میر تقی میر نے کیا خوب کہا ہے۔
کہیں کیا جو پوچھتے کوئی ہم سے میر
جہاں میں تم آئے تھے کیا کر چلے
کائنات خدا کے ہاتھ کی خوبصورت کاری گری ہے۔ جس میں آسمان و زمین ، جنگلات و بیابان، آب و ہوا، باغ و بہار ، عجائب و معجزات ، ندی و نالے، سونا و چاندی ، دریا و سمندر ، آبشاریں و مناظر ، باغات و فصلیں، میدان و پہاڑ ، پھول و پھل ، تارے و سیارے، سورج و چاند اور کہکشاؤں کے ان گنت جھرمٹ اس بات کے ترجمان ہیں کہ خدا ہر چیز پر قادر مطلق ہے۔اس نے کائنات کی ایک ایک چیز کو بڑے کرینے اور مقصد کے تحت پیدا کیا ہے۔بے شک دنیا کی ہر چیز کا اپنا ایک مقصد ہے۔ روز اول سے انسان ان مقاصد میں تلاش گمشدہ ہے۔
وہ ہر چیز کا کھوج لگانے کے لیے سرگرم ہے۔وہ شب و روز چیزوں کے بارے میں سوچتا اور پرکھتا ہے کہ فلاں چیز کس مقصد کے تحت پیدا کی گئی ہے؟ سوالات کے جواب تلاش کرتے کرتے وہ دار فانی سے کوچ کر جاتا ہے۔مگر اس کی زندگی خود سوالیہ نشان ہی رہتی ہے۔بلاشبہ تحقیق، تخلیق اور تنقید انسانی فطرت کا خاصا ہے۔ اگرچہ یہ رچاؤ زندگی بھر اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔انسان پر یہ سوال بھوت بن کر سوار رہتا ہے کہ فلاں چیز ایسی کیوں ہے؟ بلا شبہ قدرت تحریک دے کر انسان کو اکساتی اور بے لاگ تجزیہ پر مجبور کرتی ہے۔خدا کے معجزوں ، کرشموں، دریافتوں ، کارناموں ،نشانوں کو دیکھ کر زبان پر اس کی تعریف و توصیف کے کلمات رشک و تحسین کے پھول نچھاور کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
قلب و ذہن قدرت کے کاموں کی حامی بھرنے لگتا ہے۔مناظر فطرت اسے اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔
دل احساسات اور جذبات سے بھر جاتا ہے۔اس کے ہر کام کی ترغیب و ترتیب دیکھ کر دل یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کوئی تو ہے جو نظام کائنات چلا رہا ہے۔
اس کا جاہ و جلال آسمان و زمین کو منور کیے ہوئے ہے۔اس نے زمین کو کہیں زرخیز اور کہیں بنجر بنا دیا ہے۔کہیں معدنیات کے ذخائر اور کہیں چشموں کے سوتے پھوٹتے ہیں۔کہیں پہاڑ ہیں اور کہیں برف کے تودے۔ کہیں اونٹ کٹارے ہیں اور کہیں پھلوں کے باغات ۔ گنبد افلاک کو اس نے چاند ،سورج، ستاروں اور کہکشاؤں سے مزین کر رکھا ہے۔
خدا نے انسان کی تخلیق کے بعد اسے حکم صادر کیا کہ بڑھلو، پھلو اور زمین کو معمور و محکوم کرو۔
تاہم یہ سلسلہ حضرت آدم سے شروع ہوا اور تا حال فرزند آدم تک جاری و ساری ہے۔خوش آئند بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ آج تک نہ رکا ہے اور نہ تما ہے۔بلکہ یہ نسل در نسل زمین کی حدوں اور وسعتوں میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے۔امید ہے جب تک دنیا قائم و دائم ہے یہ سلسلہ اسی طرح نشوونما کے مراحل طے کرتا رہے گا۔ہر انسان کو اس کے کرشماتی بھیدوں کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اس حقیقت کا بے لاگ اقرار کرنا چاہیے کہ کائنات کی چیزوں کا علم اس کی سوچ بچار سے باہر ہے۔فقط ہمارے حواس خمسہ پر جو چیزیں اثر انداز ہوتی ہیں ہم صرف انہیں احساسات ، جذبات ، افکار ، تجربات اور مشاہدات کا نام دیتے ہیں۔
جبکہ باقی ہماری کوتاہی اور لاعلمی کے باعث نظر انداز ہو جاتے ہیں۔
تھوڑا یا بہت علم جاننے کے بعد انسان کی جنونیت اور فرعونیت اس کی سرشت میں غرور کا کانٹا بو دیتی ہے۔وہ دوسروں کو حقیر اور خود کو خدا سمجھنے لگ جاتا ہے۔جیسے ساری دنیا اس نے فتح کر لی ہے۔اگرچہ روز اول سے انسان سے حماقتیں، غلطیاں اور نادانیاں سرزد ہوئی ہیں۔ جن کا انجام ذلت و رسوائی کی صورت میں ملتا ہے۔ تاریخ اس حقیقت کا بڑی بے باکی سے پردہ چاک کرتی ہے کہ انسان کا سارا غرور مٹی میں مل جاتا ہے۔اس کے دعوے غلط ثابت ہو جاتے ہیں ۔اس کی شوخیاں ملیا میٹ ہو جاتی ہیں۔اس سے اختیار کا عصا چھن جاتا ہے۔ ایک نہ ایک دن دولت بھی اس کا ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔ اسی طرح ایک دن آتا ہے کہ سب لوگ اس کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ بے بسی کے عالم میں جب وہ اپنے سارے حقائق کو ذہن کی پردہ سکرین پر لاتا ہے تو پھر وہ خدا سے شکوؤں پر اتر آتا ہے۔ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتا ہے اور دوسروں سے گلے شکوے کرتا ہے۔
کیا کبھی ہم نے اس حقیقت پر غور کیا ہے؟ کیا کوئی ایسا ہے جو اس کا مقابلہ کر سکے؟ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔کیونکہ دنیا کی تاریخ ان باتوں کی شہادت دیتی ہے کہ کئی نمرود جیسے بادشاہ آئے اور صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔وہ خاک ہو گئے۔ان کی شان و شوکت کا سورج غروب ہو گیا۔
عصر حاضر میں غور طلب بات یہ ہے انسان اس کے ہاتھ کی کاری گری ہے۔اس نے ہمیں اپنی شبیہ و صورت پر بنایا ہے۔ دنیا میں ہمارا قیام عارضی ہے بلکہ ستر یا اسی دہائیوں پر مشتمل ہے۔اس کے بعد ہماری یاد جاتی رہتی ہے۔نسل در نسل یہ سلسلہ بنی آدم کو آدمیت، بشریت ، روحانیت اور اخلاقیات کا سبق پڑھا رہا ہے۔مگر افسوس! انسان ان ساری باتوں کو جاننے کے باوجود بھی سرکش بنا بیٹھا ہے۔حکم عدولی نے اسے باغیانہ رویہ پر مجبور کر دیا ہے۔خدا چونکہ رحیم و غفور ہے۔اس نے ہر انسان میں صلاحیتوں کا ایک جم غفیر رکھا ہے۔یہ اس کی مرضی ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائے یا انہیں زنگ الودہ بنا لے۔وقت حالات اور موسم انسان کو مسلسل آگاہ کرتے رہتے ہیں کہ انسان کی حیثیت کیا ہے؟ وہ دنیا میں کیوں آیا ہے؟ زندگی کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟ انسان زندگی کی کس سمت میں دوڑ رہا ہے؟ کیا جس سمت وہ سفر کر رہا ہے۔کیا اس کا کوئی دروازہ یا منزل بھی ہے جس پر پہنچ کر وہ کہہ سکے کہ میں جیت گیا ہوں۔
زندگی کی دوڑ میں ہم کہاں چلے گئے؟
ہم رہتے زمین پر ہیں مگر ہماری سوچ بادلوں پر رقص کرتی ہے۔ہمارے پاؤں زمین پر نہیں ٹکتے۔ہمارے خیالات آسمان سے باتیں کرتے ہیں۔ہم خود غرضی کے جال میں پھنس چکے ہیں۔زندگی کی دوڑ میں ہر کوئی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے بھاگ رہا ہے۔دولت کی کثرت نے انسانوں کو بے حسی کے ماحول میں پھینک دیا ہے۔ہم دولت کو انقلاب کا دیوتا سمجھ بیٹھے ہیں۔اس لیے سب اسے ماتھا ٹیکنے پر مجبور ہیں۔اس کے اگے جھکے بغیر کوئی ترقی نہیں کر سکتا کیونکہ ہمارے منشور میں اس بلای عظیم کا بت نصب ہو چکا ہے۔ہم خواہشات کے بھنور میں پھنسے ہوئے لوگ ہیں۔کبھی کامیابی ہمارا مقدر بن جاتی ہے اور کبھی ناکامی ہماری قسمت کا احوال سنا دیتی ہے۔
:کیا کبھی ہم نے سوچا
زندگی پانی کی طرح ہے جو بکھر جانے کے بعد اکٹھا نہیں ہوتا۔
زندگی بخارات جیسی ہے جو اڑنے کے بعد واپس نہیں لوٹتے۔
زندگی پھول کی طرح ہے جو مرجانے کے بعد خوشبو نہیں دیتا۔
زندگی خیال کی طرح ہے جو گزرنے کے بعد واپس نہیں آتا۔
زندگی پرچھائی کی طرح ہے جو ختم ہونے کے بعد دوبارہ نہیں بنتی۔
زندگی بادل کی طرح ہے جو برس کر غائب ہو جاتے ہیں۔
زندگی کے مندرجہ بالا حقائق کو سامنے رکھ کر ضرور سوچیے۔ان حقائق پر ضرور غور و خوض کیجئے جو زندگی کو برکت اور لعنت جیسے تصور سے آگاہ کرتے ہیں۔دوسروں کے ساتھ موازنہ کرنے کی بجائے اپنی زندگی کی تجزیاتی رپورٹ تیار کریں اور معلوم کریں میں زندگی کی کتنے فیصد دوڑ دوڑچکا ہوں۔۔۔۔۔؟
*******
بہت خوب ڈاکٹر شاہد ۔۔۔۔۔کیا ہلکے پھلکے انداز میں زندگی کا فلسفہ بیان کیا ہے۔ دعا
گو ہوں زور بیاں میں آپ کا قلم متحرک رہے۔ امین