ترستی روحانیت۔۔۔؟ : ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

عصر حاضر میں روحانیت کا خاصا بول بالا ہے۔ہر کوئی اپنی زبان پر روحانیت کی گردان چپکائے بیٹھا ہے۔ ایک نو مرید سے لے کر مرشد تک کی زبان اس لفظ کو نہ جانے دن میں کتنی بار چاٹتی اور چباتی ہے۔ اس لفظ کا ذائقہ بار بار چکھتی اور پھر اسے تھوک کے ذریعے باہر پھینک دیتی ہے۔ وہ اس لفظ کے ساتھ بار بار ہم کلام ہوتا ہے۔ وہ بار بار وعدوں کے پاسداری کرتا ہے۔ لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد اس کے وعدے ٹوٹ جاتے ہیں۔ موتیوں کی مالا کی طرح بکھر جاتے ہیں۔ وہ بار بار انہیں چنتا اور مالا بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ شاید اس کے وعدے کچے دھاگوں کی مانند بہت جلد ٹوٹ جاتے ہیں۔ کیونکہ ریت پر رکھی گئی دیوار بہت جلد زمین بوس ہو جاتی ہے۔ اسی طرح انسان کے خیالات ہوا میں بہت جلد تحلیل ہو جاتے ہیں۔ یعنی ہوا کی باتیں ہوا میں گم ہو جاتی ہیں۔ وہ ہوا کے جھونکوں کی طرح انہیں کوسوں میل دور پھینک دیتے ہیں۔جب کہ انسان کا ضمیر اسے بار بار ملامت کرتا اکساتا اور مجبور کرتا ہے۔ نصیحت کے جام بھی پلاتا ہے۔مگر وہ مدہوش ہی رہتا ہے۔ وہ غفلت کی نیند میں غرق رہتا ہے۔ سستی اور لاپرواہی کے بھوت اسے ایک جگہ ساکن بنا دیتے ہیں۔اس امر کے باوجود بھی اس کا دل اس بات کی بار بار گواہی دیتا ہے کہ مجھے
روح پرور ہونا چاہیے۔ میرے اندر روحانی جوش و جذبہ ہونا چاہیے۔ میری منشور میں روحانی چراغ جلنا چاہیے تاکہ سب کو روشنی پہنچ سکے۔ میں کھوجانے والوں کو اس چراغ کی روشنی سے ڈھونڈنے کام مصمم ارادہ رکھتا ہوں۔اسی کشمکش میں انسان بڑی بڑی باتیں کہہ جاتا ہے۔بڑے بڑے بڑے خود ساختہ دعوے کر جاتا ہے۔ انسان ان کا کہاں تک دفاع کرتا ہے۔ معلوم نہیں وہ اپنے خود ساختہ دعووں اس کا کہاں تک تحفظ کر سکتا ہے؟ خیر اس حقیقت کو تو خدا ہی بہتر جانتا ہے۔کیونکہ جب تک خدا انسان کا ساتھ اور قوت نہ دے وہ کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔دنیا تسخیر نہیں کر سکتا۔ صرف بحر و بر کا خالق و مالک ہی ہے جو ہمارے خیالات جانتا ہے۔ ہماری خواہشات سے واقف ہے۔شاید ذہن کی پردہ سکرین پر اور روزانہ نہ جانے کتنے خیالات ٹکراتے اور واپس چلے جاتے ہیں۔ ان کی تعبیر و تفسیر ہو پاتی ہے یا نہیں۔ یہ تو وقت کا عصا ہی بتا سکتا ہے کہ اس نے انصاف کے لیے کون سا میرٹ استعمال کیا ہے۔ اسی کشمکش میں نہ جانے کتنی شامیں تاریک اور کتنے دن غروب ہو جاتے ہیں۔اگر ہم اس حقیقت کو ٹٹولنا چاہیں۔
تو ہمیں کچھ اخلاقی ضابطے اور طرز زندگی پر غور و خوض کرنا پڑتا ہے۔ اپنی ذات پات کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا۔ وقت کی چال پر غور کرنا ہوگا۔ارد گرد کے ماحول پر بھی نظر رکھنا ہوگی۔ اپنی زندگی کا ایک تجزیاتی خاکہ تیار کرنا ہوگا۔ تاکہ پہلے اپنا احتساب ہو سکے اور پھر دوسروں کے لیے زبان کھل سکے۔
وہی بزرگ و برتر ہستی جو دلوں کے بھید جانتا ہے کہ کون روحانی یا جسمانی ہے؟ کس نے اپنے ماتھے پر روحانیت کا اصلی یا نقلی لیبل چپکایا ہے اور کس نے اصلی سندور لگایا ہے۔ جیسے ایک درخت کو اس کے پھل سے پہچانا جاتا ہے کہ وہ پھل در ہے یا بے پھل۔ اسی طرح ہر انسان اپنے کردار و اعمال سے پہچانا جاتا ہے۔ کیونکہ دنیا میں ہر چیز کو جانچنے کا ایک پیمائشی آلہ ہے جس کے استعمال سے مقدار اور حجم معلوم کیا جاتا ہے۔ انسان روزمرہ زندگی میں بہت سے دھوکے کھاتا ہے۔حالات و واقعات سے سبق سیکھتا ہے۔بیتی زندگی پر غور و خوض کرتا ہے۔ قدرتی رعنائیاں اسے ماحولیاتی حصہ بننے پر آمادہ کرتی ہیں۔ اگرچہ وقت حالات کا بے لاگ جائزہ لینے پر مجبور کرتا ہے۔کردار انسان کا اصلی چہرہ دکھا دیتا ہے۔ہماری باطل روحانیت مصنوعی لبادوں کے نیچے چھپے کالے کرتوت دکھا دیتی ہے۔ کیا کبھی ہم نے سوچا ہے روحانیت کی اصل تصویر کیا ہے؟ اس کے عرشی اور فرشی فوائد کیا ہیں؟
یقینا وقت کے ساتھ ساتھ انسان جسمانی اور روحانی تربیت سے آراستہ ہوتا جاتا ہے۔روحانیت کا اصل چہرہ دیکھنے کے لیے انسان کو ایک ضابطہ اخلاق دیا گیا ہے۔وہی انسان کی جھوٹی اور سچی روحانیت کا کھل کر احوال بیان کرتا ہے۔ جیسے جسم کے کام ہیں اسی طرح روح کے پھل ہیں۔ان پھلوں کی بدولت انسان کی پہچان و کردار کا سلسلہ بڑھتا ہے۔جسمانی خواہشات میں جلنے والا کبھی روحانیت کا لبادہ نہیں پہن سکتا۔ کیونکہ دونوں کی فضیلت و کرامات ایک دوسرے کے مخالف ہے۔یوں سمجھ لیجیے جیسے آسمان زمین سے بلند ہے۔اسی طرح ان کے درمیان حادثاتی فاصلہ ہے۔ یہ قدرتی عمل ہے کہ ان کا اتحاد و یگانگت نہیں ہو سکتا۔کیونکہ روح جسم کے خلاف خواہش کرتا ہے اور جسم روح کے خلاف۔ایک روحانی شخص کی زندگی میں حسد ، کینہ ، بغض ، لالچ ، حرام کاری ، عریانی ، شہوت پرستی ، نافرمانی ، تند مزاجی ، خودغرضی ، مکاری ، الزام تراشی ، شراب نوشی ، بت پرستی ، دھوکہ دہی جیسی ان گنت برائیاں نہیں ہوتیں۔ اس کی فطرت ان کاموں کو قبول نہیں کرتی۔ بلکہ اس کی فطرت میں روح کے پھلوں کا چراغ جلتا ہے۔ وہ دوسروں کے لیے بابرکت ٹھہرتا ہے۔ لوگ اس کی زندگی سے نمونہ اخذ کرتے ہیں۔ اس کی مثال دیتے ہیں۔
خدا تعالی نے الہامی مذاہب کے ذریعے اپنی شریعت دی ہے۔گناہ اور جرم کے درمیان تصور اجاگر کیا ہے۔ نیکی اور بدی کے درمیان واضح فرق بیان کیا ہے۔برائی کی مذمت کی ہے اور نیکی کو فروغ دینے کی تلقین کی گئی ہے۔ کیونکہ دنیا اور آخرت میں ہر اچھے کام کا اجر اور گناہ کی سزا کا ذکر ہے۔کڑی سزائیں انسان کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اگر ہر شخص اپنا احتساب کرنا سیکھ لے اور گناہ سے باز آئے تو وہ اپنے آپ کو روحانی صف میں کھڑا کر سکتا ہے۔
اگر ایک انسان اخلاق سے عاری اور خود غرضی کے نشے میں مبتلا ہو کر اپنے آپ کو روحانی منش کہلانے کی جسارت کرے تو اس کی خود ساختہ روحانیت سوالیہ نشان بن جائے گی۔دنیا میں جتنے بھی انبیاء اکبر اور انبیاء اصغر آئے ہیں۔ ان کا ایک روحانی مقام تھا۔ انہیں خدا کی قربت حاصل تھی۔انہوں نے انسانیت کو فروغ دیا۔ محبت اور بھائی چارے کی تلقین کی۔ دوریاں اور فاصلے مٹائے۔ مشکل وقت میں ایک دوسرے کی مدد کی۔ اچھے منصوبوں کی بنیاد رکھی۔فلاح و بہبود کے کام کیے۔ علم پھیلایا۔ جہالت مٹائی۔ اپنی نعمتوں کو خوب چمکایا۔ ادب و احترام سکھایا۔
اگرچہ زندگی جہدِمسلسل کا نام ہے۔آگے بڑھنے کی مشق ہے۔ اپنی خودی کا انکار کرنے کی ضرورت ہے۔ کمزوروں، لاچاروں ، بے بسوں اور یتیموں کے سر پر شفقت والا ہاتھ رکھنے کی ضرورت ہے۔ فلاح و بہبود کے ایسے منصوبے شروع کرنے کی ضرورت ہے جنہیں ابھی تک شروع نہیں کیا گیا۔ کیونکہ جیسے خدمت کو تجارت سے منسوب نہیں کیا جا سکتا ۔اسی طرح روحانیت کو جسمانیت کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔

نوٹ: “تادیب ” کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ہوتی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ “تادیب” ادیبوں، مبصرین اور محققین کی تحریروں کو شائع کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔

*******

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from Tadeeb

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading