جنت کے انسانی حقوق : ایورسٹ جان

لوگ اکثر پوچھتے ہیں، “جنت کامل ہو گی، لیکن بے گناہ ماحول کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم گناہ نہیں کرسکتے؛ آدم اور حوا نے ثابت کیا تھا کہ وہ ایک بے گناہ ماحول میں رہتے تھے، پھر بھی انہوں نے گناہ کیا۔ جنت میں انسانی حقوق کو سمجھنے کے لئے اس فلسفے کو جاننا ضروری ہےکہ ” قیامت کے بعد، خدا ہمارے ساتھ ہماری جگہ پر رہنے کے لیے نیچے آئے گا؟ یعنی مستقبل کا آسمان، نئی زمین پر، “ہم خدا کے ساتھ” نہیں بلکہ “خدا ہمارے ساتھ” ہوگا۔”جو کہ مکاشفہ 22:3 کی تشریح ہے۔ اور افلاطوں اور فلو (یہودی) سکالر کا متفقہ نظریہ بھی یہی ہے۔ لیکن میرے آج کے مضمون کا مطلب اس نظریے کا پرچار نہیں، بلکہ اپنے ذہن پر دباؤ ڈالنا ہے کہ جب ہم جنت میں جائیں تو وہاں موجود ان لوگوں کو دیکھ کر پریشان نہ ہو جائیں جن کو ہم دنیا میں ناقابل جنت سمجھتے تھے۔
دراصل میرے ہاں جنت میں جانے کا سلسلہ یا خیال کیسے شروع ہوا؟ مَیں نے “اُس” سے کہا کہ کیوں نہ ہم بچپن والی آنکھ مچولی کھیلیں، میں دوسری دنیا میں چھپنے کے لئے چلا جاتا ہوں تم مجھے وہاں ڈھونڈنے کے لئے آ جانا۔ میں فردوس یا جنت چلا گیا مگر وہ نہ آئی۔ جب میں دروازے سے داخل ہوا تو میں حیران ہو گیا۔ الحھن میں پڑ گیا اور پریشان، کہ جس جنت کا ساری عمر سنتے آئے تھے اتنی ویران جگہ پرہوگی۔ نہ کوئی استقبالیہ سٹال، نہ نام کا اندراج، نہ سیکیورٹی چیک اپ، نہ کوئی فرشتہ لینے آیا، نہ خوب صورتی سے سجاوٹ، اور نہ ہی روشنیوں کی چمک دمک۔ شایدفرشتے اپنے دوسرے مہمانوں میں مصروف ہوں، میں بھی تو بن بلایا مہمان ہوں جو زمین سے دوڑ کر چھپنے کے لئے یہاں آ گیا ہوں، غلطی تو میری ہی ہے۔ باقی لوگوں کے یہاں آنے کے اوقات مقرر ہیں، مگر وہ سوچتے ہوں گے کہ یہ بے وقت آ گیا ہے تھوڑی سیر کرکے واپس چلا جائے گا۔
لیکن یہ جنت کےلوگ کون ہیں؟ او، دیکھو یہ تو میرا کلاس فیلو ہے ساتویں کلاس میں ہم اکٹھے پڑھتے تھے۔ نہایت ہی شرارتی لڑکا، میرا لنچ چرا لیتا تھا اور میرے بیگ سے پیسے بھی نکال لیتا تھا۔ او جی، وہ دیکھو، میرا پرانا پڑوسی، بہت ہی بدتمیز انسان۔ جب ہمارا کرکٹ کا گیند اس کے گھر چلا جاتا، جو بھی دیوارپھلانگ کر وہاں سے گیند لینے جاتا ،وہ اپنے کتے چھوڑ دیتا تھا۔ لو جی یہ رہی ہمارے محلے کی کپتی بڑھیا جو ہر آنے جانے والوں کو گالیاں نکالا کرتی تھی، یہ بھی یہاں؟ جبکہ سب کہتے تھے کہ یہ یقیناًجہنم کی آگ میں سڑے گی۔ آگے چلتے چلتے مجھے کئی گناہ گار ملے جن کے کرپشن کے قصے زمینی اخباروں کی زینت تھے، کوئی کسی مقدمے میں جیل میں تھا، کوئی کسی اور جرم کی سزا کاٹ رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ کیا ميں غلطی سے دوسری جگہ تو نہیں آ گیا جس کا ذکر کتابوں میں پڑھا تھا اور علما سے سنا تھا۔ نہیں ،ایسا تو نہیں ہے کیونکہ کہیں کہیں اچھے لوگ بھی نظر آئے جو اپنے نیک کاموں کی وجہ سے مشہور تھے، بہت تھے جن کا نام میں نہیں جانتا تھا۔ لیکن اندر ہی اندر میں ایک عجیب کیفت میں مبتلا تھا ، کیوں میں نے اپنے کاموں میں احتیاط کی، کبھی کسی کا دل نہ دکھایا تاکہ جنت میں جاسکوں، لیکن یہاں کا ماحول ہی مختلف تھا، میری سمجھ سے باہر، پوچھوں تو کس سے پوچھوں، یہاں کوئی انچارج نظر ہی نہیں آ رہا تھا۔
میں تو آنکھ مچولی کھیلتا ہوا یہاں چھپنے آیا تھا، مگر یہ ماحول دیکھ کر میں اپنا کھیل تو بھول گیا مگر ایک ایسے کھیل میں پڑ گیا جو زمین پر کھیلا نہیں جا سکتا۔ مجھے اِنجیل میں لکھا ہوا پولوس رسول کا بیان یاد آ گیا “کسی آنکھ نے نہیں دیکھا، نہ کسی کان نے سنا، نہ کسی دماغ نے سوچا جو خدا نے اپنے پیاروں کے لیے تیار کیا ہے‘‘ (1- کرنتھیوں 2:9)۔ واقعی یہ سوچ دنیا کے کسی انسان نے نہیں سوچی کہ ایسے لوگ بھی جنت میں مل جائیں گے جو جنت کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔ خیر رب کی باتیں رب ہی جانے۔ میں سر جھکا ئے سوچ ہی رہا تھا کہ ایک سایہ میرے سامنے آ کھڑا ہوا، میں نے سر اٹھایا تو دیکھتا ہوں کہ میری جوانی کا دوست “منو بھائی” کھڑا ہے۔ میں اس سے پوچھنے ہی والا تھا کہ او منو تو یہاں کیسے؟ میرے بولنے سے پہلے ہی وہ بولا اوے چھوٹو تو یہاں کیسے؟” اس کے اس سوال نے میری عقل ٹھکانے لگا دی، کہ اگر میں ان غیر متوقع لوگوں کو دیکھ کر پریشان ہوں تو وہ بھی مجھے دیکھ کر پریشان ہیں، یہ کہ وہ میری یہاں آمد کی توقع نہیں رکھتے تھے۔ میں نے بڑی پریشانی میں اپنے دوست سے سوال کر ہی ڈالا، منو بھائی ذرا یہ بتاؤ کہ گنہگار لوگوں کا یہاں کیا کام؟ اس نے جواب دیا، وہ سامنے جو بڑی سی بلڈنگ دیکھ رہے ہو وہاں چلے جاؤ، تمھیں تمھارے سوال کا جواب مل جائے گا۔ میں اس بلڈنگ کی طرف چل پڑا، جب پہنچا تو بلڈنگ کے اوپر بورڈ پر لکھا ہوا تھا، “آرگنائزیشن آف ہیومن رائٹس ان پیراڈائز” یعنی “تنظیم برائے انسانی حقوق، جنت”۔ وہاں ایک لمبی لائن لگی ہوئی تھی، میں بھی لائن میں لگ گیا، جب میری باری آئی تو ایک خوب صورت لڑکی مجھے اندر لے گئی، اتنی خوب صورت لڑکی زمین پر کبھی نہیں دیکھی۔ شاید وہ کوئی فرشتہ تھی۔
مجھے کمرے میں میز کے سامنے کرسی پر بٹھانے کے بعد وہ لڑکی بولی، لاؤ تمھاری درخواست کہاں ہے؟ میں پھر پریشان، کیسی درخواست؟ اس نے کہا جنت میں رجسٹریشن کی درخواست۔ میڈم میں تو آنکھ مچولی کھیلتا ہوا یہاں آ گیا ہوں اور اپنے ساتھی کا انتظار کر رہا ہوں میں نے اسے جواب دیا۔ پھر میں نے پوچھا کہ جنت میں اس تنظیم کا کیا کام؟ زمین پر کئی ملکوں میں ایسی تنظیمیں تو اپنے ملک سے بھاگنے والوں کو اسائلم دلواتی ہیں۔ اس نے جواب دیا یہاں بھی ایسا ہی ہے۔ یہ وہ گناہ گار لوگ ہیں جنھوں نے اپنے گناہوں کی کئی بار معافی مانگی، اپنے کیے پر پچھتاۓ بھی، مگر ان کے اپنوں نے، حکومتوں نے، عدالتوں نے، مذہبی راہنماؤں نے ان کی ایک نہ سنی، بلکہ ان کے اوپر گناہ گار ہونے کا ٹھپہ لگا دیا اور ان کو جہنمی قرار دے دیا، شاید ان کے پاس کسی کو معاف کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا، مگر یہاں تو ہے۔ ہماری تنظیم ایسے گناہ گاروں کی وکالت کرتی ہے اور معافی کا حتمی فیصلہ تو سپریم جج نے کرنا ہے، اس لئے ہم ان کے لئے جنت میں اسائلم یعنی پناہ کا انتظام کرتے ہیں جن کا اختیار ماتحت عدالتوں کے پاس ہے۔
ایسا جنتی نظامِ انصاف اور اس تنظیم کی خدمات دیکھ کر میر دماغ گھوم گیا، سوچا کیا میں کہیں جنت کی جیل میں تو نہی آ گیا؟ میں نے ہمت کرکے پھر پوچھا کہ دنیا میں تو بہت سے مذاہب کے لوگ بستے ہیں، جن کو جنت میں طرح طرح کے وعدے کئے گئے، کہیں حوروں کا وعدہ، کہیں دودھ اور شہد کی نہروں کا وعدہ، کہیں ہمیشہ کی خوشی کا وعدہ، جیسے جیسے ان کو مذہبی تعلیم دی گئی ہے۔ تو کیا یہ سارے انتظامات آپ کے پاس ہیں؟ اس فرشتہ شکل لڑکی نے کہا اس کا حل ہمارے پاس ہے۔ ہم نے ہر مذہب کی علیحدہ علیحدہ جنتیں بنائی ہوئی ہے۔ مسلمانوں کے لئے ان کے ایمان والی “جنت”، مسیحیوں کے لئے ان کے ایمان والی “فردوس”، یہودیوں کے لئے ان کے ایمان کے مطابق “عدن”، ہندوؤں کے لئے ان کے ایمان کے مطابق “سوارگالوکا”، بدھ مت کے لئے “سکھاوتی”، ایسے ہی تمام مذاہب کے لئے، تاکہ وہ ایک دوسرے کی جنتی سہولیات پر تنقید نہ کریں اور پھر کہیں یہاں بھی مذہبی جنگ نہ چھڑ جاۓ۔ اور اگر کسی کا کوئی مذہب نہیں مگر ان کے پاس گناہ کا پچھتاوا ہے اور وہ زمین پر اس کا اقرار کر چکے ہیں ان کے لئے “جنت العام” بھی موجود ہے۔ اب تم بتاؤ کس جنت میں جانا چاہتے ہو؟ میں نے کہا میراساتھی مجھے ڈھونڈنے کے لئے آتا ہی ہوگا اس سے مشورہ کر کے بتاتا ہوں۔ تھوڑی دیر کے بعد میرا آنکھ مچولی والا ساتھی وہاں آ پہنچا (آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ وہ کون ہو سکتا ہے)، مجھ سے پوچھنے لگا، یہاں اتنی خاموشی کیوں ہے؟ یہ گناہ گار لوگ یہاں کیوں ہیں؟ کیا خدا سے کوئی غلطی ہو گئی ہے؟ کیا ہماری مذہبی تعلیم غلط تھی؟ میں نے بھی اپنے دوست منو کی طرح کہا اس بلڈنگ کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ جاؤ اور “ان سے پوچھو”۔
میرے بھائیو، جنت کے اس سرپرائز تناظر میں یہ کہنا بہت ضروری ہے کہ ہم اکثر دوسروں کا فیصلہ کرنے میں کتنی جلدی کرتےہیں، بغیر جانے ہوئے کہ وہ اپنے کیے ہوئے اعمال پر کتنا پچھتاوا کر رہا ہے؟ اور کتنی بار خدا سے معافی کا طلب گار بھی ہو چکا ہے؟ ہمارا انصاف کا پیمانہ وہ نہیں ہے جو خدا کا ہے۔ ہم اس دنیا میں تو ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے، اور یہ رویہ جنت میں بھی برقراررکھنا چاہتے ہیں کہ “تو یہاں کیوں؟”،ہم خود ہی آسمانی انتظام کے منصف بن جاتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ کون جنت میں جا رہا ہے اور کون نہیں؟ ہم ان کا طرزِ زندگی ہی دیکھ سکتے ہیں۔ مگر کسی کے دل کو نہیں جانتے۔ ہمارے پاس کسی کے طرز زندگی پر پولیس کی طرح مسلط ہونے کا کوئی اختیار نہیں، ہمیں اپنی ہی زندگی کا خیال ہونا چاہیے۔ کیا ہم اپنے غیر جنتی کاموں پر شرمندہ ہیں؟ کیا ہم نے خدا کے سامنے معافی کی درخواست کی ہے یا نہیں؟ اگر کی ہے تو یاد رکھیے کہ آپ کے گناہ گار ہوتے ہوئے بھی بہت سے فرشتے یا “تنظیم برائے انسانی حقوق، جنت” آپ کی وکالت کرنے کو تیار ہیں۔ جی ہم جانتے ہیں کہ ہم جنت میں جاکر حیران ہوں گے اور دوسرے بھی ہمیں دیکھ کر حیران ہو سکتے ہیں اور ہر کوئی یہی کہ رہا ہوگا کہ “یہ یہاں کیسے؟” مگر اس کا جواب صرف “اس کے پاس” ہے جس نے جنت کو بنایا ہے۔ جس طرح کسی دوسرے ملک میں اسائلم ہمارا استحقاق نہیں اسی طرح جنت پر بھی ہمارا کوئی استحقاق نہیں۔ یہ صوابدید صرف جنت بنانے والے کا ہے۔
لیکن یاد رہے کہ جنت میں انسانی حقوق کی تنظیم آپ کی مدد اسی لئے کرے گی کہ آپ کے پاس توبہ کا سرٹیفکیٹ موجود ہے، وہ آپ کے دلوں کو جانتے ہیں، وہی آپ کا سرٹیفکیٹ ہے!
اب رہی میری اور میرے ساتھی کی بات، ہم ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ ہم جنت میں رہ بھی سکتے ہیں کہ نہیں؟ کیوں کہ ہمارے پاس جنت میں اسائلم کے لئے کاغذات مکمل نہیں ہیں، یا تو ہمیں واپس زمین پر بھیج دیا جائے گا یا پھر جہنم کی طرف دھکیل دیا جائے گا۔ میں اب سمجھا کہ یہ سب الہٰی انتظام ہے، کوئی آنکھ مچولی کا کھیل نہیں۔خداوند زندہ خدا آپ کو کلامِ مقدس کی سچائیوں کو سمجھنے کا شرف بخشے ۔آمین

نوٹ: “تادیب” کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ “تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading