نصف صدی کا قصہ ۔۔۔! : روبنسن سیموئیل گل

صبح کے چار بج چکے تھے جب میں اپنے کمرے میں لوٹا۔ کچھ ہی دیر میں صبح کاذب کی سپیدی ہر سو پھیلنے لگی اور پرندوں کی چہچہاہٹ بھی سنائی دینے لگی۔
رات بھر کی بارش کے بعد بادل برس کر خالی ہوچکے تھے مگر ان کی موجودگی کے باعث صبح کی یہ سفیدی اور بھی زیادہ نمایاں تھی۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے کھڑکی کے پاس سے گزرا تو ٹھنڈی ہوا میرے بدن سے ٹکرائی۔ تب سوچا کہ اپنی یاد داشتوں کو لکھنے سے پہلے چھت پر چہل قدمی اور تازہ ہوا سے لطف اٹھا لوں۔ چنانچہ میں یہ زبور گاتے ہوئے خدا کی حمد اور اُس سے باتیں کرنے لگا:”تڑکے میں تینوں ڈھونڈاں یا رب میرے خدایا!”دن کے یہ پہر کس قدر خوش گوار احساس پیدا کرتے ہیں۔ خاص طور پر خدا کے ساتھ رفاقت رکھنے کا اور بھی زیادہ لطف آتا ہے۔ یہ فجر سے بھی پہلے کا وقت تھا۔
آج سے پچاس برس پیشتر بھی موسم کچھ ایسا ہی تھا۔ پینتیس چالیس افراد پر مشتمل بارات راولپنڈی سے لاہور روانگی کے لیے تیار تھی۔
چار جولائی 1974 بروز جمعرات صبح چار بجے سرخ رنگ کی بیڈ فورڈ بس بذریعہ جی ٹی روڈلاہور کی جانب رواں دواں تھی۔ سر سبز و شاداب کھیت کھلیانوں اور درختوں سے گھری تنگ سی جی ٹی روڈ جس کے بائیں کنارے کچھ کچھ فاصلے پر سفیدی پھرے سنگِ میل دکھائی دیتے تھے؛
لاہور 150میل۔۔۔حد رفتار 30 میل۔۔۔لاہور 140میل۔۔۔
تب راولپنڈی کے گردو نواح میں جنگل بیابان اور ہر سو ہریالی ہی ہوا کرتی تھی۔ صبح کاذب کی سپیدی دورانِ سفر پھیلتی چلی گئی۔ ان دنوں میں سفر اتنے آرام دہ نہ ہوا کرتے تھے تو بھی رات کے جاگے بعض مسافر اب اونگھتے تھے مگر چند ہی لمحوں ہونے والی ایک عجیب و غریب بات نے بعض کو جگا دیا بلکہ چونکا دیا۔
اس سفر میں نہ صرف ولیم گل صاحب کا خاندان اور عزیز و اقارب بلکہ عمانوایل کلیسیا کے ہم خدمت بھائی و روحانی گھرانا بھی شامل تھا۔ خوشی و غمی میں کلیسیا یوں یک جا ہوتی تھی کہ گویا واقعی ایک ہی کنبہ ہو۔ ایک رواج یہ بھی تھا کہ کلیسیا کے کسی خاندان میں شادی ہوتی تو تمام خاندانوں سے حسبِ توفیق پیسے جمع کیے جاتے اور اس خاندان کو دے دیے جاتے۔ ان دنوں عمانوایل کلیسیا کی اتواری عبادت سینٹ جانز سکول 127-مری روڈ کے ایک کمرۂ جماعت میں ہوا کرتی تھی۔ لوگ خوشی خوشی پہنچتے، پہلے کرسیاں نکالی جاتیں، پھر صفائی کرکے دریاں بچھائی جاتیں اور پھر عبادت کے بعد اسی طرح دوبارہ سے ترتیب لگا دی جاتی تھی کہ اگلے روز وہاں پھر معمول کی کلاس ہوتی تھی۔
ولیم گل صاحب کے خاندان میں یہ پہلی شادی تھی۔آج کا دن اس لیے بھی خاص تھا کہ 4 جولائی 1948 کو ان کی بھی شادی ہوئی تھی اور ان کی شہزوری کاپھل، ان کا پہلوٹھا بیٹا سیموئیل شادی کے چار سال بعد دعائیں مانگ مانگ کر ہوا تھا۔ تبھی اس کا نام سیموئیل رکھا گیا تھا کہ خدا سے مانگ کر پایا تھا۔ آج وہی بیٹا رشتہ ازدواج میں بندھنے جارہا تھا۔ ادھر مائیکل کلیمنٹ صاحب کے گھر میں بھی یہ پہلی شادی تھی۔ وہ وحدت کالونی کے سرکاری کوارٹر ایکس بارہ میں مقیم تھے اور بارات کے لیے ریفریش منٹ اور تازہ دم ہونے کا انتظام قریب ہی پائلٹ سکول میں کیا گیا تھا۔ سارے انتظامات ان ہی کودیکھنے تھے کیوں کہ ان کا پہلوٹھا بیٹا، ہیریسن انگلینڈ میں زیرِ تعلیم تھا جو خود تو خاندان کی اس بڑی خوشی میں شریک نہ ہوسکا تاہم مالی طور پر وہ بھرپور طریقے سے ساتھ کھڑا تھا۔ چھوٹا بیٹا، ایمرسن ہاتھ بٹارہا تھا تو بھی یہ اُس کے لیے ایک بڑی ذمہ داری تھی۔ سب سے چھوٹے پارکنس عرف تارے کا زخم تو ابھی پورے خاندان کے لیے تازہ تھا۔ باپ تو خوشی خوشی اپنے بچوں کو کندھوں پہ اٹھاتا ، انھیں جھلاتا ہے لیکن اگر جوان اولاد کو یوں کندھا دینا پڑ جائے کہ وہ کبھی لوٹ کر ہی نہ آئے تو بڑھاپے تک غم کا یہ بوجھ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ ویسے کسی خاندان کی کہانی میں ان کے غم بھی خاندان کے افراد کی طرح خاندان کا حصہ بن جاتے ہیں اور یہ غم خوشی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، فورا” یاد آجاتے اور خوشی کے لمحات میں یوں مخل ہوتے ہیں کہ آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں۔
فی الحال تو خاندان میں خوشی کا موقع تھا کہ بڑی بیٹی آئرس کی شادی ہورہی تھی۔مائیکل صاحب کے عزیز رشتے دار بھی ان کے ہمراہ بھرپور بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔ ان کے زمانہ طالب علمی کے دوست بی یو کھوکھر صاحب نے اپنی واکس ویگن فوکسی کار خوب چمکائی ہوئی تھی کیوں کہ انھوں نے اپنے دیرینہ دوست کی بیٹی یعنی دلہن کو گھر سے ایف سی کالج کے چیپل تک پہنچانا تھا جہاں بھائی ہدایت مسیح دوپہر بارہ بجے نئے جوڑے کا نکاح پڑھنے والے تھے۔
سب چیزیں خوش اسلوبی سے سرانجام پارہی تھیں کہ لاہور میں بھی ایک مصیبت آن کھڑی ہوئی۔ نکاح تو چیپل میں تھا مگر مہمانوں کے لیے کھانے کا انتظام وحدت کالونی میں گھر کے سامنے ہی گلی میں تنبو قناتیں لگا کر کیا گیا تھا۔ ان دنوں شادی ہالوں کا رواج عام نہ ہوا تھا وہ تو خیر ہمارے بچپن تک بھی نہ تھا۔مائیکل صاحب کے کزن جو خاندان میں “چاچو سلامت” کے نام سے جانے پہچانے جاتے تھے، بھاگ دوڑ میں پیش پیش تھے، یہ حادثہ ان ہی کے ساتھ پیش آنے والا تھا جو خوشی کے اس دن کو تہس نہس کرنے کے لیے کافی تھا۔
ادھر راولپنڈی میں موسم سازگار ہی تھا مگر یہاں لاہور میں اس قدرطوفانی بارش اور آندھی چلنے لگی کہ خدا کی پناہ! فکرمندی والی بات یہ تھی کہ دیگیں تو وہیں گلی میں تیار ہورہی تھیں اور مہمانوں نے بھی شامیانوں میں بیٹھ کر کھانا کھانا تھا تو ایسے حالات میں سب کچھ کیسے منظم انداز میں ہو پائے گا۔ اس موقع پر سوائے دعاؤں کے اور کوئی چارہ نہیں رہتا کہ مالی مسائل پیسوں سے حل کیے جاسکتے ہیں، جہاں زور آزمائی کی ضرورت ہو وہاں لوگوں کو اکٹھا کیا جاسکتا ہے مگر موسم تو خدا کے ہاتھ میں ہی تھا۔
جو گھرانا راولپنڈی سے روانہ ہوا تھا وہ بھی خدا پرست تھا، دعا کرکے ہی روانہ ہوئے تھے اور راستے میں بھی خدا کے لوگوں کا موضوعِ سخن خدا ہی رہا۔ مگر بعض باراتی جن تک وہ خاص پیغام نہیں پہنچا تھا وہ چونک گئے اور قدرے پریشان بھی ہوئے۔ شکوہ یہی تھا کہ ہمیں پہلے بتا دیا جاتا لیکن حقیقت تو یہی تھی کہ پہلے سے بتایا تو گیا تھا مگر سب تک یہ پیغام نہ پہنچا تھا۔
ولیم گل صاحب کو ائیر فورس میں بطور ایروناٹیکل ٹیکنیشن استعفی دیے ہوئےتیرہ برس ہوچکے تھے جہاں ان کی تنخواہ ماہانہ بارہ سو روپے تھی۔ وہ 1947 میں رائل انڈین ائیر فورس میں میرٹ پر بھرتی ہوئے تھے، ان کی پوسٹنگ ڈھاکہ میں بھی رہی جہاں انھوں نے خدا کو شخصی طور پر جانا اور قبول کیا۔ائیر فورس میں اپنے عروج کے زمانے میں وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ لے لینا آسان نہ تھا مگر کمپیشن ہمدرردی کی بنیاد پر ان کا استعفی قبول کر لیا گیا۔ تو بھی 1965 کی جنگ میں ان کو واپس طلب کرلیا گیا۔ان کی کہانی پھر سہی۔
ائیر فورس کی ماہانہ ہزار بارہ سو تنخواہ سے وہ ماہانہ ساٹھ ستر روپے کی آمدن پر آگئے اور اس آمدن کی بنیاد بھی ایمان پر ہی تھی، مل گئی تو ٹھیک ورنہ خدا مالک۔ اس کے ساتھ ساتھ ائیر فورس سے بہت کم ماہانہ پینشن بھی ملنا شروع ہوگئی۔شادی کی منصوبہ سازی کرتے ہوئے انھوں نے اپنی اہلیہ پروین اور بیٹے سیموئیل کو جو بچائی ہوئی جمع پونجی پکڑائی، وہ مبلغ ڈیڑھ سو روپیہ تھی۔ سو اس رقم سے یہ گھرانا اپنے پہلوٹھے بیٹے کی شادی کرنے چلا تھا۔ بڑا بیٹا ابھی خود بھی برسرِ روزگار نہ تھا۔ فوٹو گرافی کا شوق اوڑھنا بچھونا تو بن گیا مگر وہ آمدن کا اتنا معقول ذریعہ نہ تھا۔ چنانچہ خدا کے ساتھ ساتھ خدا کے لوگوں کا بھی آسرا تھا۔ تبھی تو کلیسیا اور عزیز رشتے دار ساتھ کھڑے تھے۔
بس میں موجود باراتیوں کو یہ خبر سنائی گئی کہ آپ نے اپنا اپنا کرایہ ادا کرنا ہے۔ آج پچاس برس کے بعد اگر آپ لاہور تک پوری بس بک کروا کر جائیں تو بات لاکھ سے اوپر چلی جاتی ہے تو تب حساب لگا لیں خود سے یہ کرایہ ادا کرنا سہل نہ تھا۔ مغربی ممالک میں مقیم اپنے لوگوں کی زبانی آج ہم یہ حیران کن بات سنتے ہیں کہ فلاں سٹیٹ یا سٹی میں شادی ہے اور فلاں ہوٹل میں معزز مہمانوں کے قیام کا بندوبست کیا گیا جس کا ایک رات کا کرایہ اتنے ڈالر ہے تو جو جو بک کروانا چاہتا ہے خود سے کروالے اور قریبی رشتے دار عزیز و اقارب وہ خرچہ برداشت کرتے ہیں۔ پھر ہم دوست بھی زمانہ طالب علمی میں جب مل کر کھایا پیا کرتے تھے تو پہلے ہی کہہ دیتے تھے کہ امریکن سسٹم ہوگا۔ کاش ہمارے بھی یہاں یہ سسٹم رائج ہوجائے پھر شادیوں والے گھر اتنی بڑی خوشی اور بیٹی کی ذمہ داری کا بوجھ اتارنے کے بعد قرضے کے بوجھ تلے نہ دبے ہوں گے۔
خیر سب نے کرائے میں بھی اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ مجھے امید ہے کہ لاچاری کا اظہار کرنے والے چند ایک ہی ہوں گے اور اگر کوئی بادل نخواستہ ادا نہ کرسکا ہوگا تو اُس کو قطعا” بس سے اتارا گیا اور نہ ہی کھانے سے روکا گیا ہوگا! سفر کافی حد تک کٹ چکا تھا۔ ایک مقام پر قیام کیا گیا اور پھر بلیک اینڈ وائٹ کیمرے سے کہ تب یہی میسر تھا چند بھائیوں کی گروپ فوٹو لی گئی جن میں بھائی اقبال مسیح، بھائی صادق مسیح، بھائی عنایت مسیح سارجنٹ، عمانوایل سنگر صاحب، مورس بھٹی صاحب، بھائی آئزک یوسف، بھائی عنایت مسیح باٹا، والٹر صاحب اور بھائی غلام مسیح گل صاحب کے علاوہ چند دیگر احباب شامل تھے۔ آج پچاس برس گزرنے کے بعد درجِ بالا تمام احباب بھی گزر چکے ہیں۔پچاس برس بھی تو کم نہیں ہوتے، نصف صدی کا قصہ ہے کوئی مختصر کہانی تو نہیں۔
لاہور میں شدید طوفان کے باعث سڑک پر آویزاں آہنی بورڈز اور درخت تک ٹوٹ کر گر رہے تھے۔ایسا ہی ایک درخت اس گاڑی پر گرنے کو تھا۔
اپنے والدین کی شادی کی پچاسویں سال گرہ کے متعلق سوچ بچار کرتے ہوئے میں بارہا سوچتا تھا کہ ان کو کیا تحفہ دیا جائے، روپے پیسے، ضرورت کی کوئی شے، نئے کپڑے۔۔۔آخر کچھ بھی تو اتنا قیمتی نہیں ہوسکتا جو ان کی پچاس برسوں کی مزدوری کے برابر ہو جو محنت مشقت ہم تینوں بہن بھائیوں کو پالنے میں انھوں نے کی، اس کا بدلہ تو ہم آخری سانس تک بھی نہیں چکا سکتے۔ ان کی تمام ضرورتوں کا خیال رکھنے کے باوجود ۔۔۔ اور بہت سی ضرورتیں تو وہ بتاتے بھی نہیں کہ ہم بچے اپنے اپنے کاموں میں اس قدر مصروف ہوتے ہیں کہ وہ سوچتے ہیں کہ جیسے تیسے وقت گزرتا ہے گزر جائے۔ ویسے بھی عمر میں خواہشات کم ہی ہوتی چلی جاتی ہیں۔ ہاں ایک خواہش جس کا اظہار وہ بارہا کرتے ہیں، وہ “وقت” ہی ہے۔
ایسا نہیں کہ میں انھیں وقت نہیں دیتا۔ گھر سے جانا، گھر میں آنا ۔۔۔ ان کے کمرے میں حاضری دیے بِنا، ان کا دیدار کیے بِنا اور ان کی دعائیں لیے بنا ادھورا سا رہتا ہے۔ وہی تو ہیں جو ہمارے اور ہمارے بچوں کے لیے دعائیہ نگہبان کی طرح جاگتے اور دعائیہ جنگ جو کی مانند لڑتے ہیں۔ واقعی وہ مبارک ہوتے ہیں جو اپنے بچوں کے بچے دیکھتے ہیں مگر وہ ان سے بھی زیادہ مبارک اور روحانی طور پر محفوظ ہوتے ہیں جن کے خدا پرست والدین جاگتے اور اپنے بچوں کے لیے دن رات دعا کرتے ہیں۔ جب مجھ سے کوئی پوچھتا ہے کہ کیا والدین آپ کے ساتھ رہتے ہیں تو میں ہمیشہ ہنستے ہوئے کہتا ہوں: “جی نہیں ہم ان کے ساتھ رہتے ہیں۔” ۔۔۔ اور حقیقت بھی یہی ہے۔
سو جہاں والد صاحب کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے بعد میں ان کے چہرے پر تازگی اور مسرت دیکھتا ہوں وہاں والدہ بھی ہمیشہ میرے دیدار پر اکتفا نہیں کرتیں بلکہ میرا ہاتھ چومتیں اور پھر بازو سے ہی مجھے اپنی جانب کھینچ کر میرا منہ چومتیں، ماں صدقے جائے ماں واری جاوے، میرا لعل، میرا پتر کہتیں اور مجھے اپنے سامنے بیٹھنے رہنے کی فرمائش کرتی ہیں۔ ایک بار تو کہنے لگیں، “میرا بیٹا، ہمیں چرچ کا ممبر سمجھ کر ہی وزٹ کر لیا کر، آتا ہے سلام کرتا ہے تھوڑی بیٹھتا اور چلا جاتا ہے۔”واقعی پاسبانی وزٹ میں تو کبھی کبھار لوگوں کی دکھی داستانیں و کہانیاں سنتے، گھنٹوں گزر جاتے ہیں۔
چنانچہ میں نے سوچا کہ اپنے والدین کو تحفے تو ہم بہن بھائی مل کر دے ہی رہے ہیں لیکن آج 4 جولائی 2024 کی شب میں ان کو منفرد تحفہ دیتا ہوں۔ سو گزری شب رات بارہ سے صبح چار بجے تک میں نہ صرف ان کے پاس بیٹھا رہا بلکہ ان سے پچاس برس پرانے اس دن کی ساری کتھا بھی سنتا اور نوٹس بناتا رہا۔ یہ تحریر ہی میں ان کی نذر کرنا چاہتا تھا۔
میں نے والد صاحب سے پوچھا کہ کیا تب رنگین تصویریں نہیں ہوا کرتی تھیں تو کہنے لگے کہ ہماری شادی میں جرمنی کے مشنری بھائی پیٹر زیوارٹ بھی شریک تھے وہ غالبا” لاہور سے ہی شامل ہوئے تھے۔ ان کے پاس رنگین کیمرہ تھا اور ان کا کہنا تھا کہ وہ تصویریں کراچی سے صاف ہو کر آتی ہیں۔ بس وہی رنگین تصویریں تھیں، نہ جانے وہ کہاں گئیں بلکہ ہمارے پاس یہاں گرین والی پرانی البم میں چند بلیک اینڈ وائٹ تصویریں تھیں وہ بھی پتا نہیں اب کہاں ہیں بلکہ ہمارا تو نکاح نامہ بھی گم ہوگیا ہوا ہے، کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی۔
نکاح نامے کا تو خیر مجھے بھی علم نہیں البتہ اس گرین قدیمی البم میں سے بلیک اینڈ وائٹ تصاویر میں نے پہلے ہی سکین کرلیں تھیں جو آپ بھی ملاحظہ کیجیے۔ میں اکثر کہتا ہوں کہ تصویربھی اہم ہوتی ہے مگر تاریخ کو تحریر ہی حقیقی معنوں میں محفوظ کرتی ہے۔ سو میں شب بھر اپنے والدین سے ان کی زندگی کی کہانی، بچپن اور پھر 4 جولائی 1974 کے اُس دن کی رُوداد سنتا رہا جب وہ رشتہ ازدواج میں بندھے۔ ظاہری بات ہے کہ اگر وہ دن نہ ہوتا تو آج میں بھی نہ ہوتا۔
یقین کیجیے، اپنے والدین کی زبانی اس روز کا احوال سن کر مجھے یوں محسوس ہورہا ہے کہ گویا میں بھی شادی میں شریک تھا اور مجھے امید ہے کہ اس تحریر کو کھو کر پڑھنے والے بھی ایسا ہی محسوس کریں گے۔ تب ویڈیو تو دُور کی بات رنگین تصویروں کا حصول بھی ناممکن ہوتا تھا۔ آج اگر ان کی شادی کی ویڈیو ہوتی تو ہم بھی دیکھ کر یک طرفہ طور پر شامل ہوجاتے۔ مگر اب اس تحریر کے ذریعے میں ان کی زندگی کے سفر کو قلم بند کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔
سو ایک سفر وہ تھا جس کا آغاز پچاس برس پیشتر ہونے جارہا تھا، سیموئیل اور آئرس بطور ہمسفر زندگی کے اس سفر کا آغاز کرنے جارہے تھے اور ایک سفر وہ تھا جو باراتی راولپنڈی سے لاہور کی جانب بذریعہ جی ٹی روڈ کررہے تھے۔ بارات ٹھیک دس بجے پائلٹ سکول وحدت کالونی لاہور پہنچ گئی۔ مہمان تو تیار شیار ہوکر آئے تھے مگر دلہے کو ابھی پینٹ کوٹ پہننا تھا کہ وہ تو دورانِ سفر شلوار قمیص میں ہی ملبوس تھا۔
مہمانوں کو خوش آمدید کہنے میں آئرس کی سب سے چھوٹی بہن مریم بھی پیش پیش تھی۔ اس نے ہلکے نیلے رنگ کی فراک اور چوڑی دار پاجامہ پہن رکھا تھا۔ پائلٹ سکول گھر سے دس منٹ کے فاصلے پر تھا۔ آنے والے معزز مہمانوں کی ٹھنڈی کوکا کولا کے ذریعے تواضع کی گئی۔
پھر تازہ دم ہونے اور کپڑے وغیرہ تبدیل کرنے کے بعد بارات نہر کنارے واقع ایف سی کالج کے پرشکوہ چیپل کی جانب رواں دواں ہوگئی۔
دلہن کو بیوٹی پارلر سے تیار نہیں کروایا گیا تھا کہ تب یہ رواج بھی متوسط گھرانوں میں عام نہ تھا۔ مائیکل صاحب کے ماموں رحمت کی بیٹی جس کا نام بھی آئرس ہی تھا، اس نے دلہن کو تیار کیا۔ سفید ساڑھی میں ملبوس آخر کار بی یو کھوکھر صاحب کے ہمراہ فوکسی میں نئی نویلی دلہن بھی بروقت ایف سی کالج پہنچ گئی۔موسم خراب ہی تھا اور تب وہ حادثہ گزرنے کو تھا۔ ہوا کچھ یوں کہ مائیکل صاحب کے کزن المعروف چاچو سلامت جن کے پاس اپنی گاڑی تھی جین مندر کی جانب سے آتے ہوئے ایک گرتے ہوئے درخت کی زد میں آگئے۔ گاڑی کی رفتار اتنی تھی کہ اب رکنا محال تھا مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ گاڑی گزر گئی اور پھر درخت زمین بوس ہوگیا۔
رات اس بات کو بھی یاد کرتے ہوئے دونوں والدین پریشان ہوگئے کہ خوشی کے اس موقع پرخاندان میں بہت بڑا المیہ ہوسکتا تھا شاید شادی ہی رہ جاتی ۔۔۔ (اور ظاہر اگر شادی رہ جاتی تو میں بھی رہ جاتا!) ۔۔۔ خیر ہم تو بنائے عالم سے پیشتر سے خدا کے ارادے میں ہوتے ہیں اور وہی اپنی وفاداری کو اپنے لوگوں کی زندگیوں میں قائم رکھتا ہے۔
بل آخر موسم سازگار ہوگیا اور باراتیوں نے سیر ہو کر بڑا گوشت اور میٹھے و نمکین چاول کھائے بلکہ واپسی کے سفر کے لیے بھی مٹی کی کنالیوں میں چاول بھر کر دیے گئے۔
والد صاحب نے مجھے بتایا کہ تب ایک اور بھی رسم ہوا کرتی تھی کہ لڑکے والے ایک پرات میں کچھ روپے رکھ دیتے تھے اور لڑکی والے سارے نہیں مگر اس میں سے نائی، تنبو قناتوں اور لاگوں وغیرہ کے لیے پیسے اٹھا لیا کرتے تھے۔ یہ رسم سب کے سامنے نہیں بلکہ خاندان و برادری کے چند بزرگوں کے سامنے سرانجام دی جاتی تھی۔
دلہن نے رخصتی والا لباس زیب تن کیا اور آخر وہ بابل کے گھر کو چھوڑ کر پیا دیس کی ہوگئی۔ اسی بس میں سوار تمام باراتی اندھیرا چھانے سے پہلے واپسی کا سفر شروع کرچکے تھے کہ تب سڑکیں اتنی پررونق اور آباد نہیں ہوا کرتی تھیں۔ واپسی کے مسافروں میں صرف ایک نئے مسافر اور ایک نئے جوڑے کا اضافہ ہوچکا تھا۔ وہی جوڑا جو 4 جولائی 1974 کی اس تقریب کا محور و مرکز تھا، اب راولپنڈی کی جانب سفر پر رواں دواں تھا۔ رات بارہ بجے کے بعد یہ کارواں اپنی منزل پر پہنچا۔
وہ سفر تو مکمل ہوا مگر اُس نئے جوڑے کا بطور ہم سفر اک نیا سفر شروع ہوا جو آج پچاسویں سنگِ میل پر پہنچ گیا، نہ جانے منزل ابھی کتنی دُور ہے۔ بطور مسیحی ایمان دار جی تو چاہتا ہے کہ کوچ کرکے مسیح کے پاس جا رہیں لیکن جسم میں ایک دوسرے کے لیے زندہ رہنا زیادہ ضروری ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کی دعاؤں کی، حوصلہ افزائی، محبت اور رہنمائی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
زندگی کے اس سفر میں جس بس میں یہ جوڑا تنہا سوار ہوکر انجان منزل کی جانب رواں دواں ہوا، تنہا نہ رہا۔ آج اُس بس میں تین بیٹے (نعیم جان، روبنسن سیموئیل گل، سالومن سیموئیل گل) اور تین بیٹیاں (روبی نعیم جان، کرن روبنسن گل، انیتا سالومن) اور دو پوتے (ابیشے روبنسن گل، امضایاہ سالومن گل) ، دو نواسے (عانیر نعیم جان، عانیم نعیم جان) دو پوتیاں (جوآنہ ریچل گل اور شیریلن سالومن گل) اور اکلوتی نواسی (ایرینے روبی جان) شامل ہیں۔


ہم جانتے ہیں ہر ایک کو اپنی اپنی باری پر زندگی کی اِس بس سے اتر جانا ہے کہ زندگی کا دریا یونہی اتر جاتا ہے مگر زندگی دینے والا جو راہ اور حق اور زندگی ہے، زندگی کے ان نشیب و فراز میں بھٹکنے نہیں دیتا، بکھرنے نہیں دیتا۔ ہم جیتے اس کے ہیں تو مر کر بھی اسی کے ہیں۔
محض زندگی گزارنا، زندگی کی بس میں ہونا کافی نہیں، ہمیشہ کی زندگی اس میں ہے کہ ہم مسیح میں زندگی گزاریں۔ خدا کا شکر ہے جو ہم سبھوں کو اپنے کھیت میں مختلف طریقوں سے استعمال کرتا ہے۔
اپنے باپ دادا کے لگائے ہوئے باغوں کا پھل ہم کھارہے ہیں اور ہمارے لگائے ہوئے بیج کی فصل کل ہمارے بچے کاٹیں گے۔ بس یہی دعا ہے کہ جس طرح ہمارے خدا کی وفاداری ہمارے ساتھ پشت در پشت رہی ویسے ہی ہماری اور ہمارے بچوں کی وفاداری بھی خدائے ثالوث کے ساتھ قائم و دائم رہے۔
میں اپنی ماں کی دعاؤں میں اکثر یہ الفاظ سنتا ہوں،اے خدا جس طرح تو نے ہمیں ہمارے بچوں کے بچے دکھائے ہیں۔ اسی طرح ہمارے بچوں کو بھی ان کے بچوں کے بچے دکھا۔ مجھے خوشی ہے کہ میرے دادا جی بزرگ ولیم گل صاحب نے بطور پاسبان اپنے ہاتھوں سے میرے بیٹے یعنی اپنے پڑپوتے کو عمانوایل چرچ میں برکت دی اور آج مجھے اسی کلیسیا میں پاسبانی خدمت کرتے ہوئے سولہ برس بیت گئے۔
عمانوایل کلیسیا آج بھی ہمارے دکھ سکھ کی ساتھی ہے۔ خدا ہمارے لیےسب دعا کرنے والوں اور ہمارا بھلا چاہنے والوں کا بھلا کرے۔ یقیناً ہر شے کے بارے میں انسانوں کی کم از کم دو رائے تو ضرور ہوتی ہیں۔ دنیا میں خدا کے متعلق بھی لوگ مثبت اور منفی دونوں طرح کی سوچ رکھتے ہیں تو ہم کون ہوتے ہیں کہ جن کے سبھی خیر خواہ ہی ہوں۔ چنانچہ ان کا بھی بھلا اور ان کے لیے بھی برکت جو ہمارے لیے مختلف سوچ رکھتے ہیں کہ شاید جس زاویے سے وہ دیکھ رہے ہیں وہاں سے ہم نہیں دیکھ پارہے یا کسی موقع پر ہم نے ان کو جانے انجانے میں اپنی کسی بات یا ردِ عمل سے ٹھیس پہنچائی تو اُن سب سے بھی میں دلی طور پر معافی کا طلب گار ہوں کہ شاید سب کی توقعات پر ہم پورے نہیں اتر پاتے، ان کے دکھ سکھ میں ان کے ساتھ کھڑے نہیں ہو پاتے، ان کو وقت نہیں دے پاتے ۔۔۔۔
میری ماں نے مجھ سے “وقت” کا تحفہ ہی تو مانگا تھا۔ رات بھر ان کی داستانِ سفر سنتا رہا اور ان کے چہرے پر خوشی تازگی اور رونق کو پھیلتے دیکھتا گیا۔
میں نے مسکراتے ہوئے کہا: “ابھی آپ نے بہت سال جینا ہے اور دادا جی دادی جی اور نانا جی نانی جی کی طرح اپنے بچوں کے بچوں کے بچے بھی دیکھنے ہیں۔” پھر ہم تینوں نے مل کر شکر گزاری کی دعا کی اور امی جی نے اس موقع پر بھی جب مجھے انھیں تحفہ دینا چاہیے تھا، اپنے پرس سے دو ہزار روپے نکالے اور یہ کہتے ہوئے دے دیے کہ میرے بیٹے نے آج ہمیں اتنا وقت دیا ہے۔ میں نے لینے سے انکار کیا تو بولیں: “چل میرا بیٹا ہدیہ سمجھ کے ہی رکھ لے۔” اور میں وہ دو ہزار روپے جیب میں ڈال کر امی جی کا منہ چومنے کو جھکا۔ آج انھیں بازو سے پکڑ کر مجھے نیچے کو کھنچنا نہ پڑا۔پھر اپنے والد کو گلے لگا کو ان کا منہ چوما تو کہنے لگے: “مجھے معاف کردینا جو وقت نہ دینے اور بہت زیادہ سختی کرنے کے باعث میں نے تم لوگوں کا دل دُکھایا۔” میری آنکھیں بھی پُرنم تھیں کیوں کہ ان کے لیے بھی پچاس برسوں پر محیط یہ سفر آسان نہ تھا۔ وہ داستان بھی پھر سہی!
مجھے خوشی ہے کہ میں نے یہ رُوداد اپنی تسکین، اپنے خاندان کی تاریخ اور اپنے بچوں کی تجدیدِ عہد کے لیے محفوظ کرلی کہ مستقبل میں وہ جب کبھی پڑھیں گے تو لطف بھی اٹھائیں گے اور ضرور اپنی بنیادوں کو کھوجنا بھی ان کے لیے آسان ہوگا۔
یہ کہانی آج بھی جاری ہے اور آپ پڑھنے والوں کا شوق و تجسس بھی مجھے ابھارے گا کہ ماضی کے اوراق کو پلٹا جائے اور ایک طویل داستاں کی صورت اپنی اور اپنوں کی یادداشتوں کو محفوظ کیا جائے (ظاہری بات ہے کہ اس کے لیے وقت درکار ہوگا اور میرے ہاں اکثر اُس کا فقدان ہی رہتا ہے) تو بھی میرے قلم کو رواں رکھنے میں آپ سب قارئین کی تحریک و حوصلہ افزائی محرک ثابت ہوتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس داستان کا کوئی موڑ ایسا بھی ہو جس میں میرا اور آپ کا سامنا ہوا ہو یا ہوجائے اور آپ بھی اس کہانی کاایک حصہ ، ایک کردار بن جائیں۔
اس کا مقصد ہرگز خودنمائی، خودستائی یا پذیرائی نہیں ہے بلکہ ہر خاص و عام پر اس حقیقت کو آشکارا کرنا ہے کہ خدا وعدوں میں سچا ہے اور کس طرح اس کی وفاداری اپنے لوگوں کی زندگیوں میں ظاہر ہوتی اور پشت در پشت قائم رہتی ہے۔باقی وہ ساری پشت خدا کے حضور پہنچ چکی جنہوں نے بٹوارے کے بعد ملکِ پاکستان میں بشارت کا کام سرانجام دیا۔ آج ہم سبھوں کا اور ہمارے جیسے بہتوں کا خدمت میں ہونا اس بات کی عکاسی ہے کہ ہمارے بزرگوں کی خدمت رائیگاں نہیں گئی بککہ وہ بیج پھل دار ثابت ہوا۔ہم نے بھی اپنے وقت پر کوچ کر جانا ہے، زندگی کی اس بس سے اتر جانا ہے۔۔۔۔۔باقی رہے گا ناں سدا تیکر مسیح دا

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading