مذہبی اقلیتوں کا جمہوریت پر قدغن کا مقدمہ میاں صاحب کی کورٹ میں:گمیلی ایل ڈوگرہ

برصغیر کی تاریخ بتاتی ہے کہ متحدہ ہندوستان میں بہت سی قومیں آباد تھیں ہندو سکھ اور مسلمان بڑے بڑے نامور بادشاہ گزرے برطانوی سامراج کے تسلط کے تحت نوآبادیاتی نظام آیاجسےکولونی ازم بھی کہا جاتا ہےلیکن ان تمام نظاموں کے پیچھے انسانیت سے جبر اور جمہوری اقدار کے منافی جنگل کے قانون کی بھنک دیکھائی دیتی تھی اس کے خاتمے کے لیے سوچنا ایک رائے تھی کیونکہ انسانوں اور بھیڑ بکریوں میں یہ ہی فرق ہے کہ وہ انسانی حقوق سے بے خبر ہوتی ہیں لیکن انسان اپنی رائے سے رائے عامہ اختیار کرتے ہیں اور رائے عامہ اگر مضبوط دلائل کے تحت ہو تو انسانوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے پر مبنی منازل نظر آنا شروع ہوجاتی ہیں اور پھر جدوجہدکا آغاز ہوتا ہے جدوجہد کے راستے میں جنگ وجدل کےحالات بھی بعض اوقات پیدا ہو سکتے ہیں ایسے ہی جبر کے خلاف رائے نے جب تقویت پکڑی تو غیور عوام نے جدوجہد کے تحت قربانیاں دینا شروع کر دیں اور لاکھوں انسانوں کو ریاست کی خانہ جنگیوں اور بغاوت پر مزاحمت کے نتیجہ میں اجل بھی کھا گئی لیکن اس کے نتیجہ میں جبر کے خلاف رائے کوتقویت دینے کے لیے تحریکوں نے جنم لینا شروع کردیا اگر جبر کے خلاف رائے پر تحریک شروع ہوئی اور ناکام ہو گئی تو ریاست اسے بغاوت کا نام دیتی رہی اگر کامیاب ہو گئی تو اسے بین الااقوامی سطح پر تو انقلاب کہا جانے لگا جیسے انقلاب ایران انقلاب فرانس وغیرہ وغیرہ

ایسے ہی متحدہ ہندوستان کی بات کریں توکل کامنگل پانڈے یا بھگت سنگھ بعد ازاں مہاتما گاندھی قائد اعظم اور دیگر متحدہ ہندوستان کی ماضی کی لیڈر شپ کی لمبی لسٹ کی بات کریں تو انکی کل کی جبر کے خلاف رائے کے بعد ہی تحریک آزادی ہند یا تحریک پاکستان نے ہی انگریز سے آزادی اور تحریک پاکستان کی راہوں کا تعین کیا-
قارئین آج بھی ریاستوں میں عوام پر جبر کا وہی انداز ہے جیسے پاکستانی تاریخ میں میاں محمد نواز شریف خاندان کو آمرانہ دور میں طیارہ سازش کیس جلاوطنی اور بعدازاں 2018 میں ان پر کرپشن کا الزام لگا کر وزارت عظمی’ سے گھر بھیجنے کے کٹھن حالات کی بھینٹ چڑھایا گیا یا اسی طرح ذولفقار علی بھٹو کو سزائے موت کی سزا سنائی گئی اور عوام کو سیاسی راہنماوں کو بہت سی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

قارئین 1997 سے میاں محمد نواز شریف خاندان کو ایذار سانیوں کا سامنا رہا مقدمات پھرجلاوطنی اس کے بعد آمریت نے مذہبی اقلیتوں سے جو کھلواڑ کیا خفیہ بیلٹ پیپر پر ووٹ ڈالنے کے بغیر قومی و صوبائی اسمبلیوں میں اقلیتی افراد کو حکومتی ایوانوں میں غیر جمہوری طریقے سے لانے اور نمائیندگی دینے کا کالا قانون بنایا گیا جو کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 226 کی خلاف ورزی ہے حالانکہ یہ سراسر آئین کے ساتھ متصادم معاملہ ہے اور اسے مخلوط طرز انتخابات کا ایک نام نہاد نام دے دیا گیا پیپلز پارٹی نےاس پر مزاحمت نہ کی اور اقلیتوں پر غیرجمہوری قانون سازی کر کے حقیقی جمہوریت پر قدغن لگائی گئی ہے اسے عدالت عظمی ‘ میں چیلنج کیا گیا اور سپریم کورٹ کی ڈائریکشن کے تحت حکم 2015 تیرہ سال کے بعد فیصلہ آیا اسی نوعییت کی ایک سپریم کورٹ کی ڈائریکشن 2014کے تصدق جیلانی چیف جسٹس سپریم کورٹ کے حکم کی بھی ہے جس کے تحت اس کی تعمیل کرنا قرین انصاف ہے اور مذہبی اقلیتوں کی جانب سے اس کا خیر مقدم بھی ہوگا۔
قارئین جے سالک سابقہ منتخب ایم این اے نے جمہوری جدوجہد کے تحت نام نہاد مخلوط طرز انتخاب کی سخت مخالفت کی اور میاں محمد نواز شریف معزول وزیر اعظم کی جلاوطنی کے بعد سپریم کورٹ سے حکم 2015 حکومتی ایوان کے لیے ڈائریکشن ہے جس پر پیپلز پارٹی نے من عن قانون سازی نہ کی-محترمہ بینظیر بھٹو حکومت نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 226 کو یکسر نظر انداز کردیا ان حالات میں جے سالک نے غیرجمہوری مخلوط طرز انتخاب کے فیصلے پر پیپلز پارٹی سے اتحاد سے اپنی راہیں بھی اس ایشو کے بعد جدا کر لیں اور آج تک اقلیتوں کی شعوری بیداری کی جدوجہد میں گامزن ہے کیونکہ وہ اپنی سیٹ کی خاطر نیشن بلڈنگ سوچ کی بنا پر ایسی غیر جمہوری سیٹوں کو آج تک ماننے کے لیے تیار ہی نہیں پاکستان کی تاریخ میں طویل عرصے تک اس کے پاس عوامی مینڈیٹ رہا ہے۔ ملک کے مسلمان شہری مکمل جمہوریت سے اپنی پریکٹس جاری رکھے ہوئے ہیں اور اقلیتیں قدغن زدہ جمہوریت کے در پے ہیں یہ کونسا انصاف ہے؟
1997 کو میاں محمد نواز شریف کی وزارت عظمی’ کی معزولی کے بعد سپریم کورٹ کے 2015 حکم تک مخلوط طرز انتخاب کی نفی تو ہوئی لیکن اس پر عدم قانون سازی سے اقلیتیں حقیقی جمہوریت سے محروم ہوگئی ہیں آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت خفیہ بیلٹ پیپر کے ذریعے ہر الیکشن آئین کا حصہ ہے اور آئین سے متصادم ترامیم کو آئین کا حصہ بنا دیا گیا جب ہر شہری کے حقوق برابر ہیں تو مذہبی اقلیتوں کے لیےجمہوریت پر قدغن لگانا کیا ایک کالا قانون نہیں؟ جس سے چھٹکارے کا بند و بست آج کی حکومت کی بھی ذمہ داری ہے

میاں نواز شریف پر ”نواز شریف طیارہ کیس“ بنا کر اسے سیاسی طور پر بلیک میل کر کے جلاوطنی پر مجبور کیا گیا اور مسلم لیگ نون کی حکومت کو ختم کرکے شب خون مارا گیا معزول وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی 1997 کی کابینہ کا مذہبی اقلیتیں یعنی منتخب ممبران اسمبلی حصہ تھییں پیٹر جان سہوترہ معزول وفاقی وزیر سائمن گل طارق سی قیصر روفن جولیس منتخب ممبران قومی اسمبلی جبکہ رستم سی قیصر عادل شریف جانسن مائیکل پیٹر گل منتخب ممبران پنجاب اسمبلی تھے کیونکہ مسلم لیگ نون کی اکثریت پیٹر جان سہوترہ سائمن گل ایم این اے روفن جولیس ایم این اے طارق سی قیصر ایم این اے اور اسی ایوان سے ہی پیپلز پارٹی سے جارج کلیمینٹ اور جے سالک ایم این اے منتخب ممبران پنجاب اسمبلی اور دیگران قابل ذکر ہیں

1997 میں میاں نواز شریف کا تخت الٹنے کے بعد آمرانہ سوچ کے تحت مذہبی اقلیتوں کے لیے مخلوط طرز انتخابات رائج کرنے کی آمرانہ سوچ کو اقلیتی سٹیک ہولڈرز کےمطالبے کے بغیر ہی غیرجمہوری طریقے سے لانے کے لیے مذہبی اقلیتوں سے بڑی ہٹ دھرمی کا فیصلہ ہونے کو تھامشرف آمریت کے دنوں میں حکومتی سطح پر اقلیتوں سے کرنل ٹریسلر ریٹائرڈ اور ایرک سپرین اس حکومت کا حصہ رہےجو جمہوری اقدار اور نیشن بلڈنگ کی سماجی و سیاسی بیداری سے ناوقف تھے ادھر مخلوط طرز انتخاب کے رائج کرنے کی تیاریاں شروع ہوگئیں راقم الحروف نے ایک کالم6مئی 2000 کو روزنامہ خبریں میں ” اور دیگر اخبارات و رسائل میں جداگانہ طرز انتخاب اور اقلیتیں“ کے موضوع پر لکھا تاکہ اس پر قومی سطح پر ڈبیٹ ہو جس میں اقلیتوں کو الرٹ کیا گیا لیکن آمرانہ حکومت نے اقلیتی سٹیک ہولڈرز کی رائے کو اہمیت نہ دی اور مخلوط طرز انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیا پیپلز پارٹی سے جے سالک معزول ایم این اے نے سپریم کورٹ میں مخلوط طرز انتخابات کے رائج کرنے کے آمرانہ فیصلے کے خلاف جو رٹ دائر کی اس پر سماعت کے لیے الیکشنز کے انعقاد کے بعد کی تاریخ دے کر انصاف کا آمرانہ قتل کیا گیا مذہبی اقلیتوں کے لیے انصاف کے حصول اور سپریم کورٹ کے فیصلے میں 13 سال لگ گئے اور عدالت عظمی’ نے جمہوریت کو فروغ دیتے ہوئے پارلیمینٹ کو ڈائریکشن دی اور اقلیتوں کے برابر کےحقوق کے تحت جمہوریت کو فروغ دیتے ہوئے حکومتی ایوانوں کو قانون سازی آئین کی جمہوری اقدار کی ہدایت کی لیکن بد قسمتی یہ تھی کہ اس وقت تک اقلیتوں کے انصاف کا قتل ہو چکا تھا

اور یہ حکم اسمبلی کے ریکارڈ کا حصہ تو ہےلیکن پارلیمینٹ نے اس ڈائریکشن کو مڑ کر بھی نہیں دیکھا پیپلز پارٹی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے جارج کلیمنٹ اور جے سالک بہت قریب تھے لیکن ان سے بھی مشاورت نہ ہوئی اور محترمہ بینظیر بھٹو نے شہباز بھٹی کے ہمراہ مخلوط طرز انتخاب کا خیر مقدم کر دیا اور اپنے امیدواران نام نہاد مخلوط طرز انتخابات میں اتارے جس پر جارج کلیمینٹ اور جے سالک کی پیپلز پارٹی سے راہیں جدا ہوتی گئیں شہباز بھٹی شہید کی چاندی لگ گئی اور جو بعد میں ہوا اور اب تک ہو رہا ہے وہ سب کے علم میں ہے آمریت اور پیپلز پارٹی نے باہمی طور پر اقلیتوں کو جس نام نہاد مخلوط طرز انتخاب میں ڈال دیا ہے اس میں قومی تشخص اور قومی دھارے میں اقلیتیں مفلوج ہو گئیں ہیں حکومتی ایوانوں کے ممبران کا کوئی احتساب نہ ہے نہ ہی وہ کسی کو جواب دے ہیں پارٹیوں کا دم چھلہ بن کر صرف تنخواہوں اور فنڈوں کی دیہاڑیاں لگانے کے علاوہ ان کا کوئی کام نہ ہے اقلیتی کمیونٹی کی سیاسی وسماجی بیداری میں ان کا کوئی کردار نہ رہا ہے کمیونٹیز میں وہ غریب عوام کے ساتھ کسی ایشو یا جبر کے معاملات یا رخنوں میں کھڑے نہیں ہوتے عوامی بہتری کے لیے اسمبلیوں میں خاموش ہیں اور مذہبی اقلیتوں کی حقیقی لیڈر شپ ختم ہو گئی ہے اور سفارشی طریقے سے انکا انتخاب صرف پارٹی لیڈر کے رحم و کرم پر ہے لیاقت اور قائدانہ صلاحیتوں کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے دوسرا یہ کہ ووٹ سے منتخب ہوکر آنا آئین اور جمہوریت کے تحت ہے کیونکہ ان سیٹوں کے حقداران بھی وہی ہیں اور جو باضمیر نہ ہوں اور اسمبلی کا حصہ بھی ہوں ان کا مقام بھی کوئی نہیں آج بھی اور کل بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ جمہوریت اور آئین پر ہم سب کا بھروسہ ہے

پاکستان مسلم لیگ نون بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی حقیقی ترجمانی پر یقین رکھتی ہے سپیکر قومی اسمبلی صادق ایاز صاحب اور چیرمیئن سینٹ یوسف رضا گیلانی صاحب سپریم کورٹ کی 2015 کی ڈائریکشن سپریم کورٹ کے حکم سے حوادث زمانہ کی خاک جھاڑ کر اس کا مطالعہ کیجئیے جس طرح قائد اعظم نے بھی منتخب حکومت کی ہمیشہ حمایت کی بات کی اسی طرح آپ بھی مطالعے کے بعد قائد اعظم کی یہ بات یاد کریں کہ بانیء پاکستان نے فرمایا کہ
”غیر ملکی حکومت کے خاتمے کے بعد اب عوام اپنی تقدیر کے خود مالک بن چکے ہیں انہیں آئینی طریقے سے اپنی پسند کی کوئی بھی حکومت منتخب کرنے کی پوری آزادی ہےاس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ کوئی گروہ غیر قانونی طریقے استعمال کرکے کسی منتخب حکومت پر اپنی مرضی مسلط کرنےکی کوشش کرےحکومت اور اس کی پالیسی کو صرف منتخب نمائیندوں کے ووٹ کے ذریعے ہی تبدیل کیا جا سکتا ہے“
(ریڈیو پر تقریرڈھاکہ28مارچ1948)

جب مذہبی اقلیتوں کی حق رائے دہی کے بغیر ان کا وجود ہے تو ان اقلیتی نمائیدگان کو اقلیتوں پر غیر جمہوری طریقے سے کیوں مسلط کیا گیا ہے؟ آپ آئین پاکستان کے آرٹیکل 226 کی پاسداری کے تحت پارلیمینٹ سے ایک آمر اور پیپلز پارٹی کی غیر جمہوری قانون سازی کا مطالعہ کرکے اقلیتوں کی تشویش کو سمجھیں یقینناً وہ آپکی شکر گزار ہونگی اور آپ کی پارٹیز از سر نو قائد اعظم کی منشا کی روشنی میں انکے خوابوں کی تعبیر کا کام کریں گی اور آئین کے برابر کے حقوق کے تحت اقلیتیں آئین سے متصادم قانون سازی سے بھی چھٹکارہ پائیں گی اور کالے قانون کا خاتمہ ہوگا ان حالات میں میاں محمد نواز شریف اقلیتوں کی حالت زار پر غور کرکے انکے حقوق اور مطالبات کے تحت انہیں پارلیمینٹ میں آئین کے اس سقم کو دور کرکے قانون سازی میں انکی سر پرستی بھی کریں اور پیپلز پارٹی سے صدر پاکستان بھی اس نیک کام میں انکی معاونت کرے- اقلیتیں آپکی ہمیشہ شکر گزار رہیں گی –

آسودہء ساحل تو ہے مگرشاید یہ تجھے معلوم نہیں
ساحل سے بھی موجیں اٹھتی ہیں خاموش بھی طوفاں ہوتے ہیں

یہ خون جو مظلوموں کا ہے ضائع تو نہ جائےگا لیکن
کتنے ہیں مبارک قطرے ہیں جو صرف بہاراں ہوتے ہیں (جگر مراد آبادی) 

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading