ملک وہ پاکستا ن کو کہہ رہا تھا جس میں لوگوں نے ایک جھوٹے الزام میں اسے پتھر مار مار کر شہید کردیا۔ اُس نے سوچا ہوگا کہ اپنے ملک میں پیسہ خرچ کرنے سے خود کو اپنے جیسے بہت سے لوگوں کا روزگار بھی چل جائے گا اور زندگی آسان ہو جائے گی۔ اُسے کیا خبر کہ وہ جنگل کو اپنا گھر سمجھ بیٹھا ہے جہاں خون خوار درندے بستے ہیں۔
مورخہ 25 مئی 2024 کو کسی نے اُس کی جوتوں کی فیکٹری کے ساتھ چند کاغذات جلی ہوئی حالت میں دیکھ کر اور بغیر تحقیق کیے یا اعلیٰ حکام کو اطلاع کئے بغیر لوگوں کو اُکسانا شروع کر دیا ہے کہ ان (عیسائیوں) مسیحیوں نے ہمارے مقدس اواراق کی بے حرمتی کی ہے اور اگر کسی مسلمان میں تھوڑی سی بھی غیرت ہے توان کو سبق سکھانے کے لیے باہر آئے، مقدسات کی حرمت کے لیے ہم جان دینے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔چونکہ یہ بات پہلے سے ہی طے تھی بس کسی ایسے موقعے کی تلا ش میں تھا اوربس پھر اُن شرپسندوں کو موقع مل گیا۔ سب نے ثواب کمانے کی خاطر محض پوری آبادی میں تین گھروں کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ تین گھر سے مراد کے ستانوے فیصد مسلمان اور تین فیصد غیرمسلم جنہوں نے ستانوے فیصد کے دین کے لیے خطرہ پیدا کردیا ہے۔ کمال کی بات ہے نا۔
ہجوم جذبہِ تکفیر لیے تین گھروں اور جوتوں کی فیکٹری جوکہ ایک چھوٹی سی دوکان تھی جس کو فیکٹری سمجھ کو اہلِ علاقہ میں سے حسد کا شکار ہو رہے تھے۔ کوئی بہت بڑا کارخانہ ہوتا تو ناجانے اور کیا ہو جاتا۔ لہذا ہجوم نے اللہ اکبر کے نعروں سے ان بیچاروں پر ہلہ بول دیا۔
پولیس خلافِ توقع وقت پر آگئی یہاں تک کے اُس وقت بہت سی تباہی ہو چکی ہے۔ پھر بھی پولیس کے جوانوں نے سرکار سے لی گئیں تنحواہیں حلال کرتے ہوئے فرض شناسی کا مظاہرہ کیا اور تین گھروں کے خان دانوں کو مبینہ طور پر رسکیو کرلیا۔ بزر گ شہید آنسو گیس کی وجہ سے راستہ بھٹک گئے یا پھر اُس ہرن ماں کی طرح اپنے بچوں کو بچانے کی خاطر بپھرے ہجوم کی طرف جا نکلے۔ یہ اُسی طرح کا ہجوم تھا جس کو ہمارے بے حد محترم آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان جڑانوالہ کے واقعہ میں “را ” کا ایجنٹ قرار دے چکےہیں۔
بحرحال،بپھرے ہجوم نے اُس تہترسالہ بزرگ پر اینٹوں اور پتھروں سے حملہ کردیا ہے۔ ہجوم جب حملہ کر رہا تھا تو وہ کوئی شخص نہیں بلکہ ہجوم تھا۔وہ شخص جس نے یہ آگ لگائی تھی اس کی تو کب سے سی ون تھرٹی میں ہلاکت ہو چکی ہے یہ تو اس کی بدروحوں نے بچے دے دیے ہیں جو اب ہماری گلی محلوں میں نفر ت میں ڈوبے صلیبی جنگ کرتے پھر رہے ہیں۔ لوگوں نے نہ پولیس کا خیال کیا نہ ایمبولنس کا۔ دنیا میں وہ دیس کافروں کا ہو یامسلمانوں کا یا ان کا بھی جن کا کوئی دین نہیں وہ بھی سرخ صلیب(ریڈ کراس) اور ایمبولینس کا احترام کرتے ہیں۔ جذبہِ تکفیر نے اس اَدْھ موئے بزرگ کو ایمبولینس میں نہیں بخشا اور پتھر مار مار کر بچانے والوں، ایمبولینس اور بزرگ کو قتل کردیا۔
بات یہاں بھی ختم نہیں ہوئی۔ حکام نے اُس لاش کو سرگودھا سے راولپنڈی پہنچایا ، اُسے سی ایم ایچ میں چند دن رکھا اور اس پر ایک پریس کانفرنس کر کے معاملے پر مٹی ڈالی،مسیحی برادری کے چند درباری لیڈرز کی تعریفیں کی اور لاش ورثہ کے حوالہ کردی۔ ہمارے سرکاری کے منصفین نے تاکہ پاکستان کی اقلیتیں پُراَمن رہیں ۔اُس کے ڈیتھ سرٹیفیکٹ پر لکھ دیا؛

Not Valid for Court

مطلب شہیدلعزر عرف نذیرمسیح کی قبر پر لکھ دیا؛ ”بولے تو مارے جاؤگے“ پھر بھی ہمارے جلسوں میں یہ جملے اکثر سننے کو ملتے ہیں؛

“آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے
گرجا گھروں میں یا پھر کسی بھی عبادت گاہ میں۔
ریاست کو اِس سے کوئی سروکار نہیں۔”
یا پھر
“اقلیتیں ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں۔”
“اقلیتیں ہمارے لیے وی آئی پیز ہیں۔”
“اقلتیں مقدس امانت ہیں۔”

بہت شکریہ۔ پاکستان پائندہ باد۔

نوٹ: “تادیب”کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ “تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading