آج کل ہمارے ملک میں جناب ڈاکٹر ذاکر عبدالکریم نائیک حکومت کی طرف سے سرکاری مہمان کی حیثیت سے تشریف فرما ہیں اور کراچی ، اسلام آباد، لاہور وغیرہ میں اسلامی لیکچرز دے رہے ہیں مگر بنیادی طور پر وہ دوسرے مذاہب کے ساتھ اِسلام کے حق میں دلائل دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کیونکہ معروف اسلامی اسکالر ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کی دھوم مچی ہوئی ہے۔
میں یہاں پر اپنے اُن تمام مسیحی بھائیوں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں کہ اُنہی کے میدان میں جا کر اُنہوں نے اُن سے سوالات کیے اور بحث کی مگر مجھے ذاتی طور پر ڈاکٹر نائیک صاحب کے متعصبانہ، کھو کھلے اور غصیلے رویے سے بہت مایوسی ہوئی۔ نہ صرف انہوں نے مسیحیوں کو اپنی طاقت اور ماحول اور اکثریتی مسلم حاضرین کی وجہ سے دبانے اور رسوا کرنے کی کوشش کی بلکہ وہ باطن میں اتنے چھوٹے نظر آئے کہ ایک پشاور سے آئی ہوئی مسلم لڑکی کے سوال کا جواب دینے کی بجائے ڈاکٹر صاحب نے انہیں ہی سر عام رسوا کر دیا حالاں کہ ذاکر صاحب کے پاس اچھا موقع تھا کہ مسلم حاضرین کو اسلام کی تعلیم دے کر راہ ِراست پر لانے کی تعلیم اور روشنی دیتے۔ مجھے وہ اپنی ذات میں محدود ایک قیدی سے نظر آئے۔ ایک جگہ گئے تو چھوٹی بچیوں سے ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا کہ وہ اُن کے عقیدہ یا سمجھ کے مطابق نامحرم ہیں۔ ایسی اور بھی کافی باتیں اُنہوں نے کیں۔
حیرت ہے کہ یہ شخص اگرچہ معروف مسلم اسکالر ہے مگر متنازعہ ہے اپنے ملک ہندوستان سے مفرور ہے وہاں کا قانون اور تفتیش کرنے والی اتھارٹیز کو یہ درکار ہیں۔ اُن پر منی لانڈرنگ اور ملک میں نفرت پھیلانے کے الزامات ہیں جن کا وہ خود انکار کرتے ہیں مگر ملک میں جا کر قانون کا سامنا نہیں کرتے۔ اس لئے ملائیشیا میں مقیم ہیں۔ بنگلہ دیش، سری لنکا، برطانیہ اور کینیڈا وغیرہ کی حکومتوں نے بھی ان کا داخلہ مذہبی نفرت اور دہشت گردی پر اُکسانے کی وجہ سے بند کر دیا ہوا ہے۔ اگرچہ وہ خود ایک مذہبی چینل پیس ٹی وی کے مالک اور صدر ہیں لاکھوں لوگ اُنہیں فیس بک ، ٹویٹر وغیرہ پر فالو کرتے ہیں۔ بظاہر بڑا اور موثر آدمی ہے مگر مجھے اس پر ترس آیا۔
سوشل میڈیا پر اس کے تنگ نظری کے خیالات کی مخالفت ہو رہی ہے۔ انڈیا کے حکومتی نمائندہ جناب رندھیر جیسوال نے کہا کہ اُنہیں ڈاکٹر نا ئیک صاحب کے پاکستان آنے سے مایوسی ہوئی جو قابل مذمت ہے مگر حیران کن نہیں۔ ہمارے اپنے سابقہ سفیر جناب حسین حقانی جو امریکہ میں 2008ءسے 2011ءتک خدمات سر انجام دیتے رہے کا ذاکر نائیک صاحب کے وزٹ کے حوالہ سے کہنا ہے کہ بنیاد پرست مبلغین اپنے ہی (پاکستانی ) کافی ہیں باہر سے بلانے کی ضرورت نہیں۔“ نامور صحافی محترم مبشر لقمان صاحب نے بھی ذاکر نائیک صاحب کے منفی اور انتشار انگیز رویے کے باعث ان کا انٹرویو لینے سے واضح طور پر انکار کر دیا۔
وہ بغیر ثبوت کے اِنجیل مقدس پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ بدل دی گئی ہے۔ یسوع مسیح خدا نہیں ، وہ مصلوب نہیں ہوا تو مردوں میں سے جی اُٹھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ مسیحی ایمان کی بنیادی سچائیاں ہیں۔ دنیا بھر میں اربوں انسان خداوندمسیح کو فالو کرتے ہیں یہ موصوف باقاعدگی سے ، ڈھٹائی سے اپنے عقیدہ میں رہ کر محدود دلائل دیتے ہیں جن کا اِنجیل کی سچائی سے کوئی تعلق نہیں۔ سیاق و سباق میں بات نہیں کرتے صرف لفظوں سے کھیلتے ہیں مگر اصل مواد کی طرف بہت کم جاتے ہیں۔
مَیں یہاں مسیحی نوجوانوں ، بہن بھائیوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ ہم مسیح یسوع کے مبارک، فاتح اور جلالی نام سے کہلاتے ہیں۔ یہ ہمارا فخر اور شرف ہے۔ تاریخ یسوع کی سچائی کی گواہیاں دیتی ہے، کروڑوں تبدیل شدہ زندگی کے تجربات اور معجزے مسیح کی مبارک اور زندگی بخش تعلیم اس کی زندہ گواہ ہیں۔ اِنجیل ِ مقدس کے الہامی اور لا تبدیل ہونے کا ثبوت یہ بھی ہے کہ اس پر الزام لگانے والوں نے آج تک ”اصل اِنجیل“ جس پر وہ ایمان لانے کا دعوی کرتے ہیں وہ پیش تو نہیں کی حالاں کہ اس کا وجود اِسلام سے کوئی چھ سو سال پہلے کا ہے۔ کہیں تو پڑی ہوگی جس سے اُنہیں پتہ چلا کہ موجودہ اِنجیل بدل گئی ہے۔
ہمارے پاس دُنیا کی عظیم ترین خوشخبری ہے؛اوّل: تو وہ خود یعنی یسوع مسیح ہے جو آج زندہ ہے اور ابد تک زندہ رہے گا اور آنے والا ہے۔ یہ زندہ یسوع نہ ہوتا تو اِنجیل ِمقدس بھی نہ ہوتی اصل اِنجیل یسوع ہے تحریری اِنجیل یسوع مسیح کا الہامی بیان ہے اس لئے مقدس کلام ہے۔
دوم: اِنجیل مقدس جو زندہ خدا کا کلام ہے۔اس خوشخبری کی گواہی دیتے رہیے یہ ہماری مسیحی ذمہ داری ہے۔
ہماری دعائیں تمام قارئین کے لئے ہیں خدا اُنہیں اچھی صحت کے ساتھ محفوظ رکھے۔آمین!۔
نوٹ: ”تادیب“کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری ہیں۔”تادیب“ ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔
*******