دنیا عجائب گھر ہے۔اس میں رنگ برنگی حقیقتیں قدرت کی ترجمانی کرتی نظر آتی ہیں۔ہر جگہ اپنے اندر مختلف رنگ، روپ ، تجربات ، مشاہدات، تصورات، نظریات اور خوبیوں کا جم غفیر رکھتی ہے۔ یوں کہہ لیجیے ہر جگہ کے اپنے آثار و کیفیات ہیں۔لہذا اس کے درجات ، پیمانے، موجودات، حاصلات اور ثمرات فرق فرق نوعیت کے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر دنیا میں کہیں صحرا ہے تو کہیں سرسبزو کھلیان۔ کہیں میدان ہیں تو کہیں پہاڑوں کے جتھے۔خیر دنیا کسے اچھی نہیں لگتی۔کیونکہ یہاں کی رونقیں ، محفلیں ، میلے ، باتیں اور یادیں اپنے اندر سمندر جیسا بہاؤ اور پہاڑوں جیسی طاقت رکھتی ہیں۔ یہ بات مبالغہ سے بالاتر ہے کہ انسان دنیا میں جو کچھ کرنا چاہتا ہے۔ وہ سب کچھ فوق الفطرت اور قوت ارادی کہ جذبہ سے معمور ہو کر حاصل کر سکتا ہے۔
آپ دنیا میں جہاں بھی جائیں اپنی خواہشات کے مطابق موسم آباد کر سکتے ہیں۔کیونکہ انسان جیسا بیج بوتا ہے ویسی ہی فصل کاٹتا ہے۔اس لیے یہ کہنا حق بجانب ہے کہ” جیسا کرو گے ویسا بھرو گے”۔ بلا شبہ زندگی نیکی اور بدی کے تصور کو اجاگر کرنے میں پیش پیش ہے۔یہ انسان پر فرض ہے کہ وہ کون سا راستہ چنتا ہے۔ اس کا انتخاب مثبت ہے یا منفی۔اس حقیقت کو دکھانے کے لیے کردار بہترین آئینہ ہے جو سو فیصد صاف صاف تصویر دکھاتا ہے۔ زندگی میں نیت اور خلوص کو زوال نہیں۔ کیونکہ یہ ہر جگہ بغیر کسی سفارش کے اپنی جگہ بنا لیتے ہیں۔ انہیں محض ٹٹولنے اور محسوس کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ ایک فطری الجھن ہے کہ انسان جس راستے کا انتخاب کر لے۔ وہی اس کی منزل بن جاتا ہے۔ انسانی فطرت نرم کونپل کی مانند ہے۔اسے جس جانب موڑو اسی زاویے پر اپنا گھر بنا لیتی ہے۔ انسانی زندگی اپنے اندر محسوسات اور جذبات کا قرض رکھتی ہے۔جب یہ قرض بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے تو وہ اپنے اثرات و نقوش ضرور چھوڑتا ہے۔ چنانچہ یہ اثرات کسی کو اسیر بنا لیتے ہیں اور بعاض کو بوجھ تلے دبا دیتے ہیں۔ ان ساری باتوں کے باوجود اس حقیقت کو یوں مان لیجئے کہ زندگی ایسی پرفضا بہار ہے۔
اسے جتنا زیادہ قریب سے محسوس کریں گے یہ اسی قدر خوشگوار لگنے لگتی ہے۔بات جذبات کے طوفان کی ہو یا کسی آنکھوں دیکھے منظر کی۔ وہ اذہان و قلوب پر خوشگوار یا ناگوار اثرات ضرور مرتب کرتی ہے۔ اگرچہ زندگی دکھ سکھ کا بندھن ہے۔ دنیا میں کہیں دکھوں کا درجہ حرارت ہے تو کہیں سکھ کے دروازے کھلے ہیں۔ اسی آثار و کیفیات میں میں ایک گلشن میں داخل ہوتا ہوں۔ وہ مجھے باہر سے بہت خوش نما لگتا ہے۔ میری دلچسپی مجھے آہستہ آہستہ گلشن میں داخل ہونے کی اجازت دے دیتی ہے۔ میری آنکھوں میں وہ تمام دلکش مناظر سما جاتے ہیں۔ جن کی شہرت کے بارے میں سن رکھا تھا۔اب میں ایک ایک منظر کا درشن کرتا جاتا ہوں۔ انہیں دیکھ کر میرے باطن میں ایسی قابل قدر دلی مسرتیں کروٹیں بدلنے لگتی ہیں۔جیسے میں نے کبھی کوئی غم نہیں دیکھا۔چنانچہ میری خوشی دگنا ہو جاتی ہے۔اسی وجدان میں مزید دیدار کا منتظر ہوتا ہوں۔ کیونکہ تڑپ اور لگن میرے تجسس کے اہم جز ہیں جو مجھے مزید تسخیر کے لیے اکساتے ہیں۔میں جس چیز کو بھی دیکھتا ہوں۔ وہ سب ایک دوسرے سے بڑھ کرنظر آتی ہے۔مجھے دیدار کے سارے واقعات دیکھ کر ہر چیز کے خد و خال اور حسن و جمال ایک دوسرے سے منفرد اور دلکش لگے ہیں۔میں سلیقہ مندی کی بات کروں تو وہ بھی لاجواب ہے۔ تہذیب و تمدن سے آراستہ لوگ ترقی کی طرف رواں دواں ہیں۔مادیت ان کی زندگی کا حاصل ہے۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے بڑھ کر محنت کی چکی پیس رہا ہے۔ شب و روز
صروفیت کے کانٹوں پر چل رہا ہے۔ حالات اور موسموں کا سخت مقابلہ کر رہا ہے۔ان کے صبر اور محنت کا صلہ خوشحالی ہے جو ان کے قدم چومتی ہے۔ ان کا ادب و ثقافت زعفران جیسی خوبیوں کا مالک ہے۔ وہ اپنی اقدار و روایات کا اس قدر بھرم رکھتے ہیں کہ لوگ رشک و تحسین پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ظاہری ٹھاٹ باٹھ بھی بے مثال ہے۔
ان کا تہذیب و تمدن افقی معیار کو ظاہر کرتا ہے۔گھریلو آرائشیں خوب چمک دمک رکھتی ہیں۔ جس گھر میں بھی داخل ہو جاؤ وہاں سب کچھ منفرد اور دلکش ہے۔انفرادیت کے لبادے میں ملوث ہے۔ تعلیم و تربیت اور شعور و آگاہی نے انہیں بلند مقام عطا کیا ہے۔وہ بہت محنتی اور جفا کش لوگ ہیں۔ اس گلشن میں صبح و شام آمد و رفت کا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے۔ میں ان سب باتوں کا راز جاننے کے لیے وہاں قیام پذیر ہو جاتا ہوں۔منشی امیر اللہ تسلیم کہتے ہیں؛ ؎
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے
میرا قیام وہاں عارضی ہے۔میں اپنے اندر ملنساری اور اخلاقی قدروں کا جذبہ رکھتا ہوں۔میرے خدا کی محبت مجھے مجبور کرتی ہے کہ میں لوگوں کے درمیان اس میراث کو بانٹوں جس مقصد کے لیے میں دنیا میں آیا ہوں۔ میں کمزوری کی حالت میں دنیا کی باتوں سے بے نیاز ہو کر ملنساری کا ہاتھ بڑھاتا ہوں۔لیکن ہر کوئی جلد بازی میں ہے۔ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے بھاگ رہا ہے۔مجھے شاید ایسا لگتا ہے جیسے لوگ وقت کے ہاتھوں مجبور ہیں۔مقابلہ بازی کی فضا نے ہر کسی کو مصروفیت کے جال میں پھنسا کر رکھا ہوا ہے۔شاید لوگوں کے پاس ملنے کے لیے وقت نہیں۔کیونکہ وہ وقت کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ ایسا لگتا ہے انہوں نے اپنی بے بسی کے باعث کترانے کا فن خوب سیکھ رکھا ہے۔ وہ انسان کو پہچانے اور لحاظ کیے بغیر گزر جاتے ہیں۔
وہ اپنے بزرگوں کی اقدار و روایات کا بھرم رکھنا چاہتے ہیں۔لیکن وقت انہیں اجازت نہیں دے رہا۔ کیونکہ ان کے اذہان و قلوب میں حاصلات کی جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ ان کے وجود کے گرد خواہشات کی بیلیں لپٹی ہوئی ہیں۔ وہ ان کی پرورش کے خواہش مند ہیں۔ کیونکہ گلشن میں جب اونٹ کٹارے اگ آتے ہیں۔ تو جن پودوں اور پھلوں نے پرورش پانی ہوتی ہے۔ وہ اپنے قدو قامت میں بونے رہ جاتے ہیں۔انہیں شاید وہ ماحول اور آب ہوا میسر نہیں آتی جس کے باعث بڑھوتری کا عمل رک جاتا ہے۔ان کی فطرت میں خواہشیں اور آسائشیں آنکھ مچولی کا خوب کھیل کھیلتی ہیں۔ اس کھیل میں سارا گلشن مگن و شاد ہے۔ ہر وقت بازاروں اور گلیوں میں سناٹا چھایا رہتا ہے۔ لوگ مخصوص وقت پر گھر سے نکلنے کے عادی ہیں۔ لوگوں کی آنکھوں میں خاندانی ترقی کے خوبصورت خواب و رویا ہیں۔ وہ ان کی تعبیر کے لیے شب و روز سرگرم ہیں۔لوگ اس قدر نفیس ہیں کہ بعض اوقات ہاتھ ملانے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ شاید کام کی زیادتی کے باعث ان کے ہاتھوں سے محبت کی چکناہٹ کم ہو گئی ہے۔
اُنہوں نے دُور سے مسکرانے کی عادت پختہ بنا رکھی ہے۔ایسا لگتا ہے جیسے گفتگو کرنے سے ان کے لبوں پہ پپڑی جمتی ہے۔اس ساری منظر کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے لوگوں کے درمیان حادثاتی اور فاصلاتی حدیں قائم ہو چکی ہیں۔ان حدوں کو کوئی بھی تجاوز کرنا نہیں چاہتا۔ہر کوئی اپنی دنیا میں مگن و شاد ہے۔شاید یہ خود غرضی ہے یا خود فریبی کا جنون۔ میری آنکھوں میں ہر روز یہ مناظر سفر کرتے ہیں۔ لیکن تعجب ہے یہ مجھے حقیقی خوشی نہیں بخشتے۔ سیرو آسودہ نہیں کرتے بلکہ شب و روز میرے جذباتی اور نفسیاتی عوارض میں اضافہ کرتے ہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے لوگ حقیقی محبت سے خالی ہیں۔ انہیں محض دنیاوی تعمیر و ترقی کی کشش نے پاگل کر رکھا ہے۔ وہ ایک ایسے نشان کی طرف دوڑ رہے ہیں۔جہاں دنیاوی لذتیں ، آسائشیں اور مسرتیں بہت زیادہ ہیں۔ لیکن وہاں روحانیت خال خال نظر آتی ہے۔ زبانی کلامی روحانیت پنپنے کے دعوی زبان زد ہیں۔لیکن سب ہیر پھر نظر آتا ہے۔سب کچھ رسمی اور لمحاتی ہے۔ سنگدلی اور خود غرضی بہت نمایاں ہے۔ منہ میں بڑے بڑے بول ہیں۔ زبانیں خاموش ہیں۔وہ اپنے مفاد کی خاطر ہر بات پر سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔دوسروں کو ناچیز سمجھنا ان کی فطرت کا خاصہ ہے۔ہر ایک کے الگ الگ دعائیہ بخور ہیں۔ وہ انہیں خوب جلاتے ہیں۔پتہ نہیں ان میں خدا اترتا ہے یا نہیں۔ بہرحال یہ معاملہ خدا پر چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ باتوں سے روحانیت کا چراغ جلاتے ہیں یا حقیقی ایمانداروں کی جماعت ہیں۔ وہ خود کی تاج پوشی کروانا اپنا مذہبی فرض سمجھتے ہیں۔ میں ان ساری باتوں پر غور و خوض کرتا ہوں۔ خواب میں ایک تجزیاتی رپورٹ دیکھتا ہوں جس پر بھیانک عبارت لکھی ہوئی ہے۔ جس کا عنوان گلشن میں ویرانی ہے۔
*******