ِ
ایسٹر ایک مسیحی تہوار ہے جو یسوع مسیح کے مردوں میں سے جی اٹھنے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ بہت سے مسیحیوں کے لیے، ایسٹر موت پر زندگی کی فتح کا جشن ہے، اور سال کا ایک بہت اہم وقت ہے۔ بہت سے غیر مسیحی عوام اس دن کو چھٹی کے طور پر مناتے ہیں، اس لیے وہ اس دن سفر کرنے یا پھر یہ دن اُن کے لئے دوستوں اورخاندان کے ساتھ وقت گزارنے کا ایک شاندارموقع ہوتاہے۔مسیحیوں کے لئے ایسٹر اہم مذہبی تہواروں میں سے ایک ہے۔ یہ تہوار یسوع مسیح کے مصلوبیت کے ذریعے موت کے تیسرے دن جی اٹھنے کی نشان دہی کرتا ہے۔ بہت سے مسیحیوں اور گرجا گھروں کے لیے، ایسٹر روزے اور توبہ کے لینٹ سیزن کا خوشگوار اختتام ہے۔
ایسٹر کے حوالے سے دورِ حاضر میں بہت سی روایات کے ذریعے سے اس دن کی وضاحت اور اہمیت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایسٹر کے تہوار پر مختلف ممالک میں مسیحیوں میں ایسٹر ایگز کی روایت پائی جاتی ہے۔انڈے زرخیزی اور دوبارہ جنم کی قدیم علامت تھے، اس لیے مسیحیوں نے انھیں ایسٹر کی کہانی کے کچھ حصوں کی علامت کے لیے اس روایت کو استعمال کیا۔ سخت خول مسیح یسوع کی مہر بند قبر کی نمائندگی کرتا ہے اور انڈے کا ٹوٹنا مسیح یسوع کے مردوں میں سے جی اٹھنے کی نمائندگی کرتا ہے۔
ایسٹر کے تہوار پر مسیحی ایماندار یسوع مسیح کے جی اُٹھنے کا جشن مناتے ہیں۔ بائبل کہتی ہے کہ مسیح یسوع ایک ایسے دن صلیب پر موئے جسے مبارک جمعہ(گڈ فرائیڈے) کہتے ہیں۔ بائبل کے مطابق، یسوع مسیح صلیبی موت کے بعد دفنائے گئے اور پھر پیشن گوئیوں کے مطابق موت اور قبر پر فاتح ہو کر تیسرے دن جی اُٹھے۔ ایسٹر اتوار یسوع مسیح کے جی اٹھنے کی علامت ہے۔ جمعہ کے دن یسوع مسیح کو صلیب پر چڑھانے کے بعد ان کی لاش کو صلیب سے اتار کر ایک غار نماقبرمیں دفن کر دیا گیا۔ مقبرے کی حفاظت کے لئے رومی سپاہیوں کو تعینات کیا گیا اور قبر کے منہ پر ایک بہت بڑا پتھر رکھا گیا تھا اور اسے سرکاری طور پر سیل کیا گیا۔ اتوار کو الصبح مریم مگدلینی اور یسوع کے کچھ شاگرد قبر پر گئے اور قبر کو خالی پایا۔
اکثر سوال کیا جاتا ہے کہ یسوع مسیح کی مصلوبیت کے دن کو مبارک کیوں کہا جاتا ہے؟ یہ سوال غیر مسیحی بھی کرتے ہیں اور شاید بہت سے مسیحی بھی اس بات سے نا واقف ہوں کہ مصلوبیت کا دِن مبارک کیوں کہلاتا ہے؟اس بات کا جواب ملاحظہ کریں کہ مسیحیوں کے لیے، یہ دن اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے یسوع مسیح کی مصلوبیت بنی نوع انسان کے گناہوں کے لئے حتمی قربانی تھی۔ اور اس قربانی سے بقاءانسانی کے نجات اور مخلصی کے وعدے کی تکمیل ہوئی۔ یاد رہے کہ مبارک جمعہ قیامت کی اُمید اور وعدے کی یاد دہانی کے طور پر اہمیت رکھتا ہے۔ اور یہ قیامت کی اُمید اور وعدہ کی تجدید کرتے ہوئے ایسٹر کے خا ص اتوار کو یہ دن منایا جاتا ہے۔
مسیحی تہوارکے طور پرمنائے جانے والا دن ”ایسٹر “دراصل لغوی معنوں میں یسوع مسیح کے مردوں میں سے جی اُٹھنے کا جشن ہے، جو موت پر اس کی فتح کی علامت ہے اور ابدی زندگی کی امید پیش کرتا ہے۔ کچھ دانشوروں اور محققین کی نظر میں لفظ ’’ایسٹر‘‘ کا تعلق جرمن دیوی ایوسٹری کے نام سے ہوسکتا ہے ، جس کا تہوا ر موسم بہار کے آغاز میں منایا جاتاہے۔ یا پھر”ایسٹر “کا لفظ لاطینی محاورے ’’ اِن البس ‘‘ سے آیا ہے جس کا مطلب ہے ”سفید میں” (ایسٹر کے ہفتے کے دوران نئے بپتسمہ یافتہ مسیحیوں کے پہننے والے سفید لباس کا حوالہ دیتے ہیں)۔
مسیحیت میں ایسٹر ایک اہم واقعہ ہے جو مقدس ہفتہ کے اختتام کو نشان زد کرتا ہے، اورجو یسوع مسیح کے مصلوب کیے جانے اورمردوں میں سے جی اٹھنے کی یاد میں منایاجاتاہے۔ ایسٹر کا بنیادی پیغام اس عقیدے کی بنیاد پر ہے کہ یسوع المسیح مردوں میں سے جی اُٹھتے ہیں ، اوراپنی الوہیت کو ثابت کرتے ہوئے اور انسانیت کو نجات کی پیشکش کرتے ہیں۔ یسوع کا جی اٹھنا مسیحیوں کو ابدی زندگی اور ایک نئے آغاز کی امید فراہم کرتا ہے، جس کی علامت بہار کے موسم سے ہوتی ہے۔
”فسح “کی یہودی تعطیل کے ارد گرد ایسٹر کا وقت اتفاقی نہیں ہے، کیونکہ یسوع مسیح کا اپنے شاگردوں کے ساتھ آخری عشائیہ /فسح کا کھانا تھا، اور اس فسح کو اس کے مصلوب ہونے اور جی اٹھنے کو پرانے عہدنامہ میں موجود پیشن گوئیوں کی تکمیل تھی۔
خُداوند یسوع مسیح کی مصلوبیت ، موت اور دوبارہ زندہ ہونے کے متعلق پیشن گوئیوں کا درست تعین کرنا مشکل ہے۔بہت سے علماءاور ماہرینِ الہٰیات کا خیال ہے کہ عہد نامہ قدیم میں متعدد پیشین گوئیاں ہیں، جن میں سے کچھ کو یسوع مسیح کے مصلوب کیے جانے اور موت کی پیشین گوئی سے تعبیر کیا جاتا ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق بائبل مقدس کے عہدِ عتیق میں اس حوالے سے سینکڑوں پیشن گوئیاں پائی جاتی ہیں۔ عہد نامہ جدید میں مرقس کی انجیل میں، عام طور پر جسے قدیم ترین اِنجیل ہونے پر اتفاق کیا جاتا ہے، یہ اِنجیل جو کہ 70 سن ِ مسیحی کے لگ بھگ لکھی گئی، یسوع نے اپنی موت کی تین بار پیشین گوئی کی، جو مرقس 8:31-33، 9:30-32 اور 10:32-34 میں درج ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ریاضی دان پیٹر سٹونر نے پرانے عہد نامہ کی صرف 48 پیشین گوئیوں کو پورا کرنے والے ایک آدمی کے امکان کو شمار کیا جو خاص طور پر ہمارے نجات دہندہ یسوع مسیح کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ اس نے بعد میں اشارہ کیا کہ یسوع مسیح نے اپنی زمینی زندگی میں پرانے عہد نامہ کی 324 سے زائد پیشین گوئیاں پوری کیں۔
یسعیاہ نبی کے صحیفہ میں( 5:53)یسوع کی صلیبی موت کی پیشن گوئی ملتی ہے۔جو کہ ایک ایسے شخص کی بات کرتا ہے جسے ”مصیبت کا شکار خادم” کہا جاتا ہے، جو دوسروں کے گناہوں کی وجہ سے دکھ اٹھاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یسوع مسیح نے صلیب پر اپنی موت کے ذریعے اس پیشین گوئی کو پورا کیا۔ یسعیاہ 5:53 کی آیت کو روایتی طور پر مسیحیوں کی اکثریت نے یسوع مسیح کو مسیحا کے طور جانا ہے۔اس آیت کا بیان ملاحظہ ہو”۔۔۔حالانکہ وہ ہماری خطاؤں کے سبب سے گھائل کیا گیا۔ اور ہماری بدکرداری کے باعث کچلا گیا۔ہماری ہی سلامتی کے لیے اُس پر سیاست ہوئی تا کہ اُس کے مارکھانے سے ہم شفا پائیں۔“یسعیاہ نبی کے علاوہ عہدِ نامہ عتیق میں مزامیر میں اور زکریا کی کتاب میں اس کی مصلوبیت اور موت کا ذکر ملتا ہے۔
عہد نامہ جدید میں مرقس رسول کی انجیل 6:16 میں مرقوم ہے”۔۔۔تم یسوع ناصری کو جو مصلوب ہوا تھا ڈھونڈتی ہو، وہ جی اُٹھا ہے۔۔۔“ اس ایسٹر پر تمام مسیحی ایمانداروں کے لیے یہی الہٰی پیغام ہے۔ابنِ آدم اپنی خدمت اور بشرِ کل کے کفارہ کا مشن پوراکرکے ، موت اور قبر پر فاتح ہو کر جی اُٹھا ہے۔ اور آسمان پر صعود فرمانے کے بعد اپنے وعدے کے مطابق اپنے لوگوں کو ساتھ لے جانے کے لئے جلد آنے والا ہے۔
*******