تعلیم زندگی کا زیور تو دوسری جانب بطور علم نبیوں کی وراثت ، اس میں دو رائے کی گنجائش باقی نہیں ہے۔ جہاں لفظ ” اقرا” سے آغاز لے کر اس کے دلائل دیے جاتے ہیں وہیں ” اقرا” کو سمجھنا بھی ہو گا کہ یہ کیا معانی و مفہوم دیتا ہے بلکہ یہ کن کو دے رہا ہے۔۔۔؟ اس سوال کا جواب قاری صاحب خود دیں گے۔۔۔ نہیں تو جواب کے منتظر آج بھی کئی چہرے اپنے چہروں پر کریم کا لیپ دیتے دیتے منوں مٹی کے اندر چلے گئے۔ جن کو قاری صاحب سے مطلب معلوم ہوا نہ ہونے دیا گیا مگر قاری صاحب ابھی تک نہیں آ سکے۔ اس کی وجہ یا تو وہ خود آنا پسند نہیں فرما رہے یا جاننے والا خود جاننا پسند نہیں فرما رہا۔ المیہ دونوں جانب برابر اور یکساں ہے۔ جوانی کی سیڑھی پر قدم رکھ کر بچگانہ حرکات کو مول لینا ، آ بیل مجھے مار کے مترادف ہے۔ یہی سلسلہ چلتا چلا گیا تو پھر تتلیاں رنگ بدل کر ضرور آتی مگر صلاحیتیں ماند پڑ جاتی ہیں۔
ایک طرف ہمارے تعلیمی اداروں کا المیہ جو یہاں آنے والوں کو محض کاغذ کا ٹکڑا دینے کے لیے لاکھوں فیسیوں کے روپ میں بٹور لیے جاتے ہیں وہیں کاروبار کی تلاش میں پھر کثیر الثقافتی نظام کے در پر ” اقرا” کے معانی بدل کر قید کی زنجیر میں بندھے پایا۔ جو مابعد روایتی سطح پر جبر کو ہوا دے رہا ہوتا ہے۔ ایسا بیانیہ حتمی نہیں بلکہ قسمی ہوتا ہے۔ جو نام نام پر قسم کھاتا نئے روپ لیے جگہ جگہ لفظوں کے غیر موزوں اشارے کرتا ملتا ہے۔
پہلے تو اس قوم کو قوم کہنا مناسب نہیں لگتا اگر چند لمحات کے لیے بول بھی لیا جائے تو قاری صاحب سے نجات نہیں ملتی۔ دوسری طرف خود چیلے صاحبان نجات لینا نہیں چاہتے۔ جب تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہاں تو براہ راست جنت کا ویزہ لگوا کر جنم لیا گیا ہے۔ تو پھر سمجھ جاو کہ جبر کا بازار ، ریاست کا اختیار وردی مع سرکار ان تعلیمی اداروں میں آکر آزادی کا وہم بیان کرتے ہیں۔
اس وہم کے انداز میں سوال کا انداز جبر و ظلم کی تیغ کو تیز کیے جگہ جگہ اندر باہر گُھورتے پایا۔ جن کے چہروں سے وہم انگیزی کی لہر اپنا عکس چاروں طرف بکھیرتی جاتی ہے۔ کبھی درزی کی قنیچی کا کنارہ تو کبھی وردی کا اشارہ جو طوائف کے منہ سنوارنے کی کشمکش کو غیر مہذب انداز میں جائز و ناجائز تعلقات کی بھینٹ چڑھا رہا ہے۔ ان حالات میں ضمیر زور زور سے چِلا کر کہتا ہے؛
” غیر مہذب طبقہ کی عکاسی ایک خبیث کا اشارہ ، حرام ذہینوں کے ٹولے میں لفظ ” اقرا” کا سہارا۔ یہ کوٹھے، مکان، اشرافیہ اور دُھواں چھوڑتے سلطانوں کا محاورہ۔ جگہ جگہ نفرت کے بیج کو ہوا دیے مڈبھیڑ کا لاوا۔ درسگاہ میں چوہے دان لگانے کی فخریہ پیش کش کر رہے ہیں۔ ”
پہلے تو یہ تعلیم کے نام پر درس گاہ کے باہر اُچھل کوُد پر فتح مندی کو اپنا مقدر سمجھتے، پر اب باہر نہ چلنے پائی تو احمقوں کی جنت بنا کر مدخل ہو کر جا چُھپے۔ جہاں صرف ایک ہی شرط رکھ کر اس ساری صورت حال کی ذمہ داری ہم پر نہیں۔ ڈیوٹی کس جگہ اور رُعب کسی اور جگہ۔۔۔یہ اور جگہ کا فرق جدید تقاضوں میں کچھ یوں مسائل پر مسائل جنم دے کر پھیلا کہ درس گاہ کا نظام بُری طرح برباد کرکے رکھ دیا۔ جو 78 سال میں سوالیہ نشان تھا آج اس کا جواب ڈنڈا دیے دونوں جانب کھڑا ہے۔ وہ کسی نے سوال کیا کہ پاکستان کے جھنڈا میں سفید رنگ کس کی علامت ہے؟ معصوم ہو کر جواب دیا امن کی علامت ۔۔۔جناب عالی! اسی امن کو آپ نے ڈنڈا دے رکھا ہے۔ وقت بہت بڑا اُستاد ہے۔ محاورہ کے طور پر بھی سمجھا جاتا ہے کہ وقت ایک جیسا نہیں ہوتا مگر یہ فلسفہ بھی غلط ثابت ہوا۔ آج بھی ایک دن میں چوبیس گھنٹے اور سال میں بارہ ماہ ہوتے ہیں۔ قاری صاحب سُن لیں جب خیال اور سوچ نے کروٹ بدلی تو زمانہ بدل گیا۔ اسی سوچ نے جاپان کو بم کھانے کے باوجود بدل دیا۔ اسی کروٹ بدلتی سوچ نے 1971 ء میں بنگال کو آزاد کروایا۔ اس فکر کے بدلنے سے فرانس کا انقلاب آیا۔ اس کی لہر یوں پھیلی کہ تمھاری وردی کے برابر قوم نے ایک ہو کر کئی بُرج گرا دیے اور اپنا لوہا منوایا۔ اب وہ وقت رہا اور نہ سوچ۔ تم لوگوں نے مدارس کا رُخ سہارا لیا جہاں پریس کانفرس کے نام پر دھمکیاں دیں۔ شعور کے نام پر شور مچایا۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ تعلیمی ادارے خالی کروا دیے۔ اُن جگہوں پر اس وقت المیہ ناچ ناچ کر بتا رہا کہ سوچ بدلی گئی ہے۔ وہ سوچ زور زور سے اعلان کر رہی ہے کہ جہاں اعتماد اور شیشہ ٹوٹ جائے وہاں صرف لکیریں باقی رہ جاتی ہیں۔ جو بے رُخ اور بے ترتیب کہلاتی ہیں۔
وہ علم کے مراکز کو نبیوں اور پیغمبروں کی وراثت کو تقسیم کر رہے تھے۔ تم نے انھیں بھی تقسیم کرکے نفرت کے بم سے اُڑا دیا۔ وہ جگہ جو امن کا دامن لیے نسل در نسل آبیاری کر رہی تھی اس وقت وہ سیاست کا غرور ، وردی کا سرور ، نفرت کا مشکور اور آزادی کا چور ثابت ہو چکا ہے۔ نوجوان طبقہ منہ موڑ چکا ہے۔ یہ جلد بازی اور احمق کا نتیجہ المیہ پر المیہ بیان کر رہا ہے۔ براہ راست بے ضمیروں کا المیہ قنوطیت کا غلبہ، صاحب غرور کا چرغہ باآواز بلند کالی شلوار کا ملبہ۔ جو معلم کا مذاق اور اتحاد کے ٹکڑے ٹکڑے کیے بالغوں میں شعور بانٹ رہے تعلیمی اداروں کا المیہ ہے۔
*******


