ہمارے عہد کی خوش قسمت “خاموش نسل” اور کامیابی کا سفر : ڈاکٹر ایورسٹ جان

آج ہم دو نسلوں کی جنہیں ہم انگریزی میں آکٹوجینیئر نسل اور بےبیبومرز کہتے ہیں، ان کی جدو جہد اور کے متعلق گفتگو کریں گے اور دونوں نسلوں ہماکھٹا “خاموش نسل” کہ سکتے ہیں۔ یہ دونوں نسلیں روایتی اقدار، ابتدائی زندگی کی محدود ٹیکنالوجی، مضبوط خاندانی اور کمیونٹی فوکس، اور تاریخی تبدیلیوں کے تجربے کا اشتراک کرتی ہیں، لیکن بےبی بومرز نے عالمی جنگوں کے بعد خوشحالی، سماجی تبدیلی، اور تعلیم اور ٹیکنالوجی تک زیادہ رسائی سے زیادہ فائدہ اُٹھایا۔ آکٹوجینیئر نسل، یعنی وہ لوگ جو آج اپنی اسی سال کی عمر (1928–1946)کے قریب ہیں، اور بےبی بومرز، یعنی وہ لوگ جو اُن کے بعد پیدا ہوئے، اور بےبی بومرز (1946–1964)۔انسانی تاریخ کے اہم اور تبدیلیوں بھرے دَور کے گواہ ہیں اور خوب صورت بات یہ ہے کہ بےبی بومرز کو “بچے پیدا ہونے والی نسل” بھی کہا جاتا ہے اور آج کی دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی میں ان کا بہت حصہ ہے ۔ یہ دونوں نسلیں وہ سب کچھ دیکھ چکی ہیں جو آج کے نوجوان شاید صرف کہانیوں میں سنتے ہیں۔ ان دونوں نسلوں کی زندگی میں تبدیلیاں مشترکہ ہیں جن میں ہم اور ہمارے بزرگ شامل ہیں۔

یہ “خاموش نسل”، یعنی وہ لوگ جو آج اپنی اَسی (60-80) سال کی عمر کے قریب ہیں، ایک غیر معمولی دور سے گزرے ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی میں وہ سب دیکھا جو آج کے نوجوان شاید خواب میں بھی تصور نہ کر سکیں۔ یہ وہ نسل ہے جنہوں نے بچپن میں چراغ اور لالٹین کی روشنی میں وقت گزارا، خطوط کے ذریعے رابطہ کیا اور ریڈیو کے ذریعے دنیا کی خبر سننے کا تجربہ کیا۔ اس زمانے میں گھروں میں بجلی، ٹیلی فون یا ٹیلی ویژن لگنا ایک بڑی نعمت تھی اور زندگی بہت سادہ تھی۔ انسانی تعلقات ذاتی اور گہرے تھے، کیونکہ کوئی ڈیجیٹل مداخلت نہیں تھی۔ ان کے گھر عام طور پر بجلی یا پانی کی سہولت سے محروم تھے۔ رات کا اندھیرا اور خاموشی اکثر لوگوں کو کہانی سنانے یا کھیلنے کی طرف لے جاتا۔ ہر خط ایک قیمتی تحفہ تھا اور اس کا انتظار صبر کا امتحان ہوتا۔ ریڈیو نے اس دنیا میں پہلی بڑی تبدیلی لائی، جہاں خبروں، ڈراموں اور موسیقی کے ذریعے دنیا قریب آ گئی۔ خاندان ریڈیو کے ارد گرد بیٹھ کر نہ صرف تفریح حاصل کرتا بلکہ آپس میں بات چیت اور تبادلہ خیال بھی کرتا۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں یہ نسل جوان ہوئی۔ بلیک اینڈ وائٹ ٹیلی ویژن نے تفریح کو نیا رنگ دیا۔ ٹیلی فون امیروں کے گھروں میں پہنچنا شروع ہوا، اور موٹر کاریں اور بسیں سفر کو آسان بنا رہی تھیں۔ اسی دوران انسان نے چاند پر قدم رکھا اور دنیا حیرت میں پڑ گئی۔ علم اور سائنس کی ترقی نے یہ ثابت کیا کہ انسانی تخلیق کی کوئی حد نہیں۔ ان کی جوانی میں کمپیوٹر بڑے اور مہنگے آلات تھے، مگر انہوں نے مستقبل کے امکانات کی جھلک دی۔

روزمرہ زندگی میں کھانے، لباس، کھیل اور روایتی تفریح کے تجربات بھی دلچسپی سے بھرپور تھے۔ بچوں کے کھیل، گلی کے کھیل، اور کھیتوں میں کام کرنے کے تجربات اُنہیں مضبوط اور مستقل مزاج بناتے۔ شادی اور خاندان کی ذمہ داریوں نے اُنہیں سماجی ربط اور قربت سکھائی جب کہ دوستوں اور کمیونٹی کے ساتھ تعلقات زندگی کو بھرپور بناتے۔ تعلیم اور کتابوں نے ان کی سوچ کو وسعت دی۔ پرانی نصابی کتابیں، لیکچر اور حفظ کے طریقے اُنہیں صبر اور محنت سکھاتے، جب کہ جدید دَور میں کمپیوٹر اور آن لائن تعلیم نے علم کی رسائی کو بڑھایا۔

معیشت اور کام کے تجربات بھی زندگی میں اہم ہیں۔ کھیتوں اور دکانوں سے لے کر دفاتر اور جدید ملازمتوں تک، ہر مرحلہ نے اُنہیں محنت، تخلیق اور سماجی ذمہ داری کا درس دیا۔ صحت کے شعبے میں ترقی نے زندگی کی مدت بڑھا دی۔ ایم آر آئی، روبوٹک سرجری اور نئی دوائیں اب ان کے لیے دستیاب تھیں، جنہوں نے کبھی جھاڑ پھونک یا دیسی علاج دیکھے تھے۔ ثقافت اور تہذیب میں موسیقی، فلمیں، کھیل اور روایتی تہواروں کا گہرا اثر رہا۔ ہر نسل نے اپنے وقت کے موسیقی، فلم اور کھیل کے رجحانات کا تجربہ کیا۔ نوے کی دہائی میں موبائل فون اور انٹرنیٹ نے دنیا کو یکسر بدل دیا۔ خطوط کی جگہ ای میل، اور بعد میں سوشل میڈیا نے لوگوں کو براہِ راست جڑنے کا موقع دیا۔ اسمارٹ فونز نے کیمرہ، کیلنڈر، کتاب، دکان اور بینک ایک جیب میں سما دیا۔ بزرگ نسل حیران تھی کہ پوتے پوتیاں چھوٹی سی اسکرین پر دُنیا چلا رہے ہیں۔ کووِڈ-19 وبا نے ثابت کیا کہ ٹیکنالوجی کتنی اہم ہے، جب ویڈیو کالز نے خاندانوں کو جوڑے رکھا اور عبادات و تعلیم آن لائن منتقل ہو گئیں۔ اب ہم مصنوعی ذہانت کے دور میں ہیں۔ روبوٹ بات کرتے ہیں، مشینیں خود سوچتی ہیں اور کمپیوٹر انسان کی طرح لکھتے اور بولتے ہیں۔ “خاموش نسل” حیران بھی ہے اور اُلجھی ہوئی بھی۔ وہ سوچتے ہیں کہ اتنی تیز رفتار ترقی کہاں لے جائے گی؟ مشینیں صرف آلات سے بڑھ کر دوست اور مددگار بن گئی ہیں۔ وہ بچپن کی خاموش راتیں یاد کرتے، جب کہانی سننے یا کھیلنے میں وقت گزرتا تھا۔ آج کی راتیں موبائل اور کمپیوٹر کی روشنی سے جگمگا رہی ہیں۔ یہ تضاد اُنہیں حیرت میں ڈال دیتا ہے۔

اِس “خاموش نسل” نے چراغ سے لے کر روبوٹ تک کا سفر دیکھا۔ ان کی زندگی ایک پل ہے جو ماضی اور مستقبل کو جوڑتی ہے۔ ان کی آنکھوں نے وہ سب دیکھا جو پچھلی نسلوں کے لیے ناقابلِ یقین تھا۔ وہ دیکھ چکے کہ اِنسان کس طرح زندگی کی بنیادی ضروریات سے شروع کر کے ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کی بلند ترین بلندیوں تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ نسل زندہ ثبوت ہے کہ صبر، محنت اور جستجو کے ذریعے انسانی زندگی میں تبدیلی کی کوئی حد نہیں۔ آج یہ نسل اپنے تجربات کے ذریعے نوجوانوں کو یہ سکھا سکتی ہے کہ ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم آہنگ ہونا اور اُسے سمجھنا، زندگی کے ہر مرحلے میں ضروری ہے۔اس “خاموش نسل” نے بچپن میں ایک ایسی دُنیا دیکھی جو آج کے نوجوانوں کے لیے ناقابلِ یقین ہے۔ گھروں میں بجلی کا فقدان تھا، پانی کی فراہمی مشکل تھی، اور رات کے وقت بچے چراغ یا لالٹین کی روشنی میں کھیلتے اور کہانیاں سنتے۔ گلیاں، کھیت، چھوٹے کھلونے، اور دیسی کھیل بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو بڑھاتے۔ رسی کودنا، پٹا کھیلنا، گلی کرکٹ، چوری چھپائی، اور دیگر مقامی کھیل روزمرہ کا حصہ تھے۔ بڑے لوگ اخلاقی سبق دینے کے لیے قصے، کہانیاں اور تاریخی واقعات سناتے۔ ہر کہانی صبر، محنت، ایمان داری اور محبت کی تعلیم دیتی۔

تعلیم میں کلاس روم کے اصول، حفظ و قرات، اور نصابی کتابوں کی مشقیں بچوں کی استقامت اور صبر کو بڑھاتی۔ نوجوانی میں خاندان کی مالی مدد، کھیتوں یا دکانوں میں کام، اور تعلیم حاصل کرنا روزمرہ کی ذمہ داری تھی۔ کچھ نوجوانوں نے شہر کی طرف ہجرت کی تاکہ بہتر تعلیم حاصل کریں اور اپنے خوابوں کی تعبیر پائیں۔ تعلیم اور علم کے تجربات نے ان کی سوچ، فیصلہ سازی، اور مسئلہ حل کرنے کی صلاحیتوں کو وسعت دی۔شادی بیاہ کے رسم و رواج تفصیلی اور دلچسپ تھے۔ شادی کے دوران موسیقی، رقص، کھانے، اور مہمان نوازی کے مکمل انتظامات کیے جاتے۔ ازدواجی زندگی میں بچوں کی پرورش، خاندانی ذمہ داریاں اور معاشرتی تعلقات اہم کردار ادا کرتے۔ والدین چاہتے تھے کہ بچے علم حاصل کریں، اخلاق سیکھیں، اور معاشرتی رویے اپنائیں۔سماجی تعلقات میں میلے، تہوار، مذہبی اجتماعات، اور کمیونٹی کی تقریبات شامل تھیں۔ لوگ خوشیاں بانٹتے، غم میں شریک ہوتے، اور ایک دوسرے کی مدد کرتے۔ کھانے کی روایات، فصلوں کے مطابق پکوان، اور مقامی مصالحے روزمرہ زندگی کا حصہ تھے۔ کپڑے اور دیگر ضروریات اکثر خود تیار کی جاتی تھیں یا مقامی ہنرمند بناتے تھے۔

کھیل اور تفریح میں نہ صرف جسمانی سرگرمی بلکہ ذہنی اور تخلیقی ترقی بھی شامل تھی۔ دوستوں کے ساتھ میل جول، مقامی میلے، اور دوستانہ مقابلے نوجوانوں اور بچوں کی شخصیت سازی میں مددگار ثابت ہوتے۔معیشت اور کام کے شعبے میں کھیت، دکان، دفاتر، اور بعد میں جدید ملازمتیں شامل تھیں۔ اقتصادی اُتار چڑھاؤ، کاروباری چیلنجز، اور ملازمت کے مواقع نے اس نسل کے حوصلے اور محنت کی قدر بڑھائی۔ ہر شخص اپنی محنت کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور تھا۔صحت کے شعبے میں تبدیلیاں واضح تھیں۔ پرانے گھریلو نسخے، جھاڑ پھونک، اور حکیم کے علاج سے لے کر جدید دوائیں، ایم آر آئی، اور روبوٹک سرجری تک تجربات حاصل کیے گئے۔ وبائیں جیسے پولیو، تپ دق، اور بعد میں کووِڈ-19 نے صحت کے مسائل اور جدید علاج کی اہمیت اجاگر کی۔ثقافت میں موسیقی، فلمیں، کھیل، اور روایتی تہوار زندگی کا لازمی حصہ تھے۔ نوے کی دہائی میں موبائل اور انٹرنیٹ نے ثقافتی تجربات کو بدل دیا۔ فلمیں اور موسیقی اب گھر پر دستیاب تھیں، اور کھیلوں کی رسائی عالمی سطح تک پہنچ گئیٹیکنالوجی کے مراحل میں ریڈیو، ٹیلی ویژن، کمپیوٹر، موبائل، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، اور آٰ شامل ہیں۔ خطوط سے ای میل، پھر ویڈیو کالز اور آٰ چیٹ بوٹس تک، ہر ایجاد نے زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کیا۔ آٰ نے نہ صرف مشینوں کو سمجھا بلکہ انسانی جذبات اور رویے کو بھی پرکھا۔ روبوٹ دوست، سمارٹ فونز، اور خودکار ایپلیکیشنز زندگی کے لازمی پہلو بن گئے۔

ذاتی یادیں، بچپن کی گلیاں، جوانی کے کھیل، شادی کی خوشیاں، بچوں کی پرورش، اور بڑے ہونے کے لمحات اس نسل کی کہانی ہیں۔ عالمی اور معاشرتی تبدیلیاں، جنگیں، وبائیں، ترقی اور عالمی اثرات زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کرتے رہے۔مستقبل کی توقعات اور فلسفہ زندگی میں یہ نسل نوجوانوں کو سبق دیتی ہے کہ ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم آہنگ ہونا، اخلاقیات کو برقرار رکھنا، محنت اور صبر کے ساتھ زندگی گزارنا ضروری ہے۔ آج آٰ اور روبوٹ انسان کی زندگی میں شامل ہو چکے ہیں، اور ٹیکنالوجی کے اثرات روزمرہ زندگی کا حصہ بن گئے ہیں۔یہ نسل زندگی کی تمام دشواریوں، خوشیوں، ترقی، اور ٹیکنالوجی کی تبدیلیوں کا زندہ ثبوت ہے۔ چراغ کی روشنی سے لے کر آٰ بجلی کی روشنی تک، انہوں نے انسانی محنت، صبر اور جستجو کی طاقت دیکھی۔ ہر نیا دور چیلنج اور سبق لے کر آیا، اور اس نسل نے ہر مرحلے میں اپنی زندگی کے تجربات سے نوجوانوں کے لیے سبق چھوڑا۔آج یہ نسل بتاتی ہے کہ انسان ہمیشہ ترقی کے راستے پر ہوتا ہے، اور ہر نئی ایجاد ایک نئے امکان کے دروازے کھولتی ہے۔ چراغ، ریڈیو، ٹیلی ویژن، کمپیوٹر، موبائل، انٹرنیٹ سب انسانی محنت، علم اور تخلیق کی اعلیٰ مثالیں ہیں۔ ہر ایجاد نے زندگی کے ہر پہلو کو بدل کر رکھ دیا۔ “خاموش نسل” یعنی اسّی سالہ نسل اور بے بی بومرز نے زندگی کے ہر مرحلے میں قیمتی تجربات حاصل کیے ہیں جو آج کے نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ نسلیں سخت محنت، صبر اور مستقل مزاجی کی اہمیت سمجھتی ہیں، کیونکہ انہوں نے محدود وسائل میں محنت کر کے زندگی کی مشکلات کا مقابلہ کیا۔ نوجوان آج یہ سیکھ سکتے ہیں کہ کامیابی آسانی سے نہیں ملتی بلکہ مسلسل کوشش، لگن اور عزم کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ نسلیں خاندان اور کمیونٹی کے مضبوط رشتوں کی قدر کرتی تھیں۔ نوجوان آج یہ جان سکتے ہیں کہ تعلقات اور سماجی رابطے کی اہمیت کی کوئی چیز نہیں بدل سکتی اور یہ جذباتی اور معاشرتی قوت فراہم کرتے ہیں۔

ہمارے عہد کی “خاموش نسل” اور کامیابی کا سفر سے کیا سبق ہے:۔۔۔ دونوں نسلیں بڑے تاریخی اور تکنیکی تبدیلیوں تک گواہ رہی ہیں—ریڈیو، خطوط، ٹیلی ویژن، کمپیوٹر، موبائل فون اور آٰ سے نوجوان یہ سبق حاصل کر سکتے ہیں کہ زندگی میں تبدیلیاں ہمیشہ آتی رہتی ہیں اور ہم کو نئی صورت حال کے مطابق خود کو ڈھالنا سیکھنا چاہیے۔ ان نسلوں نے اپنی زندگی میں نظم و ضبط، ذاتی ذمہ داری، اور اخلاقی اصولوں کی پیروی کی، جس سے نوجوان آج یہ سیکھ سکتے ہیں کہ خود پر قابو اور ذمہ داری کا شعور کامیابی کی بنیاد ہے۔اس کے علاوہ، یہ نسلیں سادہ زندگی کی قدر کرتی تھیں—بچپن کے کھیل، فطرت سے تعلق، اور ذاتی ملاقاتیں ان کی خوشیوں کا ذریعہ تھیں۔ آج کے نوجوان کو چاہیے کہ وہ ٹیکنالوجی کی دنیا میں جکڑے رہنے کے باوجود حقیقی زندگی کے تجربات، قدرتی ماحول، اور انسانی تعلقات کی اہمیت کو نہ بھولیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نوجوان یہ بھی سیکھ سکتے ہیں کہ علم اور مہارت حاصل کرنا کبھی ختم نہیں ہوتا اور نئے ہنر، ٹیکنالوجی، اور معلومات کے لیے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔

مختصراً “خاموش نسل” یہ سبق دیتی ہے کہ محنت، صبر، خاندان و کمیونٹی کی قدر، تبدیلیوں کے مطابق خود کو ڈھالنا، سادگی کی قدر، اور زندگی بھر سیکھتے رہنا کامیاب اور بامعنی زندگی کی کنجی ہیں۔ یہ نسلیں یہ بھی بتاتی ہیں کہ اگرچہ دنیا اور ٹیکنالوجی بدل رہی ہیں، انسانی اقدار اور اصول ہمیشہ وقت کی قید سے آزاد رہتے ہیں۔ اب “خاموش نسل” کی الوداعی کا وقت ہے مگر اسکا نام تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ لیکن ان کے بعد آنے والی نسلوں کی لمبی لسٹ ہے اور عرصہ بھی کم ہے جنہیں جنریشن ایکس، ملینیین، جنریشن ذی اور جنریشن ایلفا کہا جاتا ہے انہیں “خاموش نسل” کی جدوجہد کو بھولنا نہیں چاہیے اور جب بھی آپ کو اپنے فون سے فرصت ملے انہیں یاد کر لیا کریں۔ معلوم ہے کہ آئندہ آپ دنیا میں خلائی سیاروں کا سفر پر جاؤ اور اگر وہاں راستہ بھول کر بھٹک جاؤ تو “خاموش نسل” کے بزرگوں کی روحیں وہاں موجود ہوں گی جو آپ کو واپسی گھر کا راستہ دیکھا دیں گی۔۔۔!!!۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading