موضوع کے لفظوں کا احاطہ اور گہرائی دونوں ایک ایک کرکے اپنی بناوٹ و شکل میں مکتوبی لحاظ سے فرق رکھتے ہیں تو اِسی اعتبار سے ملفوظی نقطہ نظر بہت خفیف ہے۔ یہ باریک سا فرق جب خیال میں آکر حرف و لفظ کی سکت بدلتا ہے تو کہیں کا کہیں جا کر اپنا مقام اور تمیز کا دائرہ متعین کر لیتا ہے جس سے داخلی و خارجی تضاد دونوں کا مدعا بولنے ، دیکھنے اور سمجھنے میں بسیرا کرتا ہے۔ جس سے بدلتی صورت حال کا اندازہ وقت ہی بتاتا ہے اس سے قبل بیان کرنا میرے بس کی بات نہ ہے۔
اول الذکر لفظ اور ثانی الذکر دونوں کا کردار مخالفانہ ہے۔ اندرونی و بیرونی جانچ پرکھ کے بعد یہ اقتباس ، نظریہ ، سوچ ، فکر اور واقعات کا ذکر ہے جو اردگرد روزانہ کی بنیاد پہ ہیں ان کا عکس بولنے والے اور اور سُننے والے کی نقالی تردید و تصدیق کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
جس طرح ایک بیج سے پودا ، پودے سے درخت اور پھل اپنے چھپانے کی اسطاعت ہے ایسے ہی حرف و لفظ بھی پورے کا پورا واقعہ ، خیال، فن ، جوہر اور تخلیقی بصیرت پر کارفرما ہوتا ہے۔ یوں کہیے گا کہ بولا گیا لفظ ایک معلم و کردار کا نمونہ ہے جو اردگرد ماحول کو متاثر کرکے یا تو غلبہ پا لیتا ہے نہیں تو وقعت سے گِر جاتا ہے۔
اس گِرنے اور غلبہ پانے کا نام بالترتیب ڈنگ اور ڈھنگ ہے۔ المیہ کی بات کچھ یہی ہے کہ تبدیلی واقعات اور مراحل سے ہوتی ہے جب یہ تبدیلی صرف سرسری اور سطحی کار فرما ہو تو پہلے کا نقطہ عروج زور پکڑ جاتا ہے جس نے اردگرد ماحول ، بندے ، گھرانے اور تہذیب کی تباہی کا شکار کر دیا اس کے جذبات میں رحمدلی نام کی کوئی چیز نہ ملی۔ اس کا کردار صرف بدحالی سے بدحالی اور انسانیت کے تاثر کو زائل کرنا ہے۔
تاثرات کے زائل ہونے کا عندیہ ملا تو صاف و شفاف کپڑوں میں بدبودار اور وحشت سے بھرا ہوا چلتا پھرتا بُت ملا۔ جو بظاہر ڈھنگ کا لبادہ پہن کر ڈنگ کا بیج بکھرتا جاتا ہے۔
اقدار مشترک پر کردار فرق حیثیت سے دیکھا جس کا ردعمل جلوے کی جگہ حلوے ، صف کی جگہ سویاں ، پھول کی جگہ رنگ رلیاں ، زمانے کی تنگ گلیاں ، دسترخوانوں میں سالم بکرے ، پوٹھ اور پسلیاں۔ سیرت کی بجائے صورت ، میک اپ اور سری پائے کی نلیاں ۔ اس بابت لکھا ” ناپاکی تمھارے اندر سے نکلتی ہے۔” مُراد شہوت ، دھوکا ، فریب ، نکتہ چینی۔
ان حالات میں ہرطرف سے آواز آتی ہے کہ رب ایک ہے ، ایک خدا ہے ، میں اس کو مانتا ہوں ، یہ عقیدہ ظاہر کرتا ہے۔ جب بات دوسری طرف کی دیکھی تو اُس رب کی ایک بھی نہ مانتے دیکھا اور پایا۔
فطرت کا آئینہ تو دیکھ لو جو بیج بویا گیا وہی کاٹا گیا۔
اس بلاوجہ بولنے اور ڈنگ مارنے کا نتیجہ اب یوں نکلا کہ ذہن ، خراب ہو چکے ہیں ، موسم بھی روٹھ گئے، ہوا آلودہ ، فضاء آلودہ ۔ اس آلودگی کا اثر اتنا زور آور درخت بن چکا ہے کہ فطرت نے ناراضی کا خیال کر دیا ہے آج آلودگی میں یہ خطہ اول درجہ حاصل کر چکا ہے۔
ماحول ، ہوا ، چرند ، پرند اور دھرتی سب کے سب منہ موڑ کر کہیں جا چکے ہیں۔ ایک دن یہی بات اُستاد محترم سے ایف سی یونی ورسٹی لاہور میں تھوڑی طویل گفتگو ہو گئی۔ بات کی کہ شیطان نے تو ایک دفعہ انکار کیا یہاں تو انکار چھوڑ ماننے کو تیار نہ ہے۔ ایک سازش سے مداخلت کہاں سے کہاں جاپہنچی مگر یہاں تو رب کو مانتے ہیں پر اُس کی ایک نہیں مانتے۔ کاغذ اور جاہل کی بدزبانی دن بدن ڈنگ کو تقویت دے کر ڈنگ پہ ڈنگ مارتے
جاتی ہے۔ یہاں نہ زبان نہ بیان صرف چُرب زبان اور ڈنگ کا دابستان۔
*******