نارنجی رنگ، تشدد سے پاک مستقبل کی علامت : نبیلہ فیروز بھٹی

صنفی بنیاد پر تشدد کے خلاف سولہ روزہ بین الاقوامی مہم 1991 میں خواتین اور لڑکیوں پر تشدد کے خلاف شروع ہوئی تھی۔ ہر سال 25 نومبر سے جو خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا عالمی دن ہے، 10 دسمبر تک جو انسانی حقوق کا عالمی دن ہے، یہ مہم دنیا بھر کے افراد اور گروہوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ صنفی بنیادوں پر تشدد کے خاتمے کے لئے کام کریں۔ یہ مہم صنفی تشدد کو ختم کرنے کے لئے آگاہی اور اجتماعی کوششوں پر مرکوز ہوتی ہے۔

اقوامِ متحدہ نے خواتین پر تشدد کی تعریف صنفی بنیاد پر تشدد کے کسی بھی عمل کے طور پر کی ہے جس کے نتیجے میں خواتین کو جسمانی، جنسی یا نفسیاتی تکلیف یا نقصان پہنچے یا پہنچنے کا امکان ہو بشمول ایسی کارروائیوں کے خطرات، ان پر جبر ہو یا ان کی آزادی سے محرومی چاہے وہ عوامی زندگی میں ہو یا نجی زندگی میں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق خواتین کی اصطلاح بچیوں اور لڑکیوں سمیت ہر عمر کی عورتوں کے لئے ہے بشرط یہ کہ اسے مختلف طریقے سے واضح نہ کیا گیا ہو۔

اس سال سولہ روزہ مہم کا موضوع ہے ”خواتین اور لڑکیوں پر ڈیجیٹل تشدد کے خلاف متحد ہوں“ جو خواتین اور لڑکیوں کی زندگی میں تیزی سے بڑھتا ہوا ایک مسئلہ ہے۔ ڈیجیٹل ٹولز کا استعمال خواتین اور لڑکیوں کو چھیڑنے، ہراساں کرنے اور بدسلوکی کے لئے تیزی سے کیا جا رہا ہے۔ یہ کارروائیاں صرف آن لائن نہیں ہوتیں۔ بلکہ اکثر حقیقی زندگی میں آف لائن تشدد کا باعث بنتی ہیں جیسے جبر، جسمانی استحصال، یہاں تک کہ خواتین اور لڑکیوں کا قتل، نقصان دیرپا ہو سکتا ہے اور بچ جانے والیوں کو لمبے عرصے تک متاثر کر سکتا ہے۔ زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین مردوں سے زیادہ ڈیجیٹل تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ خصوصاً وہ خواتین جو عوامی یا آن لائن مرئیت کی حامل ہیں جیسا کہ سماجی کارکن، صحافی، سیاست میں خواتین، انسانی حقوق کی محافظ اور نوجوان خواتین۔ مذہب، نسل، معذوری سمیت امتیازی سلوک کی مختلف اقسام کا سامنا کرنے والی خواتین کے لئے یہ مزید بدتر ہے۔

اگر ہم پاکستان میں سولہ روزہ بین الاقوامی مہم 2025 کے موضوع کے حوالے سے اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (DRF) پاکستان نے صرف 2024 میں ٹیکنالوجی سے متعلقہ صنفی تشدد کی 3171 شکایات رپورٹ کیں جن میں سے 1772 خواتین نے خود درج کروائیں۔ پچھلے آٹھ سالوں کے دوران DRF ہیلپ لائن نے 20,000 سے زیادہ کیسوں کو ہینڈل کیا جو کہ ہر ماہ اوسطاً 264 کیس بنتے ہیں۔ رپورٹ نہ کیے گئے کیسوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ 65 فیصد پاکستانی خواتین جنہیں آن لائن ہراساں کیا جاتا ہے وہ خوف، شرم یا اداروں پر اعتماد کی کی کمی کی وجہ سے انھیں رپورٹ نہیں کرتیں۔

قومی کمیشن برائے و قارِ نسواں (NCSW) کی 2023 کی رپورٹ ”ڈیجیٹلائزیشن اینڈ ویمن ان پاکستان“ کی تقریباً 65 فیصد خواتین جواب دہندگان نے کہا کہ انھیں ڈیجیٹل کمیونیکیشن میں سائبر بدمعاشی یا ہراساں کیے جانے کا سامنا کرنا پڑا۔ مجرموں کے لئے سزا کی شرح بہت کم ہے۔ مثال کے طور پر 2023 میں سائبر کرائمز کی 1375 ایف آئی آرز میں سے صرف 92 پر سزا سنائی گئی۔ فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہ شرح چار فیصد سے کم ہے۔ یہ اعداد و شمار مسئلہ کی سنگینی، کم رپورٹنگ اور ان پر ناکافی سزاؤں کو واضح کرتے ہیں جو پاکستان میں خواتین کے خلاف ڈیجیٹل تشدد کے واقعات کی رپورٹنگ اور ان سے نمٹنے کی کوششوں کو پیچیدہ بناتا ہے۔

خواتین کے خلاف تشدد کی دیگر اشکال پر نظر ڈالیں تو حالیہ رپورٹس اور حکومتی اعداد و شمار تشویشناک ہیں۔ NCSW کے ایک اندازے کے مطابق 90 فیصد خواتین اپنی زندگی میں کسی نہ کسی طرح کے گھریلو تشدد کا سامنا کرتی ہیں جن میں سے نصف اس بات کا ذکر بھی کسی سے نہیں کرتیں اور صرف 0.4 فیصد عدالتوں تک پہنچتی ہیں۔ 7 نومبر کو پاکستان کے انسانی حقوق کے وزیر، اعظم نذیر تارڑ نے قو می اسمبلی کو بتایا کہ 2021 سے 2024 تک 7500 سے زائد خواتین کو قتل کیا گیا جن میں سے 1553 غیرت کے نام پر قتل کی گئیں۔

نیشنل پولیس بیورو کے اعداد و شمار بھی ظاہر کرتے ہیں کہ چار سالوں میں ملک بھر میں خواتین کے خلاف تشدد کے 173,367 کیس رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سال بہ سال اضافہ ہو رہا ہے۔ ریپ اور گینگ ریپ کے 17,771 واقعات ریکارڈ کیے گئے جبکہ تقریباً 10,000 خواتین کو گھروں کے اندر ظلم و بر بریت کا سامنا کرنا پڑا۔ غیر سرکاری تنظیم SSDO کی حالیہ رپورٹ کے مطابق صرف 2024 میں خواتین پر تشدد کے 32,617 کیس رپورٹ ہوئے جن میں سے 5,339 سے زیادہ ریپ کے، 24,439 اغواء کے، 2238 خواتین کو گھریلو تشدد کا نشانہ بنانے کے اور 547 غیرت کے نام پر قتل کے واقعات شامل ہیں۔

ہزاروں مقدمات کے باوجود پاکستان میں سزا کی شرح انتہائی کم ہے ; ریپ اور غیرت کے نام پر قتل کے لئے صرف 0.5 فیصد، اغواء کے لئے 0.1 فیصد اور گھریلو تشدد کے مقدمات میں 1.3 فیصد۔ یہ نظامِ انصاف میں گہرے مسائل کو بے نقاب کرتا ہے۔ پولیس کی کمزور تحقیقات، فرانزک شواہد کی کمی، سماجی بدنامی اور عدالتی نا اہلی مظلوموں کو انصاف کے حصول سے محروم رکھتی ہے جبکہ مجرموں کو آزاد پھرنے کی اجازت دیتی ہے۔

اس سال کی صنفی بنیاد پر تشدد کے خلاف سولہ روزہ بین الاقوامی مہم ایک یاد دہانی ہے کہ اس دور میں ڈیجیٹل سیفٹی، صنفی مساوات کے لئے مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ خواتین کی محفوظ ڈیجیٹل شراکت تک رسائی کو ترقی یافتہ ڈیجیٹل خواندگی، آن لائن قانونی حقوق کے متعلق آگاہی، اور ڈیجیٹل بد سلوکی سے نمٹنے کے لئے مضبوط میکانزم کی فراہمی کے ذریعے یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ اس مہم کا مقصد حکومتی، تکنیکی اور سماجی سطح پر کام کرنے کے لئے شراکت داری کو فروغ دینا ہے۔ معاشرے کے تمام ارکان کو متحرک کر کے خواتین کے خلاف ڈیجیٹل بدسلوکی کو روکنا ہے۔ حکومتوں کو موثر قانون بنانا اور ان پر عمل درآمد کرنا چاہیے، ٹیکنالوجی کمپنیوں کو خواتین کے لئے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو محفوظ بنانا چاہیے۔ حقوقِ نسواں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو خواتین کے خلاف ڈیجیٹل تشدد کے خلاف بیداری اور وکالت کے لئے کوششیں تیز کرنی چاہیے۔ لوگوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ان تنظیموں کو فنڈز فراہم کریں جو خواتین کے تحفظ اور صنفی عدم مساوات کو ختم کرنے کے لئے کام کر رہی ہیں۔ والدین، اساتذہ اور کمیونٹی کے رہنماؤں کی طرف سے نوجوانوں کو آن لائن محفوظ رہنے اور باہمی احترام کا رویہ قائم کرنے کی تعلیم دینے میں مدد کرنی چاہیے۔ انفرادی سطح پر صنفی تشدد کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے، Survivors کی حمایت کرنی چاہیے، نقصان دہ آن لائن اصولوں کو چیلنج کرنا چاہیے، ڈیجیٹل سیفٹی سیشنز کی میزبانی کرنی چاہیے یا ان میں شرکت کرنی چاہیے، ان مردانہ اتحاد کی حمایت کرنی چاہیے جو خواتین کے خلاف ڈیجیٹل تشدد کو مسترد کرتے ہوں۔

مزید برآں ہمیں ایسی مہمات کی حمایت کرنی چاہیے جو جنسی ہراسانی اور جنسی بدسلوکی کے خلاف مضبوط اقدامات کا مطالبہ کرتی ہیں۔ ہمیں تشدد سہنے والیوں کی کہانیاں ہمدردی سے سننی چاہیے، ان کے تجربات کی توثیق کرنی چاہیے اور ان کی بحالی کے سفر میں ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ ان کی آوازوں کو آگے بڑھا کر ہم صنفی تشدد پر خاموشی کو توڑ سکتے ہیں، اور دوسروں کو مدد اور انصاف حاصل کرنے کے لئے با اختیار بنا سکتے ہیں۔ ہم زیادہ لوگوں تک پہنچنے اور تبدیلی کی ترغیب دینے کے لئے متعلقہ ہیش ٹیگز کا استعمال کرتے ہوئے خواتین کے خلاف تشدد کی کہانیوں کو سوشل میڈیا پر شیئر کر سکتے ہیں۔ ہم نارنجی رہن پہن سکتے ہیں اور اس کو نمایاں کر سکتے ہیں۔ یہ رنگ امید اور تشدد سے پاک مستقبل کی علامت ہے۔

صنفی بنیاد پر تشدد کے خلاف سولہ روزہ بین الاقوامی مہم کی اہمیت کو سمجھ کر، آگاہی پھیلا کر، Survivors کی حمایت اور تبدیلی کی وکالت کر کے، ہم ایک ایسی دنیا کی تخلیق کی جدوجہد کرنے والی عالمی تحریک میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں جہاں ہر عورت تشدد سے آزاد زندگی گزار سکے۔ ہم مل کر ایسا ماحول بنا سکتے ہیں جہاں خواتین اپنے تمام انسانی حقوق سے لطف اندوز ہو سکیں۔ ہم ایسا معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جہاں صنفی برابری ہو۔

*******

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading