فیس ماسک : ایورسٹ جان

میں نے کس زمانے میں انجانے میں ایک شعر لکھ دیا جو اب سچا ثابت ہو گیا، “نیتیں کیا عیاں ہوں چہرے سے – ہر کوئی جب نقاب میں آۓ۔” لیکن کیا ہے میں سوچتا ہوں کہ فرشتوں اور پریوں سے ملنے کے لئے ماسک پہن کر پریوں کے دیس صحرا میں چلا جاؤں کیونکہ کوئی بھی مجھے ماسک میں پہچان نہیں سکتا اور نہ میں ان کو۔ ایسے لگتا ہے کہ یہ دنیا ایک خلائی مخلوق بن چکی ہے جیسے ہم کبھی ان کو افسانوں میں دیکھتے تھے، مگر اب وہ ہمیں دیکھنے آتے ہیں۔ اب معلوم ہوا کہ خلائی مخلوق اپنا چہرہ کیوں ڈھانب کے رکھتی ہے؟ پالوشن، ہوا میں ملاوٹ، پانی میں ملاوٹ، موسم کی تبدیلیاں، اور یہاں تک کے انسانی رویوں کی تبدیلیاں، “ہر کوئی جب نقاب میں آئے۔”
میں نے ریت کے طوفانوں کا مقابلہ کرنے کے لئے فیس ماسک پہنا، سموگ سے بچنے کے لئے فیس ماسک پہنا، سارس کے دنوں اور نئے کرونا کے دنوں میں فیس ماسک پہنا۔ اور جب کرونا کا زور ٹوٹ گیا میں نے فیشن کے طور پر فیس ماسک پہنا۔ فیشن ماسک کا یہ عالم ہے کہ فیس ماسک تو اب زیور کا حصہ بن چکے ہیں۔ اور پھر اس سے بڑھ کر ہر بڑے سٹور میں فیس ماسک کا علیٰحدہ کارنر کھل چکا ہے جہاں پر عجیب وغریب قسم کے ماسک دستاب ہیں۔
کیا میں نے نگرانی کے نظام سے بچنے کے لئے فیس ماسک نہیں پہنا؟ کسی زمانے میں بینک لوٹنے والے ڈاکو فیس ماسک پہنا کرتے تھے، مگر اب بینک کے عملے نے بھی فیس ماسک پہنا ہو تو انکو پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے کہ مینیجر کون ہے اور ڈاکو کون؟ لیکن مجھ سے اتنا نہ ہوا کہ بینک لوٹ لیتا۔ فیس ماسک میں ایک خاص پاگل پن ہےاور وحشیانہ قوت ہوتی ہے، تاہم، اس لئے اب بینکرز کو بھی چہرے کے ماسک کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہیے اور ایسے ماسک استعمال کرنےچاہیے جن سے ان کی چمکیلی آنکھیں ڈاکوں کی دھندلی، گھبراہٹ، سفاک آنکھوں پر فتح حاصل کریں۔ لیکن آخر کار ڈاکٹروں اور نرسوں سے، فیس ماسک پہنے ہوئے لوگ صرف خوف زدہ شہری ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ فیس ماسک ان کی حفاظت کر رہے ہیں۔ جن غنڈوں کو ہم فلموں میں دیکھتے ہیں وہ فیس ماسک نہیں پہنتے۔ بلکہ آج کل دھندناتے ہوئے پولیس مقابلہ کرتے ہیں چاہے مارے ہی کیوں نہ جائیں۔ جیسا میں نے پہلے کہا آج کل ڈاکو ماسک نہیں پہنتے بلکہ بینک کا عملہ پہنتا ہے۔ پرانے زمانہ میں انسان کی پہچان اس کے کاموں سے ہوتی تھی اب فیس ماسک کے سٹائل سے ہوتی ہے جیسے ہم اشتہاروں میں اور تصویریں میں دیکھتے ہیں۔
آج کے دورمیں نوجوان انٹرنٹ ٹرول کرنے، جعلی فیس بک پر لڑکی کی تصویر لگا کر لڑکوں سے پیسے بٹورنے، گمنام پوسٹوں پر دھمکی کے پیغام بھیجنے، والے دراصل اپنے ماسک کے اوپر دُھوپ کا چشمہ لگا لیتے ہیں، جو اکثر ہیکرز کے کام کے لئے نہایت مفید ہیں۔ اور بالخصوص اکاونٹ ہیک کرنے کے لئے بغیر اشتہار کے ملازمت کے لئے دستیاب ہیں، کمپنیاں ان کو بغیر تلاش کئے ڈھونڈ لیتی ہیں۔ میرے لئے یہ غیر مناسب نوکری ہے کیوں کہ جب مجھے کاغظ کا ماسک پہن کر منہ دھونا پڑتا ہے تو میں بے نقاب ہو جاتا ہوں۔
لیکن کووڈ-19 کا خوف ابھی تک منڈلا رہا ہے. اسی لئے محتاط شہریوں نے اپنے کتوں اور بلیوں کو بھی ماسک پہنائے ہوے ہیں۔ میں کوئی گھوڑ ریس کا شوقین نہیں مگر گھوڑوں کے پہناۓ گئے ماسک مجھے ریس کورس کھینچ لے گے۔ جہاں میں تو ہار گیا کیوں کہ گھوڑا وہی جیتا جس نے ماسک نہیں پہنا ہوا تھا۔ مجھے کہا گیا کہ یہ حقیفت پسندی ہے جو افسانہ نگاروں کے لئے نہایت مفید ہے۔ اب یہ حالت ہے کہ کھانا کھانے کے لئے ذپ والے ماسک پہنو، سگریٹ نوشی کے ليے پائپ لگے ماسک پہنو، محبت کرنے کے لئے فیس ماسک پہنو، دھوکہ دینے کے لئے فیس ماسک پہنو، کیونکہ یہ اب حقیقت ہے، اور ہمیں حقیقی دنیا میں ہی رہنا ہے، ورنہ لوگ ہمیں قدامت پسند ہی سمجھیں گے۔ اسی لئے دوسرے سیاروں پر ہم ماسک پہن کر ہی جا سکیں گے،
اگر وہاں نئی دنیا آباد ہی کرنی ہے تو اس ماسکی دنیا میں یہ زندگی کا اہم حصہ ہوگی۔
کووڈ کے دنوں میں میری ماں نے الماری سے ماسکوں کا وہ ذخیرہ نکالا جو اس نے سارس کی بیماری کے پھیلاو کے وقت سے سنبھال کر رکھے تھے۔ لیکن اس ذخیرہ کے ختم ہونے کے بعد میں نے ماسک کی فیکٹری لگانے کا سوچا مگر میرا سارا وقت معاشرے، معاشیات، اور تاریخ کے بارے تحقیق میں گزر گیا، اور پھر عدم سمجھ پر افسوس ہی کرتا رہ گیا اور ساری مارکیٹ پر چین چھا گیا۔ لیکن آج میں سوچتا ہوں کہ آج کل ماسک کا استعمال اتنا اہم ہے کہ آپ کو سیاست کے ایوانوں میں ماسک 47 ہی پہننا پڑے گا کیونکہ اصلی ماسک 45 پر تو پابندی لگ چکی ہے۔
کووڈ کے دنوں میں ماسک کے پہننے پر عجیب و غریب واقعات پیش آۓ۔ آسٹریلیا میں ماسک پہنے چینی باشندوں کی پٹائی ہو گئی کیونکہ عام طور پر دوسرے ممالک چین کو کووڈ کا زمہ دار سمجھتے تھے ایسے میں چینی باشندوں کو ماسک پہننے کا کوئی حق نہیں۔ ایک اور واقع میں ماسک کی پابندیوں پر سختی سے عمل کروانے کے لئے پولیس کے سپاہیوں نے چند عورتوں کو روک لیا، وہ عورتیں اپنے مذہبی عقیدے کے مطاپق نقاب (پورے چہرے والا) پہنے ہوئی تھیں مگر پولیس نے ان پر جرمانہ ٹھونک دیا کیونکے انہوں نے نقاب کے نیچے ماسک نہیں پہنا ہوا تھا۔ ایک ریسٹورنٹ کے گاہکوں میں بھی پابندی کی وجہ سے کمی ہو گئی تو اس نے اپنے گاہکوں کے لئے منہ کے آگے ذپ والے ماسک منگوا لئے۔ کچھ غریب لوگ بیچارے ماسک کو ہی دوائی سمجھنے لگ پڑے جس سے کوڈد کی دوائی بنانے والی فیکٹریاں بند ہو گئیں۔
آخر میں عرض ہے کہ کچھ لوگ مجھے فیس ماسک میں نہیں پہچانتے، چوں کہ میں خود فیس ماسک پہنتا ہوں میں خود کو نہیں پہچانتا اپنے ذہن میں، میں تصدیق کرتا ہوں کہ میں کون ہوں، لیکن میرا چہرہ ہمیشہ میری تردید کرتا ہے۔ لیکن جب میں فیس ماسک اتارتا ہوں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اب یہ آپ کا فیصلہ ہے کہ فیس ماسک اترانا ہے کہ پہننا ہے۔ شناخت کو برقرار رکھنا ہر کسی کا بنیادی فرض ہے، مانو یا نہ مانو۔ ماسک ہی ہمارا مستقبل ہے۔
*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading