قیامت اور زندگی- ڈاکٹر عادل امین

یہودیت کے مطابق، ہر سال ”روش ہاشانا“عدالت کا دِن ہوتا ہے۔بعض ربیوں کا نظریہ ہے کہ عدالت کا یہ دِن مُردوں کے جی اٹھنے یعنی قیامت کے بعد آئے گا، نیز مُردوں کا جی اُٹھنا زمانوں کا آخری دِن ہو گا۔ کچھ ربیوں کا ماننا ہے کہ’روش ہاشانا‘ کے ہوتے ہوئے آخری عدالت کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ یہی حتمی عدالت ہے۔کچھ لوگ ایمان رکھتے ہیں کہ کسی کے مرنے کے وقت ہی اُس کی عدالت ہو جاتی ہے۔یہودیوں میں سے بعض کا یہ نظریہ ہے کہ آخری عدالت صرف غیر قوموں کی ہو گی، یہودیوں کی نہیں۔یوحنا کی انجیل کے گیارہویں باب میں مرتھاؔ کا بیان ہمیں کچھ باتوں پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔یسوع کی زمینی خدمات کے دَور میں بنی اسرائیل میں قیامت سے متعلق کیا عقیدہ یا نظریہ پایا جاتا تھا۔ اُن کے نزدیک قیامت کیا تھی، آخری دِن سے کیا مُراد تھی۔اُس وقت قیامت سے متعلق عقائد یا نظریات اگرچہ مختلف تھے لیکن ”قیامت“ اِن سب میں قدرِ مشترک تھی۔مرتھا ؔ اپنے بھائی کی موت پر غمزدہ تھی، لیکن چوتھے دِن تک وہ اتنی ضرور سنبھل چُکی تھی کہ اُس نے قیامت کے بارے میں اپنا نظریہ پوری طرح بیان کیاجس کی بُنیاد اُس کی معلومات پر تھی۔
”۔۔۔اور اب بھی میں جانتی ہوں کہ جو کچھ تُو خدا سے مانگے گا وہ تجھے دے گا۔“ (یوحنا 22:11)
اِس جملہ سے مرتھاؔ کی کیا مراد تھی، یہ بالکل اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ بادی النظر میں وہ اپنے یقین کا اظہار کر رہی تھی کہ یسوع جو کچھ بھی خدا سے مانگے گا وہ ہو جائے گا، سوائے لعزر کو زندہ کرنے کے۔ کیونکہ 21 ویں آیت میں وہ اپنی مایوسی ظاہر کر چکی ہے کہ ”اگر تُو یہاں ہوتا تو میرا بھائی نہ مرتا“۔تب یسوع نے ایسی بات کہی جو مرتھا ؔ
کے نظریہ سے متصادم تھی، مرتھا ؔیکدم اپنے عمومی نظریات کی تنگ گلیوں میں کھو گئی۔
یقینی طور پر مرتھاؔ اپنے عقیدے، تعلیمات اور نظریہ میں بہت مضبوطی سے کھڑی تھی۔یہی وجہ ہے کہ اُس نے اپنے بھائی کے زندہ ہو جانے کی نوید کو ”آج کی خوشخبری“ نہ سمجھاجو خود یسوع نے سُنائی تھی کہ ”تیرا بھائی جی اُٹھے گا“(23)۔
لعزر کے زندہ ہونے کی بابت جتنا اعتماد یسوع کو تھا، مرتھا ؔ کو بھی اُسی حد تک یقین تھا اور اُس نے بھی ایسے ہی اعتماد کے ساتھ جواب دیا کہ ”میں جانتی ہوں کہ قیامت میں آخری دِن جی اُٹھے گا۔(24)“
یہودیوں کے درمیان موت، قبر، عالمِ ارواح، گیہینوم(جہنم)، عدالت، سزا، جزا، قیامت جیسے موضوعات زیرِ بحث رہتے تھے۔ ربیوں کو عام لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنے کے لئے ایسے کئی دلچسپ مواقع حاصل رہتے تھے۔کچھ کا خیال تھا کہ جہنم نام کی کوئی جگہ موجود نہیں، یہ ایک باطنی احساس ہے، شرمندگی، ندامت کا احساس، احساسِ جرم۔ جبکہ بعض کا خیال تھا کہ موت کے بعد عالمِ ارواح ایک باقاعدہ نظام ہے جس میں روحوں کی صفائی کا کام ہوتا ہے، بالکل کسی واشنگ مشین کی طرح۔ اِن روحوں کو صفائی کے بعد دوبارہ پاک حالت میں بدنوں میں لایا جائے گا۔ تب وہ خدا کی حضوری میں مقبول ہونے کی حالت میں ہوں گے۔ عدالت کا آخری دِن یعنی روحوں اور بدنوں کے از سرِ نو مِلاپ کا دِن ہی قیامت (مُردوں کے جی اُٹھنے) کا دِن ہو گا۔
قیامت کا دِن تو جی اُٹھنے کا ہی ہو گا، لیکن کب؟ آخری دِن؟ زمانوں کا اخیر، یا عدالت کا آخری دِن؟ یہ تعین کس کو کرنا تھا کہ عدالت کتنی دیر چلے گی، کون کتنی دیر واشنگ مشین میں رہے گا، کس کی گندگی کتنی ہے؟اِس سلسلہ میں عام خیال یہ تھا کہ جس شخص کے گناہ جتنے زیادہ سنگین ہوں گے اُس کی صفائی میں بھی اُتنی ہی دیر لگے گی۔ بہرحال، اُس عدالت کا ایک آخری دِن ضرور ہے۔ لیکن کیا ایمان دار اور کیا گناہ گار، آخری دِن میں قیامت کے لمحات تک اُن سب کو اُسی جگہ یعنی واشنگ مشین میں ہی رہنا ہو گا۔ وہ سب ایک ہی دِن جِلائے جائیں گے، قیامت کا ایک ہی دِن ہو گا۔ کہیں مرتھاؔ یہ تو نہیں سمجھ رہی تھی کہ یسوع شاید اِن باتوں اور نظریات سے واقف نہیں؟ یا اِس گفتگو کو کسی کی موت یا جنازے کے وقت اکثر شروع ہو جانے والی عام گفتگو سمجھ رہی تھی؟ ایک طرف لعزر کے زندہ ہو جانے کی خوشخبری، دوسری طرف عام نظریات۔ عجیب منظر تھا۔ فطری سی بات ہے کہ اُس گھر میں ایک شخص کی موت واقع ہوئی تھی اور ماحول میں غم اور افسردگی موجود تھی۔ لیکن جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا گیا ہے، اس واقع کو چار دِن ہو چکے تھے۔لہٰذا غم کا بوجھ کسی حد تک کم ہو چکا تھا، لیکن اِس گھرانے کے افراد میں ایک اور طرح کا غم بھی تھا،یعنی ”اگر تُویہاں ہوتا۔“
یہودیوں کی آخری حد تک کوشش ہوتی تھی کہ اُن کی تدفین کوہِ زیتون پر ہی ہو سکے، یہ دُنیا کا سب سے بڑا اور مہنگا ترین قبرستان ہے۔یہاں موجود قبروں کی تعداد قریب قریب ڈیڑھ لاکھ ہے۔غریبوں کو عموماً یہاں جگہ نہیں مل پاتی تھی۔ امیر لوگ پورے پورے گھرانے کیلئے قبریں خرید کر پیشگی انتظام کر لیتے تھے۔اور یہ عقیدہ بھی موجود تھا کہ جو یہودی دُور دراز علاقہ میں مریں گے،آخری دِن کے لئے اُنہیں عالمِ ارواح کی اَن دیکھی سرنگوں کے ذریعہ سے یہاں تک لایا جائے گا، اور وہ سب ایک ہی جگہ سے جی اُٹھیں گے۔یسوع نے مرتھا ؔ سے کہاکہ ”قیامت اور زندگی تو میں ہوں۔ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے گو وہ مَر جائے تو بھی زندہ رہے گا (25)۔“ اوّل الذکر تمام تر نظریات کی موجودگی میں یہ بات مرتھا ؔ کو کیسے سمجھ آ سکتی تھی؟ابھی شاید وہ اپنے خیالات کے حصار میں ہی تھی کہ ایک اور بڑی حقیقت اُس کی سماعت کی زینت بنی۔”اور جو کوئی زندہ ہے، اور مجھ پر ایمان لاتا ہے وہ ابد تک کبھی نہ مرے گا۔کیا تُو اِس پر ایمان رکھتی ہے؟(26)“
لعزر کی موت کی بعد لعزر کے گھر میں تعزیت سے زیادہ قیامت کے موضوع پر مناظرہ جیسا ماحول بن گیا تھا۔ مرتھاؔ نے بڑے یقین کے ساتھ اپنے عقائد بیان کیے،یسوع نے اپنی قدرت کے اعتماد اور اختیار کا اظہار کرتے ہوئے مرتھاؔ کا قیامت سے متعلق ہر طرح کا دعویٰ اور یقین ردّ کر دیا اور اُس کے تمام تر عقیدوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے براہِ راست اُس کے ایمان کی بابت سوال کر دیا۔ یسوع نے اُسے دو ٹوک بتا دیا تھا، کہ وہ قُدرت، وہ اختیار، وہ وقت، وہ دِن، وہ گھڑی اور وہ شخص جو مُردوں کو زندہ کرنے والاہے وہ ”مَیں ہوں“۔ قیامت اور زندگی تو مَیں ہوں۔ ”کیا تُو اِس پر ایمان رکھتی ہے؟“یعنی مرتھاؔ کے سامنے یہ چیلنج رکھا گیا کہ ”تیرا ایمان اُس قیامت پر ہے جو تُو نے سُن رکھی ہے“لیکن ”کیا تُو اِس قیامت پر ایمان رکھتی ہے، جو تیری سامنے کھڑی ہے“۔ حیرانی کی بات ہے کہ مریم نے اِس آخری بات کا وہ جواب نہیں دیا جو دراصل اُسے دینا چاہئے تھا۔ مرتھاؔ نے آخری بات کر کے پچھلی ساری گفتگو کا رُخ کسی اور طرف ہی موڑ دیا۔
”میں ایمان لا چکی ہوں ……کہ ……’خدا کا بیٹا مسیح‘ ……’جو دُنیا میں آنے والا تھا‘ …… ’تُو ہی ہے‘۔(27)۔
لیکن اِس ایمان میں قیامت کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ ایسی تفصیلات موجود نہیں جس سے معلوم ہو سکے کہ مرتھاؔ نے ”اِس قیامت“ پر بعد میں ایمان رکھا یا نہیں، لیکن لعزر کے زندہ ہو جانے کے بعد اتنا ضرور ہوا کہ قیامت یعنی مُردوں کے جی اُٹھنے کی بابت اُس کے نظریات ہوا میں اُڑ گئے۔لیکن مُردوں کو زندہ کرنے کے بارے میں یہ ایمان کہ ”قیامت اور زندگی تو مَیں ہوں“شاید اِس میں کچھ دِن باقی تھے۔
وہ ہفتہ کا پہلا دِن تھا……کچھ عورتیں صبح سویرے خوشبودار مصالحے لے کر یسوع کی قبر کی طرف روانہ ہوئیں۔ سوچ رہی تھیں کہ ہمارے لئے پتھر کون لڑھکائے گا؟ یاد رہے کہ اُن کے اذہان میں لعزر کی قبر سے ہٹایا گیا پتھر ہرگز نہیں تھا، بلکہ فکر یہ تھی کہ ہم کیسے یسوع کی لاش تک پہنچ سکیں گی۔کون اُس کی قبر پر رکھا ہوا پتھر ہٹائے گا؟ ہمارے لئے کیسے ممکن ہو گا کہ اُس کی لاش کو خوشبو لگا سکیں۔یہاں بھی قیامت زیرِ غور نہیں تھی۔قبر پر پہنچ کر ……اُنہوں نے نگاہ کی تو پتھر لڑھکا ہوا تھا(مرقس4:16)۔ قبر پر سے بہت ہی بڑا پتھر لڑھکا ہوا تھا، قبر کے اندر ایک جوان سفید جامہ پہنے ہوئے د ہنی طرف بیٹھا تھا، وہ عورتیں نہایت حیران ہوئیں۔پتھر خاموش تھا، قبر خاموش تھی، وہ عورتیں بھی خاموش تھیں ……تب اُس جوان نے اُن سب کے سامنے ”قیامت“ کا ذکر کیا، جو رونما ہو چکی تھی……”وہ جی اُٹھا ہے“……”وہ یہاں نہیں ہے“۔ چند روز پہلے قیامت ہمکلام تھی، اور آج قیامت خود کو ثابت کر کے جا چکی تھی……نظریات ہار چُکے تھے، قیامت جیت چُکی تھی۔ کوہِ زیتون قبروں سے بھرا پڑا تھا، پرانی قبریں، نئی قبریں، جدِ امجد کی قبریں، انبیا کی قبریں، یہودیوں کی قبریں۔ سب قبریں خاموش تھیں، صرف ایک قبر چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ ”قیامت“ یہاں سے ہو گزری ہے۔ قیامت یہاں رکھی گئی تھی ……قبر کی یہ چیخ و پکاراُن عورتوں سے شروع ہو کر شاگردوں تک، مرتھاؔ تک، گلیل کے قرب و جوار تک، ہیرودیس کے محل تک، پیلا طُس کے کانوں تک، کاہنوں کی مجلس تک، سردار کاہنوں تک بھی پہنچی۔ قیامت خود کہہ رہی تھی کہ ……قیامت اور زندگی تومَیں ہوں۔ اس قیامت کے بعد سے جتنوں نے قیامت کو دیکھا اور سُنا اُن سب کو کوہِ زیتون کی قبروں پر رکھے پتھر ہلکے پھلکے لگنے لگے۔ اُس دِن سے ”قیامت اور زندگی“ پر ایمان لانے کا آغاز ہو گیا۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading