مزدور ڈے پہ آپ کے ذہن میں صرف دھول پسینے میں لت پت راج مستری، بھٹہ مزدور یا سبزی بیچنے والے ہی آتے ہیں تو آپ غلط ہیں یہ سب اپنی محنت کے مطابق اپنی مزدوری طے کرتے ہیں اور پھر لینا بھی جانتے ہیں۔۔۔!۔
ہمارے ہاں اصل استحصال پرائیویٹ سکول اور کالجز، ہسپتالوں اور دفتروں میں ہو رہا ہے۔۔۔ ! اچھے خاصے پڑھے لکھے اور تربیت یافتہ نوجوان دس دس پندرہ ہزار پہ رکھ لیے جاتے ہیں۔۔۔ یہاں بھی پہلے دو تین ماہ انٹرن شپ کے نام پہ بلا معاوضہ ان سےمشقت لی جاتی ہے اور پھر کسی بہانے سے نکال کر نیا چوزہ رکھ لیا جاتا ہے۔۔۔! رکھ لیا جائے تو گرمیوں کی چھٹیوں کی تنخواہ نہیں دی جاتی۔۔۔!۔
اس ملازمت نما حبس ِ بے جا میں جو ذہنی تشدد کیا جاتا ہے ان پر وہ الگ سے ہے۔۔۔! چونکہ ان ملازمتوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی اس لیے آپ کسی لیبر کورٹ میں نہیں جا سکتے۔۔۔! اس لیے پرائیویٹ سکول مالکان (جو پہلے فیکٹریاں چلایا کرتے تھے اب سکول کھول رہے ہیں) اپنی مرضی سے ان کی تنخواہ طے کرتے ہیں۔۔۔ !ہمارے ہاں کتنی این جی اوز ہیں جو بھٹہ مزدوروں کے حقوق کی بات کرتے ہیں کبھی کوئی ادارہ ان استحصال زدہ لوگوں کے لیے بھی آواز اٹھائے۔۔۔ ! یاد رکھیں ایک بھٹہ مزدور دن کا ایک ہزار تک کماتا ہے، راج مستری بارہ سے پندرہ سو، اس کے ساتھ اینٹیں اٹھانے والا ایک ہزار۔۔۔ یوں ان کی کم سے کم آمدن پچیس سے تیس ہزار ماہانہ بنتی ہے (گو یہ بھی بہت کم ہے) ۔۔ اب سوچئے پندرہ ہزار ماہانہ پہ رکھا ہوا ایم اے یا بی ایس بچہ کی یومیہ آمدن کتنی بنتی ہے؟ اور اس میں اس نے روزانہ نہا دھو کے صاف کپڑے پہن کے جانے ہیں، جوتے پالش رکھنے ہیں، موٹرسائیکل یا رکشہ بھی استعمال کرنا ہے۔۔۔!۔
خدارا ان کے لیے آواز اٹھائیے۔۔۔ ! آپ سب جو رو رہے ہیں کہ”مزدور ڈے پہ مزدور کو چھٹی نہیں ہے ” پتا کر لیں ان کو بھی چھٹی نہیں ہے ان میں سے کوئی پیپر مارک کر رہا ہوگا کوئی رزلٹ تیار کر رہا ہوگا کوئی میم یا سر کی برتھ ڈے کے کارڈ بنا رہا ہوگا۔۔۔!ضلعی حکومتیں بہت آسانی سے اس سب کا سدباب کر سکتی ہیں پرائیویٹ سکول اور کالجز کو حکومت کے طے شدہ اجرت لازم کروا سکتی ہے۔ انٹرن شپ کے نام پہ ہونے والا بے ہودہ مذاق بند کروا سکتی ہے۔ لیکن اگر چاہے تو۔۔۔!۔
اپنی ذلت کی قسم آپ کی عظمت کی قسم
ہم کو تعظیم کے معیار بدلنا ہوں گے
*******