ویلنٹائنز ڈے اور خدا کی محبت : آصف نذیر

محبت ایک مقدس اور پاکیزہ جذبہ ہے لیکن کیا یہ واقعی چند چاکلیٹس، سرخ غباروں اور “آئی لو یو” کارڈز کی محتاج ہے؟ 14 فروری آتے ہی دنیا پر ایک عجیب سا جنون طاری ہو جاتا ہے جیسے محبت بھی کوئی موسمی تہوار ہو جس کا آغاز اور اختتام ایک مخصوص دن کے ساتھ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید دنیا نے اس دن کو محبت کے نام پر بے راہ روی، گناہ اور اخلاقی بگاڑ کے ایک ایسے تہوار میں بدل دیا ہے جہاں جذبات سے زیادہ نفسانی خواہشات کو ہوا دی جاتی ہے۔

یہ دن ترقی یافتہ ممالک میں ایک تجارتی ایونٹ بن چکا ہے جہاں جذباتی کھیل، مارکیٹنگ کی حکمت عملیوں میں بدل چکا ہے۔ لیکن ترقی پذیر ممالک میں یہ تہوار نوجوان نسل کو فحاشی، بے حیائی اور گناہ کی طرف دھکیل رہا ہے۔
تعلیمی ادارے، جو علم کے مراکز ہونے چاہئیں، ویلنٹائنز ڈے پر اخلاقی گراوٹ کے اڈے بن جاتے ہیں۔ یونیورسٹیز اور کالجوں میں لڑکے لڑکیاں ایسے تیار ہو کر آتے ہیں جیسے کسی شادی کی تقریب میں جا رہے ہوں۔ کچھ “عاشق” سرخ غبارے اور چاکلیٹس لیے اپنی “محبت” کا اظہار کرنے کو بےقرار ہوتے ہیں تو کچھ بےچارے جو سنگل ہوتے ہیں وہ سارا دن حسرت اور محرومی کے نغمے گنگناتے ہیں۔ محبت کی اس دوڑ میں سب کچھ جائز سمجھا جاتا ہے حتیٰ کہ وہ حدود بھی جنہیں پار کرنا ایک گناہِ کبیرہ ہے۔

یہ دن محبت کے نام پر جسمانی خواہشات کو فروغ دینے کا ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔ شرم و حیا جو کسی بھی پاکیزہ معاشرے کا زیورہوتا ہے موجودہ نسل کے لیے ایک دقیانوسی خیال بنتا جا رہا ہے۔ “محبت” کے نام پر پارکوں ، ہوٹلوں اور تفریحی مقامات پر جو کچھ ہوتا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ کیا یہی وہ محبت ہے جسے ہم رومانویت کا نام دے کر فروغ دے رہے ہیں؟

اب ذرا تصور کریں اگر خدا بھی ہماری طرح “ویلنٹائنز سٹائل” محبت کرتا۔ اگر وہ بھی سال میں صرف ایک دن اپنا فضل کرتا، صرف ایک دن دعائیں سنتا، صرف ایک دن گناہوں کو معاف کرتا اور باقی سال انسانوں کو نظرانداز کر دیتا۔ ذرا تصور کریں کہ پھر کیا ہوتا؟

لیکن نہیں! خدا کی محبت کسی تجارتی ڈیل کی طرح وقتی اور محدود نہیں۔ اس کی محبت ہر دن، ہر لمحہ، ہر ساعت کے لیے ہے۔ خدا نے اپنی محبت کا سب سے بڑا اظہار یسوع مسیح میں کیا جس نے محبت میں بنی نوع انسان کے گناہوں کی معافی کے لیے خود کوصلیب پر قربان کردیا۔ یہ محبت وہ نہیں جو نفسانی خواہشات پر مبنی ہو بلکہ وہ ہے جو ایثار، قربانی اور پاکیزگی پر قائم ہے۔

اصل محبت وہی ہے جو خدا نے ہمیں سکھائی۔پاکیزگی کے ساتھ، قربانی کے ساتھ اور ہر دن کے لیے۔ اگر محبت صرف 14 فروری تک محدود رہی تو پھر یہ محبت نہیں بلکہ محض ایک رسم ہے۔ اگر نوجوان واقعی محبت کرنا چاہتے ہیں تو وہ نکاح کے مقدس بندھن کو اپنائیں نہ کہ وقتی جذبات کی تسکین کے لیے گناہ کی راہ پر چلیں۔
سوچیں، کیا محبت کا مطلب بے حیائی، فحاشی اور گناہ ہے؟ یا محبت کا اصل مفہوم خدا کی مستقل، پاک اور ابدی محبت میں پوشیدہ ہے؟

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading