گیان بولتا ہے : بیرسٹرسفینہ سلیم

انسان نے جب سے اپنے باطن کی پہلی دستک سنی ہے تب سے ایک ایسی زبان وجود میں آتی رہی ہے جو حرف کی قید میں نہیں آتی۔جہاں بیان کےلئےخاموشی اورحکمت استعمال ہوتی ہے اسی زبان کو صوفیاء نے گیان کہا ایک ایسی باطنی معرفت جو لفظوں میں ظاہر ہونے سے پہلے روح میں اترتی ہے اور ظاہر ہونے کے بعد بھی اپنے اصل معنی دل کی گہرائی میں رکھ کراسے مشعلِ عشق بنادیتی ہے۔ گیان کوئی شاعرانہ صنعت نہیں یہ دراصل اُس نور کا اظہار ہے جو انسان کے خاموش ترین مقام میں شعور کی روشنی سے چمکتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ گیان کی فضا میں نہ بلاغت کا غرور ہے نہ فلسفے کی الجھنیں یہاں صرف وہ انکشاف ہے جو خود کو منوانے نہیں بلکہ اپنی تلاش کرتے خود کوکھوجنے آتا ہے۔
تاریخ کے ہر دور میں ہندوستان کے ناتھ یوگیوں سے لے کر فارسی زبان کے صوفیاء تک اور مغربی مِسٹکس سے جدید فکری و انقلابی شاعروں تک گیان ایک ہی سانس میں چلتا رہا ہے۔ یہ صدیوں کا سفر کبھی رومی کی مثنوی میں چمکا کبھی حافظ کی غزل میں ظاہر ہوا کبھی منصور کے نعرۂ اناالحق میں بول اٹھا اور کبھی انگریزی مفکر ایمرسن کے اس قول میں کہ
“Knowledge is the light of being.”
”معرفت ذات کی روشنی ہے“
اسی قدیم روایت کا جدید رنگ آفتاب جاوید جیسے شعرا کے مختصر مگر گہرےمعنی خیز گیانات میں نظر آتا ہے۔ ان کے گیان نہ صرف مختصر ہیں نہ محض شاعرانہ تاثرات دیتےہیں بلکہ یہ دراصل اُس باطنی بیداری کے ٹکڑے ہیں جو صوفیانہ تجربے کے گہرے سمندر سے اُبھر کر سطحِ لفظ تک آتے ہیں۔ کیونکہ جب انسان کی روح حرف و لفظ کی آشنائی کے نور سے بھر جائے تو وہ اپنےظاہرسےباطن کا سفر کرتے ہوئے تمام دنیاوی مقامات
سےبےنیازہوجاتاہے۔
گیان ہمیشہ سے انسان کے باطن کے لیے اُس چراغ کی حیثیت رکھتا ہے جو بے نام گلیوں میں بھی راستہ دکھاتا ہے۔ یہ وہ روشنی ہے جو سمع و بصر سے ماورا ہے مگر دل کی کسی پوشیدہ دیوار پر لکھی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ آفتاب جاوید جیسے شاعر جب اپنے تجربۂ روحانی کو مختصر مگر گہرے اور دہکتے ہوئے مصرعوں میں بیان کرتے ہیں تو وہ دراصل ہزار برس پرانی صوفی روایت کو جدید احساسات کے ساتھ جوڑتے نظرآتےہیں۔ اور اپنی نسبت کو عشق کےترازو پر رکھ کرلکھتےہیں؛
”میں وہ دروازہ ہوں
جو خیمۂ سادات کے
بجھے ہوئے چراغ سے کھلتا ہے‘‘
یہ گیان صرف شناخت کا بیان نہیں بلکہ ایک نسبت کا اعلان بھی ہے۔
آفتاب جاوید جیساقلم کار خود کواُس دروازے پر کھڑا دیکھتاہے جو ظاہری روشنائی سے نہیں بلکہ باطنی سوز سے کھلتا ہے۔ یہ سوز بجھے چراغ کا ہےوہ چراغ جو پوری تاریخِ حق کو روشن رکھے ہوئے ہے۔
”مولا
میں تیرے درپر
اتنی دیر سے پڑا ہوں
کہ لوگ مجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دہلیز سمجھنے لگے ہیں”
یہ بابِ عبودیت بیان کرتا گیان ہے صوفیاء کے نزدیک دہلیز وہ مقام ہے جہاں انسان اپنی ذاتِ محدود کو چھوڑ کر ذاتِ لامحدود کے در پر کھڑا ہوتا ہے۔ یہی کیفیت شیخ ابو سعید ابوالخیر کے اس قول میں جھلکتی ہے
“درِ دوست پر ایستادن برتر از بہشت است.”
”دوست کے در پر کھڑے رہنا جنت سے افضل ہے“
دہلیز کا تصور رومی اور ابن عربی دونوں کے ہاں موجود ہے۔ مولانا جلال الدین رومی مثنوی میں لکھتے ہیں کہ
“چون درِ دوست کوبی خود کو گم کن.”
”جب دوست کے در پر دستک دو تو خود کو مٹا دو“
یہی کیفیت آفتاب جاوید کے گیان میں سادہ لفظوں کےپیراہن سےجھانکتی ہوئی نظرآتی ہے۔
“اُس نے
جوڑنے پر مامور کیا
میرا ٹوٹنا قبول ہوا”
فنا اور بقا کی منازل کو برقرار رکھتے ہوئے جن کے بغیرسالک کامل نہیں ہو سکتا
جاویدآفتاب مجھےوہاں کھڑانظرآیاجہاں انسان خود کومطمئن محسوس کرتاہے۔ خواجہ فریدالدین عطار “منطق الطیر” میں لکھتے ہیں
“فنا شو، تا بقا یابی.”
”فنا ہو جاؤ تاکہ بقا پا سکو“
یہی مفہوم جدید انگریزی مابعدالطبیعیاتی شاعر ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کی لائن میں ملتا ہے
“In my end is my beginning.”
”میری انتہا ہی میری ابتدا ہے“
گیان میں جس ٹوٹنے کی قبولیت کا ذکر ہے وہ دراصل اسی باطنی سرنگ کا پہلا دروازہ ہے جس کے بعد جوڑنے کا عمل شروع ہوتا ہے۔
“میں تیرے کن سے روشن ہوں
میں پھونک مارنے والوں کی پہنچ سے باہر ہوں”
سنتِ عرفانی کاتسلسل بیان کرتاہوایہ گیان نورِ ازلی اور امرِ کن کی طرف اشارہ ہے۔ عرفانی ادب اسی حقیقت پر قائم ہے کہ انسان ایک نورِ ممکن نہیں بلکہ نورِ امر سے روشن ہے۔ امام غزالی مشکوٰۃ الانوار میں لکھتے ہیں کہ انسان کے اندر کی روشنی نور علیٰ نور ہے اور دنیا کی آندھیاں اس تک رسائی نہیں رکھتیں۔ اپنےعشق کی انتہابیان کرتے ہوئے آفتاب جاوید اپنےآپ سےبےخبر اورخود سےلاپتہ ہونےکااعلان کرتے ہوۓ کہتاہے
”عشق کی اس انتہا پر ہوں
کہ تیرے سوا
اپنا خیال بھی آئے
تو شرک لگتا ہے”
یہ مقام وحدت الشہود کی انتہا ہے۔ منصور حلاج کی چیخ انا الحق اسی جذب کی علامت تھی۔ فارسی صوفیہ میں حافظ شیرازی کہتے ہیں
“دل کہ از نامِ تو خالی شدہ باشد کافر است.”
وہ دل جس میں تیرا نام نہ ہو، گویا کافر ہے“
اور مغربی صوفی مزاج شاعر ویلیم بلیک اسی کیفیت کو یوں بیان کرتا ہے
“He who sees the Infinite in all things, sees God.”
”جو ہر شے میں لامحدود دیکھتا ہےوہی خدا کو دیکھتا ہے“
یہی کیفیت آفتاب جاوید کے گیان میں شدید لطیف انداز میں بیان کی گئ ہے۔
“تم کون
کہ ہر ملاقات کے بعد
میرے سفید پروں کے بیچ
کچھ سنہری پَر نکل آتے ہیں”
یہ کیمیائے روح ہے۔ رومی نے شمسِ تبریز کے بارے میں یہی لکھا تھا کہ
“تو آمدی و من طلا شدم.”
”تو آیا اور میں سونا بن گیا“
یہ گیان اس لطیف روحانی تبدیلی کا استعارہ ہے جو کسی خاص ہستی کی قربت سے انسان کے اندر جنم لیتی ہے۔ سفید پَر فطری پاکیزگی کی علامت ہیں جبکہ سنہری پَر اُس اضافی نور اور فیض کا نشان ہیں جو ملاقات کے بعد وجود میں شامل ہو جاتا ہے۔ شاعر کی حیرت تم کون؟
اسی پوشیدہ تاثیر کی طرف اشارہ ہے کہ کوئی ایسی ہستی ہے جس کی موجودگی انسان کو اس کی اصل سے زیادہ روشن اورباطن کو زیادہ سنہرا کر دیتی ہے۔
“وہ اتنا قریب بھی
دکھائی نہیں دیتا
کوئی ہے
جو ان آنکھوں کو
جہنم میں ڈال دے“
آنکھوں کوجہنم میں ڈال دینےکااستعارا احساسِ ندامت کا اظہار کرتےاس کیفیت کو بیان کررہاہے جسے صوفیاء عجزِ ادراک کہتے ہیں۔ خدا کی قربت اس قدر ہوتی ہے کہ شعورکی نظر واپس لوٹ آتی ہے اور انسان اپنے دیکھنے کی جسارت پر نادم ہو جاتا ہے۔
امام رازی نے تفسیر بیان کرتے لکھا تھا
“ادراکُہ لا یدرک، ھو الادراک.”
”اس کا ادراک کہ وہ ادراک میں نہیں آتا یہی اصل ادراک ہے“
آفتاب جاوید کے گیان مجھے کسی سبب کی خاموشی کے طول سے طلوع ہوتے نظرآتے ہیں۔
تمام گیان اس قدر مختصر ہیں کہ ان میں لفظ کم اور معنوی گہرائی زیادہ ہے۔ یہی صوفیانہ ادب کی روح ہے۔ فارسی صوفی شاعر سنائی غزنوی نے کہا تھا
“حرفِ کم، معنیٰ بسیار.”
(لفظ کم رکھو، معنی زیادہ رکھو“
انگریزی مِسٹک شاعر کیتھ لینگ کہتا ہے
“Mysticism is the shortening of language and the lengthening of silence.”
”صوفیانہ تجربہ زبان کو مختصر اور خاموشی کو طویل کر دیتا ہے“
گیان کوئی تحریر شدہ حکمت نہیں یہ دراصل ایک مسلسل سفر ہےجو
انسان کےظاہرسے شروع ہوکر اسےاپنے خالق کی پہچان کراتے اسےاس کےباطن سےروشناس کرتاہے۔
آفتاب جاوید کے گیان اسی روشن سلسلے کا نیا پڑاؤ ہیں جوانسان کے باطن پر وہ دستک دیتے ہیں جو صدیوں سے رومی، عطار، حافظ، بیدل، فرید اور سارے عارف اپنے اپنے انداز میں دیتے آئے ہیں۔
گیان کا سفر ختم نہیں ہوتا ہر پڑھنے اورلکھنے والا اسے اپنے اندر نئے معنی کے ساتھ دوبارہ زندہ کر دیتا ہے۔ شاید یہی اس کی معراج ہےکہ یہ لفظوں کی شکل میں ظاہر ہو کر بھی دراصل دل کی خاموشی میں بستا ہے اور وہیں سے اپنا راستہ روشن کرتا رہتا ہے۔ کیونکہ گیان کی یہ طرز دراصل ایک سلسلے کا حصہ ہے جو صوفیانہ حکمت سے نکل کر فارسی شاعری پھر اردو نثر و نظم میں داخل ہوا اور پھر جدید ادب میں نئی شکلوں میں سامنے آیا۔
اورخواجہ فرید، شاہ حسین، سچل سرمست کی باطنی واردات کا چراغ بنا تو رومی، سعدی، حافظ استعارات کی سلطنت پر حکمرانی کرتانظرآیا وہیں پرگیان اقبال کےعشق کو عمل میں ڈھالنے والی حکمت کی چادر اوڑھے حقیقت کےپردے کھولتارہا
اورجدید شعرا گہرائی کو مختصر مصرعوں میں سمیٹنے کی روایت برقرار رکھتے رہےاس سلسلے میں آفتاب جاوید جیسا شاعر اُس شعری وراثت کا وارث ہے جس میں ایک لفظ کئی جہان کھول دیتا ہے۔
اللہ تعالی آفتاب جاوید کےقلب کو نُورِ حق سے منور فرمائےاور یہ قلم کاحق اداکرتارہے۔
آمین الہی آمین
*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading