پنجاب میں سانجھا کرسمس-رواداری کی نئی صبح: یوسف بنجمن

پاکستان میں بسنے والی اقلیتیں، خصوصاً مسیحیوں نے تعصبات، ایذارسانیوں اور ہجومی تشدد کا سامنا کرنے کے باوجود ہر دور اور ہر میدان میں ملک کی تعمیر و ترقی میں ہمیشہ مثبت کردار ادا کیا ہے۔ ایسے میں جب ریاست یا صوبائی حکومت کی جانب سے برابری اور شمولیت کا عملی مظاہرہ کیا جاتا ہے، تو اس سے نہ صرف کمیونٹی کا سر فخر سے بلند ہوتا ہے بلکہ یہ احساس بھی جڑ پکڑنے لگتا ہے کہ ہم اس وطن کا ایک اہم اور قابلِ فخر حصہ ہیں۔

اس سال کرسمس کے موقع پر پنجاب حکومت نے جس طرح کے انتظامی، فلاحی اور سیکیورٹی کے اقدامات کیے ہیں، وہ بلاشبہ ستائش کے مستحق ہیں۔ ان اقدامات میں جو بات سب سے زیادہ حوصلہ افزا رہی، وہ محض علامتی شرکت نہیں بلکہ ایک پائیدار طرزِ فکر کا آغاز ہے جو اقلیتوں کو ریاست کے ہر شعبے میں شامل کرنے کی کوشش نظر آتی ہے۔

پنجاب حکومت کی جانب سے مسیحی ملازمین کو کرسمس سے قبل تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی ایک ایسا فیصلہ تھا جس نے ہزاروں خاندانوں کو سکون سے تہوار منانے کی سہولت فراہم کی۔ اسی طرح، سینیٹری ورکرز کے لیے خصوصی اعزازیے کا اعلان ان کی محنت کے اعتراف کی ایک بہترین کوشش رہی۔ اس سال ایک نہایت متاثر کن اور انسانی ہمدردی پر مبنی اقدام جیلوں میں بند مسیحی قیدیوں کی سزاؤں میں تین تین ماہ کی خصوصی رعایت اور معمولی جرائم میں ملوث افراد کی رہائی تھا۔ ریاست کا یہ “ماں” جیسا رویہ شہریوں کو اصلاح اور معاشرے میں واپسی کا ایک پائیدار موقع فراہم کرتا ہے۔

لاہور کے لبرٹی چوک میں سجایا گیا عظیم الشان کرسمس ٹری اس سال کی تقریبات کا مرکز رہا۔ اس نے عام مسیحی شہری کو یہ احساس دلایا کہ ان کا تہوار اب صرف چرچ کی چار دیواری تک محدود نہیں بلکہ شہر کی مجموعی ثقافت اور رونقوں کا حصہ ہے۔ یہ ایک علامتی لیکن طاقتور پیغام تھا جو بین المذاہب رواداری کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہوا۔ اس قسم کی عوامی نمائشیں معاشرے میں “اکیلے پن” کو ختم کر کے قبولیت اور باہمی محبت کے جذبات کو پروان چڑھاتی ہیں، جو ایک پرامن معاشرے کے لیے ناگزیر ہے۔

لاہور کی خوبصورتی اس بار صرف لبرٹی چوک تک محدود نہ تھی، بلکہ مال روڈ، جیل روڈ، گلبرگ کی اہم شاہراہوں اور مسیحی بستیوں کو بھی برقی قمقموں اور خوبصورت بینرز سے سجایا گیا تھا۔ شہر کے مختلف داخلی و خارجی راستوں اور چوراہوں پر نصب ‘میری کرسمس’ کے روشن سائن بورڈز اور سجاوٹی محرابیں حکومت کی جانب سے مسیحی اقلیت کے احترام کا واضح اظہار تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ صوبے کے دیگر بڑے شہروں میں بھی سرکاری عمارتوں اور اہم چوکوں کی سجاوٹ نے یہ احساس دلایا کہ یہ جشن کسی ایک علاقے یا مذہبی طبقےکا نہیں بلکہ پورے پنجاب کی ثقافتی رونقوں کا حصہ بن چکا ہے۔ سجاوٹ کے ان جامع اقدامات نے پورے شہر میں ایک ایسا پرمسرت ماحول پیدا کیا جس نے شہریوں کے مابین یگانگت اور محبت کے رشتے کو مزید تقویت بخشی۔

یہ محض ایک تہوار کی سجاوٹ نہیں رہا، بلکہ پنجاب کی اس زرخیز مٹی، سانجھی ثقافت اور صدیوں پرانے انسانی رشتوں کی عکاسی ہے جو ہمیں ایک لڑی میں پروتے ہیں۔ ‘سانجھا کرسمس’ کا یہ تصور اس مثبت تبدیلی کا پیغام ہے کہ اب یہ خوشیاں کسی ایک مذہبی طبقے یا گروہ تک محدود نہیں رہیں، بلکہ یہ پورے پنجاب کا ایک مشترکہ جشن بن چکا ہے جہاں ہر شہری دوسرے کی خوشی میں برابر کا شریک ہے۔”

حقیقی رواداری کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے دکھ سکھ کو سانجھا کریں۔ اس سال کرسمس پر مختلف مذاہب کے ماننے والوں کا مسیحیوں کے ساتھ مل کر خوشیاں منانا اس بات کی دلیل ہے کہ ہم ایک ایسی منزل کی طرف گامزن ہیں جہاں مذہب کسی کے لیے دیوار نہیں بلکہ ایک دوسرے کے احترام کا ذریعہ بنے گا۔ حکومت کے اقدامات نے اس ماحول کو مہمیز دی ہے جہاں نفرتوں کے بجائے مکالمے اور محبت کو جگہ مل رہی ہے۔ یہ رویہ مستقبل کے اس پاکستان کی تصویر کشی کرتا ہے جہاں ہر شہری پہلے پاکستانی اور پھر کچھ اور ہے۔

تہواروں کے موقع پر سب سے بڑا چیلنج سیکیورٹی کا ہوتا ہے۔ اس سال صوبائی انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے کیے گئے فول پروف سیکیورٹی انتظامات نے مسیحیوں کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ بغیر کسی خوف و خطر کے اپنی مذہبی رسومات ادا کر سکیں۔ ریاست کی جانب سے تحفظ کا یہ احساس ہی وہ پائیدار عنصر ہے جو کسی بھی اقلیت کا اپنے ملک پر اعتماد بحال رکھتا ہے۔

وزیرِ اعلیٰ مریم نواز کا ذاتی طور پر تقریبات میں شریک ہونا، مسیحی بستیوں کا دورہ کرنا اور کمیونٹی کے ساتھ براہِ راست مکالمہ کرنا ایک مثبت سیاسی روایت کی عکاسی کرتا ہے۔ جب ریاست کا اعلیٰ ترین عہدیدار خود عوام کے درمیان موجود ہوتا ہے، تو اس سے دوریوں میں کمی آتی ہے اور پالیسی سازی میں عوامی امنگوں کو شامل کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔

ہم مسیحی برادری کی جانب سے ان تمام اقدامات پر پنجاب حکومت اور وزیرِ اعلیٰ ٰ مریم نواز کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں۔ تاہم، ہم امید کرتے ہیں کہ حقوق کی فراہمی اور برابری کا یہ سفر صرف سالانہ تہواروں تک محدود نہیں رہے گا۔ اس جذبے کو تعلیم، روزگار کے کوٹے پر عملدرآمد، اور مستقل سماجی تحفظ کے شعبوں میں بھی اسی پائیداری کے ساتھ منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ اقدامات ایک ایسے روشن اور متحد پنجاب کا پیش خیمہ ہیں جہاں وطنِ عزیز کی مٹی سے محبت ہر امتیاز پر مقدم ہے، اور جہاں ہر شہری اپنے عقیدے کی تفریق سے بالاتر ہو کر، ریاست کے تحفظ کے سائے میں خود کو ایک معتبر اور برابر کا پاکستانی تسلیم کیے جانے پر فخر محسوس کرتا ہے۔پنجاب حکومت اور مریم نواز ! آپ کا شکریہ….!.

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading