ایورسٹ جان کا شعری مجموعہ “گفتگو اُسی سے ہے ” :جاوید ڈینی ایل

ایورسٹ جان صاحب سے غائبانہ تعارف میرے ایک ملتانی دوست پروفیسر ڈاکٹر شوکت نعیم قادری صاحب کی وساطت سے تب ہوا جب اُنھوں نے ایورسٹ جان صاحب کا ایک مضمون ”ولادتِ مسیح کے عصری تقاضے“ دسمبر 2019ءکے شمارے میں اشاعت کے لئے دیا۔ اُس مضمون نے مجھے بہت متاثر کیا۔جس کے ذیلی عنوانات ”آج کا ہیرودیس۔ آج کا گڈریہ۔ آج کا مجوسی۔ آج کا نوجوان لڑکا۔آج کی نوجوان لڑکی۔“ مجھے آج بھی یاد ہیں جو تادیب کی زینت بنا۔اِس کے بعد ایورسٹ صاحب سے سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ ہو گیا۔ اور پھر یہی رابطہ ایک لکھاری اور مدیر کے رشتے سے بڑھ کر دوستی میں بدل گیا۔ ایورسٹ صاحب نہایت شفیق اور پیار کرنے والے دوست ہیں۔ ایورسٹ صاحب کے کئی مضامین، افسانے اور غزلیں ماہنامہ ”نیاتادیب “ کے ساتھ ساتھ’ تادیب‘ ویب سائٹ پر بھی شائع ہو رہے ہیں۔ایورسٹ صاحب کی کتاب”گفتگو اُسی سے ہے“پر بات کرنے سے پہلے میں بتانا چاہتا ہوں کہ گفتگو ایک بھرپوراور پُر معنی لفظ ہے۔ جب بھی کبھی گفتگو کا لفظ سامنے آتا ہے تو فوراً احمد فراز کا شعر یاد آجاتا ہے؛
گفتگو اچھی لگی ذوقِ نظر اچھا لگا
مدتوں کے بعد کوئی ہم سفر اچھا لگا
میرے بہت پیارے دوست شمیم عالم عظیم جو چند سال قبل خداوند میں سو گئے، اُن کا شعری مجموعہ چند وجوہات کے باعث ابھی تک شائع نہیں ہوسکا۔ اُنھوں نے اپنے شعری مجموعے کا نام “جمالِ گفتگو” رکھا۔میرا اپنا دوسرا شعری مجموعہ ”شفگتہ گفتگو تیری“ جو زیرِ طبع ہے۔ کہنا یہ چاہتا ہوں کہ ایورسٹ جان صاحب کی کتاب کا نام مجھے بہت اچھا لگا۔ گفتگو خالقِ کائنات سے ہو، گفتگو محبوب سے ہو،گفتگو ماں سے ہو، گفتگو باپ سے ہو یا گفتگو کسی دوست ہو۔ ہر کسی سے اندازِ گفتگو ، بیانِ گفتگو فرق ہو جاتا ہے۔آج ہم صرف ایورسٹ صاحب کی کتاب “گفتگو اُسی سے ہے ” پر ہی گفتگو کریں گے۔ایورسٹ جان کی اُس غزل کے دو اشعار دیکھیے جس سے اُنھوں نے کتاب کا نام تجویز کیا؛

اُس کے دَم سے قائم ہیں رونقیں اُداسی میں
میری خامشی میں سب ہاٰؤ ہُو اُسی سے ہے
ہر خیال میں ہے وہ، لفظ لفظ میں موجود
سب سخن وری میری ،گفتگو اُسی سے ہے
ایورسٹ صاحب کے اولین شعری مجموعہ “گفتگو اُسی سے ہے” بہت خوب صورت سرِ ورق اور تمام تر رعنائیوں کے ساتھ ہمارے ہاتھوں میں ہے۔
یہ کتاب اُردُو ادب میں ایک معیاری شعری اضافہ ہے جس میں ایورسٹ صاحب کی سخن بیانی، عمدہ مضامین،منظر کشی،اشعار کی خوب صورت بندش، بحور و اوزان کے ساتھ روانی اور موسیقت سے مزین ہے۔ایورسٹ جان نے فلسفہِ حیات اور چشمہ ِ حیات کو اپنی شاعری کا محور بنا کر کمال مہارت کے ساتھ عروض کے تمام تر تقاضوں کو نبھاتے ہوئے اپنی زندگی کے مشاہدات کو شعروں کے قالب میں ڈھال کر اپنے قاری کے سپرد کر دیاہے۔ ایک شعر ملاحظہ کیجیے؛
رابطہ رکھ ہم اُداس لوگوں سے
دیکھ پھر اِنتہا محبت کی !!
ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتے ہوئے کہتے ہیں؛
خوف سے بولتا نہ تھا کوئی
مجھ کو ہر شخص بے زبان لگا
ایورسٹ جان کی ایک غزل کے چند اشعار دیکھیے اُن کی شخصیت کے کئی پہلو نظر آئیں گے؛
سچ نکلتا ہے میرے ہونٹوں سے
جھوٹ پر اختیار رکھتا ہوں
ہنس کے سہتا ہوں زخم سینے پر
دَرد میں بھی قرار رکھتا ہوں
پھر عدُو کر نہ دے پلٹ کر وار
خود کو مَیں ہوشیار رکھتا ہوں
ہوش کھویا نہیں جنوں مَیں بھی
شخصیت پُروقار رکھتا ہوں
ایک اور خوب صورت شعر دیکھیے، کہتے ہیں؛
جھوٹ پہ تو خوش ہو جاتے ہیں لوگ یہاں
سچ بولوں تو سب کو کڑوا لگتا ہے!
منافق، بے رحم اور متعصب معاشرے میں مخلص ، وفادار ، شفیق انسان کو پہچاننا مشکل ہو گیا ہے، خود کلامی کرتے ہیں، ملاحظہ کیجیے؛
جان! نقاب ہیں چہروں پر، ہر شخص یہاں
ویسا کب ہوتا ہے جیسا لگتا ہے!!!۔
ایورسٹ صاحب کی ایک نظم ” میرے عجیب خیالات” بھی ضرور پڑھیے گا،چند لائینیں آپ کی نذر کرتا ہوں؛
اُس کا جواب نہ آیا
تو خود کو ہی خط لکھ کر
اپنے ہی پتے پر پوسٹ کر کے
اُس کا جواب سمجھ لیا

وقت کو ٹھہرانے کے لیے
اپنی گھڑی کی سوئیاں نکال دیں
مگر وقت نہ رُکا
شہر کے اُمراءنے
بچوں کے منہ سے نوالے چھین لیے
بچے آسمان سے مَن برسنے کے انتظار میں رہے

بہت خوب صورت اور عمدہ غزلوں، نظموں اور قطعات سے مزین اِس شعری مجموعے “گفتگو اُسی سے ہے” کی اشاعت پر پیارے دوست ایورسٹ جان کو دِل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
خدا کرے زورِ قلم اور زیادہ!

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading