پاکستان میں 2025ء کا تباہ کن مون سون : پروفیسر عامر زریں 

اکیسویں صدی میں جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی اپنے جوبن پر ہے۔ وہیں موحولیاتی تبدیلیاں بھی بنی نوع انسان کے لئے ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آرہی ہیں۔ موسمیاتی ماڈلز کی تازہ ترین پیشگوئیوں نے پاکستان کے لیے خطرے کی ایک نئی گھنٹی بجا دی ہے۔ ان ماڈلز کے مطابق، اگر موجودہ موسمی رجحانات برقرار رہے تو ملک کے تقریباً 80  فیصد علاقوں میں غیر معمولی طور پر شدید بارشوں کا امکان ہے، جو ممکنہ طور پر 2022 کے تباہ کن مون سون سے بھی زیادہ سنگین سیلابی صورتحال کو جنم دے سکتا ہے۔
سال 2022 میں آنے والے سیلاب نے پاکستان میں تاریخ کی بدترین تباہی مچائی تھی، جس سے ملک کا ایک تہائی حصہ زیرِ آب آ گیا تھا اور لاکھوں افراد بے گھر ہونے کے ساتھ ساتھ انفرا سٹرکچر کی تباہی اورکھڑی فصلوں کا بہت نقصان ہوا۔ ا س بار بھی موسمیاتی ماڈلز جس شدت کی بارشوں کی نشاندہی کر رہے ہیں، وہ اس خدشے کو تقویت دیتے ہیں کہ اگر بروقت حفاظتی اقدامات نہ کیے گئے تو ہمیں اس سے بھی بڑی آفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جولائی کے پہلے پندرہ دنوں میں وسیع پیمانے پر ہونے والی یہ بارشیں دریاؤں اور ندی نالوں میں شدید طغیانی کا سبب بن سکتی ہیں، جس سے شہری اور دیہی دونوں علاقے بری طرح متاثر ہوں گے۔ اس موسمیاتی ماڈل کے تحت واقعی ان علاقوں میں بارشیں، طغیانی اور سیلابی صورتِ حال دیکھنے میں آرہی ہے۔
ماہرین ِ موسمیات نے یہ بھی پیشن گوئی کی تھی کہ گرمیوں میں سیاحت کے لیے توجہ حا صل کرنے والے پاکستان کے شمالی علاقہ جات بالخصوص خیبر پختون خواہ ان دنوں سب سے زیادہ خطرے کی زد میں ہوں گے۔ یکم جولائی سے 15 جولائی کے دوران ان علاقوں میں سفر کرنا انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ شدید بارشوں کے باعث بادل پھٹنے (Cloudbursts)، لینڈ سلائیڈنگ اور سیلابی ریلوں کے واقعات رونما ہو سکتے ہیں، جو نہ صرف سیاحوں کی جان کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں بلکہ مواصلاتی نظام کو بھی مفلوج کر سکتے ہیں۔ پلوں اور سڑکوں سمیت بنیادی انفراسٹرکچر کی تباہی کا بھی شدید خطرہ ہے، جس سے یہ علاقے ملک کے دیگر حصوں سے کٹ سکتے ہیں۔لہٰذا، تمام شہریوں اور خصوصاً سیاحت کے شوقین افراد کو سختی سے ان موسمی پیشن گوئیاں کو مد نظر رکھنے کے لئے کہا گیا تھا کہ وہ ان تاریخوں میں شمالی علاقوں کا سفر کرنے سے مکمل گریز کریں تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے۔ اور ایسا ہو کر رہا اور ابھی یہ حالات تھمے نہیں بلکہ ناقابلِ یقین مناظر سوشل میڈیا ٹیکنالوجی کے باعث ہم دیکھ بھی رہے ہیں۔ سیلابی ریلوں، لینڈ سلائیڈنک اور بادلوں کے پھٹنے کے واقعات میں مقامی آبادیوں اور سیاحوں کے متاثر ہونے، سینکڑوں ہلاکتیں،لوگوں کے گمشدہ ہونے اور مالی نقصانات کی خبریں ہمارے سامنے ہیں۔

اس سنگین صورتحال کے پیشِ نظر، حکومتِ پاکستان، قومی اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز (NDMA/PDMAs) اور دیگر متعلقہ اداروں کو فوری طور پر ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے لئے تیار رہنے کا کہ دیا گیا تھا۔ یہ پیشگی اطلاع ایک انتباہ تھا تاکہ بعد میں یہ کہنے کی گنجائش نہ رہے کہ وقت پر خبردار نہیں کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں چند ضروری اقدامات پر قبل از وقت عمل پیرا ہونے کے لئے کہا گیا تھا جو کہ درج ذیل ہیں؛

……قبل از وقت منصوبہ بندی: حساس علاقوں کی نشاندہی اور وہاں سے آبادی کے انخلاء کا منصوبہ تیار کیا جائے۔
……عوامی آگاہی مہم: عوام کو متوقع خطرات اور احتیاطی تدابیر سے آگاہ کرنے کے لیے میڈیا پر بھرپور مہم چلائی جائے۔
……ندی نالوں کی صفائی: شہروں اور دیہات میں برساتی نالوں اور آبی گزرگاہوں کی فوری صفائی کو یقینی بنایا جائے تاکہ پانی کا بہاؤ رکاوٹ کے بغیر جاری رہ سکے۔
……ارلی وارننگ سسٹم: سیلاب کی پیشگی اطلاع دینے والے نظام کو فعال اور مؤثر بنایا جائے۔
……امدادی ٹیموں کی تیاری: ریسکیو اور ریلیف ٹیموں کو ضروری سامان کے ساتھ ہائی الرٹ پر رکھا جائے۔

ان تمام حالات و واقعات میں ماہرینِ موسمیات نے عوام کے سامنے یہ بات واضح کر دی تھی کہ وہ سائنسی ماڈلز کی بنیاد پر پیشگوئی تو کر سکتے ہیں، لیکن موسم کو کنٹرول کرنا انسانی اختیار سے باہر ہے۔ حتمی فیصلہ اور اختیار صرف رب العالمین کے پاس ہے اور اسی کی مرضی اور رضا معتبر ہے۔ احتیاط لازم ہے۔ انسان اشرف المخلوقات اسی لئے ہے کہ قبل از وقت خطرات سے آگہی پاکر اپنی حفاظت کے لئے بند باندھے۔ اور یہی حضرتِ انسان کے باشعور ہونے کی دلیل ہے کہ احتیاط اور اپنی حفاظت کو ترجیح دے۔ دعا ہے کہ ربّ باری تعالیٰ پاکستان اور اس کے عوام کو ہر قسم کی زمینی و آسمانی آفات سے اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading