مَیں 2010 سے اب تک تین بار نیپال جا چکا ہوں اس لئے کہ مجھے قدرتی حسن سے محبت ہے۔اور قدرتی حسن وہاں بام عروج پر ہے جدھر نظر اٹھائیں بہتی ہوئی ندیاں،گرتی ہوئی آبشاریں ،اڑتے ہوئے بادل، درختوں کے تنوں سے ٹہنیوں تک لپٹی ہوئی بیلیں زمین کی سطح سے پہاڑوں کی چوٹیوں تک درختوں کی قطاریں،قدرت کا یہ حسن میں چاہوں بھی تو الفاظ کی مالا میں پرو نہیں سکتا،مزے کی بات یہ ہے کہ نیپال جانے کے لئے آپ کو ویزے کی ضرورت نہیں ، بس ٹکٹ لیں سیٹ بک کروایں اور چلیں جاہیں ہن آریطعل آپ کو ویزہ مل جائے گا اور ہاں آپ ایک ہفتہ کے لیے جائیں آپ کو ایک ماہ کا ویزہ ملے گا۔ اور یہ صرف اس لئے کہ ان قدرتی حسن کے دیوانوں کے آنے پر ان کے ملک کو فائدہ ہے اور زر مبالغہ ملتا ہے۔اور وہ اس قدرتی حسن سے پورا پورا فاعدہ اٹھا رہے ہیں۔
میں جب بھی گیا ہوں مجھے ائیرپورٹ سے باہر نکلنے میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں اس لئے کہ جو فلائٹ بھی آتی ہے وہ دوسرے ممالک کے لوگوں سے بھری ہوتی ہے جن کوویزا سٹیمپ کروانے میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں اور جس میں نوے فیصد لوگ ٹورسٹ ہوتے ہیں ،جنہیں قدرتی کا حسن یہاں کھینچ لاتا ہے۔
سب سے اچھی بات یہ ہوتی ہے کہ آنے والوں پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہوتی نا مذہبی نا معاشرتی نا سماجی اور نہ اخلاقی کیونکہ جو دوسرے ملک سے آتا ہے وہ کبھی بھی اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔
ہمارے وطن عزیز میں شمالی علاقہ جات قدرتی حسن سے بھرے پڑے ہیں۔۔ایک سے بڑھ کے ایک جگہ قدرت کا شاہکار ہے تاحد نظر آبشاروں ،جھرنوں،چشموں اور قدرتی جھیلوں کو دیکھ کر انسان اس طاقت واحد کے بے اختیار گن گانے لگتا ہے۔
مجھے1993 میں پہلی بار بیوی بچوں کے ساتھ سوات جانے کا اتفاق ہوا تھا۔اپنی فور ویل پوٹھوہار جیپ اور ڈرائیور کے ساتھ،مری سے نکل کر مالاکنڈ کی پہاڑیوں کے چوگرد گھومتی ہوئی سڑک اور پھر منگورہ سوات سے کچھ پہلے سورج مکھی کے پھولوں کی طرح قد آور پھولوں کے پودے۔۔۔جنہوں نے منگورہ پہنچ کر ہمیں بے چین کیا اور ڈرائیور اور بچوں کو کیمپ والے ساتھیوں کے ساتھ چھوڑ کر اہلیہ محترمہ کے ساتھ وہاں آئے اور تصاویریں بنائیں۔۔۔میرے اور میری بیوی کے سوا وہاں کوئی نہیں تھا۔تا حد نظر کھیت ہی کھیت یا پھر ایک دو گذرتے ہوئے لوگ۔کوئی ڈر کوئی خوف نہیں۔۔کسی کو زبان پر،لباس پر اور نہ فوٹوگرافی پر اعتراز۔۔۔نہ ہمارے ہنسے،مسکرانے اور قہقہوں پر پابندی ۔۔۔جتنے روز وہاں رہے منگورہ کے اردگرد چھوٹی چھوٹی وادیوں جن میں مرغزار،فضا گھٹ، ملم جبہ اور ایسی کئی اور ۔۔۔پھر منگورہ سے وادی کلام اور گلیشرز تک جانا نہ چاند کے نکلنے اور نہ سورج کے ڈو بنے کا خوف،نہ کوئی دہشت گردی اور نہ ہی کوئی وحشت گردی۔۔۔مہمان نواز لوگ اور پر سکون ماحول تھا۔
اس کے بعد 2005 میں پھر ایک یوتھ کیمپ کے ساتھ سوات سے کچھ باہر ایک پر فضا مقام” باغ ڈھیری” جانا تھا منگورہ سے کچھ فاصلہ تھا سواری والی ویگن میں سوار ہوا ،میرے آگے والی سیٹ پر ایک جوڑا بیٹھا تھا۔۔۔لاشعوری طور پر سیٹ تنگ ہونے کی وجہ سے میرا ہاتھ خاتون کو لگ کیا اس کے خاوند نے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور غصے سے کچھ کہا لیکن میں برداشت کر گیا اور ز ندگی بچ گئی۔۔۔یہ صرف اس لیے ذکر کیا ہے کہ 12 سال میں وہاں کے لوگوں کے رویوں میں یہ تبدیلی آئی ہے ۔
اب چند دن پہلے توہین مذہب کا واقعہ ہوا ہے۔اور یہ وہاں ہوا ہے جہاں لوگ ذہنی سکون کے لئے جاتے ہیں ،زندگی کے تفکرات سے آزاد ہونے کے لئے جاتے ہیں ،روز مرہ کی ذہنی کوفت سے کچھ دن آزاد ہونے کے لئے ،وہاں کے کاروباری لوگوں کے کاروبار کو چار چاند لگانے کے لئے ،سیرو سیاحت کے ادارے کو مضبوط کرنے کے لئے اور وطن عزیز کی ترقی اور کامرانی کے لئے ،لیکن ہم ہیں کہ پوری دنیا میں اپنے ملک کا تاثر خراب کر رہے ہیں اور مالی طور پر نقصان پہنچا رہے ہیں۔ہمارے شمالی علاقہ جات اپنے قدرتی حسن اور دلکش نظاروں کی وجہ سے دنیا میں مشہور ہیں۔کون آئے گا یہاں اور ہم جو قدرتی نظاروں سے محبت کرتے ہیں کیوں جائیں گے وہاں میں جو اس حسن سے عشق کی حد تک محبت کرتا ہوں ۔۔۔محبت کرنا چھوڑ دوں کیا ۔۔۔!! یا پھر ان نظاروں کی تلاش میں دیار غیر میں بھٹکتا پھروں۔
نوٹ: “تادیب”کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ “تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔
*******